اس سال عید کے دن صدر ایران نے سعودی عرب کے محمد بن سلمان کو عید مبارک کا پیغام بھی دیا۔ بلکہ ایک اور کام بھی عمل میں آیا ۔
EPAPER
Updated: May 02, 2023, 10:27 AM IST | Hasan Kamal | Mumbai
اس سال عید کے دن صدر ایران نے سعودی عرب کے محمد بن سلمان کو عید مبارک کا پیغام بھی دیا۔ بلکہ ایک اور کام بھی عمل میں آیا ۔
سعودی عرب اور ایران میں سفارتی تعلقات کی بحالی کے بارے میں یہ ہمارا دوسرا مضمون ہے۔ پہلے مضمون میں ہم نے صرف اس بات کا احاطہ کیا تھا کہ دو ہم مذہب ممالک کے بگڑے تعلقات کو بحال کرنے میں ایک ایسے ملک چین کا ذکر کیا تھا ، جس کا مبینہ طور پر اپنا کوئی مذہب نہیں ہے، یعنی جو لا مذہب ہے۔ فی الحال ہم اس ستم ظریفی کو یہیں تک رکھتے ہیں۔ اس مضمون میں ہماری کوشش یہ بتانے کی ہوگی کہ تعلقات کی اس بحالی کا اثر صرف ان دو ممالک تک ہی محدود نہیں رہے گا۔ہمیں معلوم نہیں کہ یہ خبریں ہمارے میڈیا کو بھی ملی ہیں کہ نہیں ، لیکن ہم آپ کو بتاتے ہیں کہ نہ صرف چین میں عرب اور ایرانی افسروں میں ملاقاتیں ہوئی ہیں بلکہ اس سال عید کے دن صدر ایران نے سعودی عرب کے محمد بن سلمان کو عید مبارک کا پیغام بھی دیا۔ بلکہ ایک اور کام ہوا جو کسی بھی متحارب حکومتوں میں امن کے قائم کی ایک مبارک کوشش سمجھی جاتی ہے۔ سعودی عرب نے ۱۰۴ ؍یمنی قیدیوں کو رہا کر دیا اور ایران نے اس عمل کو سراہا۔
یہ ابھی طے تو نہیں ہے، لیکن مشرق وسطیٰ اس خبر سے گونج رہا ہے کہ محمد بن سلمان نے صدر ایران کی طرف سے دی جانے والی ایران آمد کی درخواست بھی قبول کر لی ہے۔ اگر یہ ہوا تو یہ عرب دنیا ہی میں نہیں سارے ایشیا میں امن کی بحالی کا ایک اہم اقدام ہوگا۔ سعودی عرب اور ایران میں بظاہر سفارتی تعلقات بحال ہی تھے ، لیکن دو تین سال پہلے جب سعودی عرب نے یمن پر ایک بڑی فوج کشی کی تھی، جس میں ہزاروں یمنی مارے گئے تھے اور اس کے بعد جب حوثی باغیوں کی طرف سے عرب تیل ریفائنریوں پر میزائل حملہ کر کے سعودی عرب کو بڑا نقصان پہنچایا گیا تھا تو بظاہر نظر آنے والے سفارتی تعلقات بھی ختم ہو گئے تھے۔ ان تمام معاملات میں امریکہ کا دخل تھا، اس کی کہانیاں ساری دنیا جانتی ہے۔ یہ نہ بھولئے کہ سعودی عرب امریکی ہتھیاروں کا دنیا میں سب سے پہلا اور سب سے بڑا خریدار ہے۔ یہ بھی ایک ستم طریفی ہے کہ ایران اور اسرائیل ایک دوسرے کے بہت بڑے دشمن ہیںیا سمجھے جاتے ہیں ، لیکن ایران اور اسرائیل میں سفارتی تعلقات تھے۔ ان تعلقات میں صرف اب کچھ فرق آیا تھا، لیکن تعلقات ختم نہیں ہوئے ہیں۔ دوسری طرف سعودی عرب اور اسرائیل میں کبھی کوئی سفارتی تعلقات نہیں تھے، لیکن ڈونالڈ ٹرمپ نے ’’ابراہام پیکیج‘‘ کے نام سے ایک پلاننگ کی تھی اور عربوں کو سمجھایا تھا کہ یہودیوں اور مسلمانوں کے آباء واجداد حضرت ابراہیم تھے اور اب ان دونوں کو پھر ساتھ آجا نا چاہئے۔ شاید کچھ عرب ریاستیں بھی اسرائیل اور عرب دشمنی سے خوش نہیں تھیں اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ کچھ عرب تاجر اسرائیلی تاجروں کے ساتھ تجارت بھی کر رہے تھے، اس پلاننگ کی آڑ لے کر کئی عرب ریاستوں نے لپک لپک کر اسرائیل سے دوستی کر لی ۔ ان تمام معاملات میں فلسطینیوں کے حقوق اور ان کی جد و جہد کو بالائے طاق رکھ دیا گیا ہے، بلکہ محمد بن سلمان نے ایک بار پھر کہا ہے کہ جب تک فلسطینی عوام اور دوسری ریاست کا معاملہ طے نہیں ہو جاتا، تب تک اسرائیل کے ساتھ کوئی سمجھوتہ ممکن نہیں ہے۔ یہ بھی ایک ستم ظریفی ہے کہ چین نے اب اسرائیل کی گھری ہوئی حکومت کو مشورہ دیاہے کہ وہ اسرائیل اور فلسطین کے تنازع کو بھی حل کرانے کی کوشش کر سکتا ہے اور کچھ عجب نہیں کہ یہ معاملہ بھی کسی دن طے ہوتا نظر آنے لگے۔
اسلامی ممالک خصو صاً عرب ممالک میں آبادیوں کی اکثریت عام طور پر ان مسلمانوں کی ہے،جو خود کو سنی المسلک کہتے ہیں، سعودی عرب کے صرف جنوبی حصے میں شیعہ مسلک والے مسلمانوں کی ایک اچھی خاصی تعداد ہے۔ اس کے علاوہ کویت، بحرین دو ایک ریاستوں میں شیعہ بڑی تعداد میں موجود ہیں۔ شام میں اکثریت تو سنیوں کی ہے، لیکن وہاں ایک اور مسلک کا سیاست پر غلبہ ہے، اسے علوی مسلک کہا جاتا ہے۔ اسی طرح عراق میں اکثریت تو شیعوں کی ہے، لیکن وہاں کی سیاست پر بھی سنیوں کی اکثریت ہے۔ ان مسلکی اختلافات کی وجہ سے ان دونوں مسلکوں میں ایک سماجی تنائو تو ضرور ہوتا رہا ہے،لیکن ان تنازعات کے سبب ان میں تصادم کی نوبت نہیں آتی۔ اس تنائو کی وجہ سے دونوں فرقوں میں سیاسی اور خاص طور پر کاروباری میدانوںمیں بھی کوئی بڑے اختلافات نہیں دیکھے گئے۔ ان میں آپس میں شادیاں بھی ہوتی ہیں اور کاروباری تعلقات بھی ہیں۔ کسی بھی تنازع کو طوالت دینے کے لئے کسی نہ کسی وجہ کی ضرورت بہر حال ہوتی ہے۔ سعودی عرب اور ایران کے سیاسی اختلافات بھی اسی کی نذر ہوتے رہے ہیں۔ کسی بھی جھگڑے کا فائدہ اٹھانے والوں نے اس اختلاف کوہوا دی اور فائدہ بھی اٹھایا، لیکن عراق اور ایران کی جنگ کی وجہ سے عوام کو یہ شعور بھی ہو چکا ہے کہ معاملہ میں صرف فائدہ اٹھانے وا لے ہی مستفید ہوتے ہیں باقیوں کا ہر طرح سے نقصان ہوتا ہے لیکن عرب اور سعودی صلح کے امکان نے اب لوگوں کو بہت کچھ سمجھا دیا ہے۔ کم از کم یہ تو بتا ہی دیا ہے کہ ہر لحاظ سے ان تنازعات سے عرب اور ایران کا وہ نقصان ہوا ہے جس کی سزا کئی نسلیں بھگت چکی ہیں۔ اب یہ بھی اندازہ ہو رہا ہے کہ سنی اور شیعہ اختلافات کی بڑی وجہ مذہبی نہیںہے، صرف ہسٹری کی ہے۔
اس کالم کے راقم کا تعلق ملک کی اس سرزمین سے ہے، جسے تاریخ اودھ کے نام سے جانتی ہے۔ یہ وہ علاقہ ہے جہاں وہ تہذیب اور صفت موجود ہے جسے لکھنؤ کی تہذیب کا نام دیا جاتا ہے۔ اودھ اور اس کے ارد گرد کے کئی علاقے شیعہ جاگیر داروں اور زمینداروں کے زیر نگیں تھے۔ یہ ان ہی لوگوں کے آداب و اخلاق تھے جسے لکھنؤ کی تہذیب کہا گیا۔ یہ سماج کی بہت اعلیٰ قدریں تھیں لیکن جاگیر داری اور زمینداری کے خاتمے کے بعد ان اہل تشیع کی اشرافیہ حیثیت بھی مجروح ہو گئی، چونکہ ان میں جدید تعلیم سے نا آشنائی تھی اس لئے ستم ہائے روزگار کرنے کیلئے ان کے پاس اپنی جائیدادیں بیچنے کے سوا کوئی راہ نہیں تھی۔ جائیداد بیچنے والوں اور خریدنے والوں میں ایک فطری رنجش ہوتی ہے۔ پھر ان رنجشوں سے فائدہ اٹھانے والے بھی آجاتے ہیں۔ یہ رنجشیں جلد ہی تصادم میں بدل گئیں۔ ہمیں اپنے بچپن سے جوانی تک کے وہ دن یاد ہیں جب ایسا معلوم ہوتا تھا کہ سارے عالم کی شیعہ سنی رنجش اودھ میں سمٹ گئی تھی۔
یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ سنگھ پریواروالوں نے اس کا کتنا فائدہ اٹھایا۔ سنی عربوں سے ہمدردی رکھتے تھے اور شیعہ ایرا نیوں سے مگر اب نظر آرہا ہے کہ عرب ایران اتحاد ان دو فرقوں پر بھی اثر ڈال رہا ہے۔ یہ ہوا تو اس اتحاد کے دور رس اثرات کا حامل ہوگا۔