اہل اقتدار عوامی مسائل پر اظہار خیال نہ کرنے اور کسی سلگتے ہوئے موضوع پر خاموش رہنے کی عجب روایت قائم کررہے ہیں۔
EPAPER
Updated: June 14, 2023, 11:49 AM IST | Mumbai
اہل اقتدار عوامی مسائل پر اظہار خیال نہ کرنے اور کسی سلگتے ہوئے موضوع پر خاموش رہنے کی عجب روایت قائم کررہے ہیں۔
اہل اقتدار عوامی مسائل پر اظہار خیال نہ کرنے اور کسی سلگتے ہوئے موضوع پر خاموش رہنے کی عجب روایت قائم کررہے ہیں۔ خاتون پہلوانوں کی شکایات مہذب معاشرہ کیلئے کلنک ہے مگر اس پر کس اذیت ناک خاموشی کا مظاہرہ جاری رہا اس سے سب واقف ہیں۔ کسانوں کی جانب سے ایم ایس پی کے مطالبے کو بھی سامنے رکھئے اور اس کے جواب کو بھی ملاحظہ کیجئے جو سوائے سناٹے کے کچھ ا ور نہیں تھا۔ اب بھی یہی کیفیت ہے۔ بے روزگاری اور ملک کی معاشی حالت ایک مستقل سوال بن گیا ہے مگر ایسا لگتا ہے کہ اہل اقتدار ہر معاملے میں کچھ کہنے کو اپنی ذمہ داری نہیں سمجھتے خواہ کوئی معاملہ عوام کا بنیادی مسئلہ بن چکا ہو۔
مگر، برسراقتدار جماعت کے کئی لیڈران ایسے ہیں کہ غیر ضروری معاملات اور موضوعات پر نہ صرف بولتے ہیں بلکہ خوب بولتے ہیں۔ حال ہی میں مرکزی وزیر گری راج سنگھ نے، جو بہار سے رکن پارلیمان ہیں، ناتھو رام گوڈسے کو ’’بھارت ماتا کا سپوت‘‘ اور اس کے چند روز قبل اتراکھنڈ کے سابق وزیر اعلیٰ ترویندر سنگھ راوت نے گوڈسے کو محب وطن قرار دیا۔ ہماری سمجھ میں نہیں آتا کہ رہ رہ کر یہ ’’گوڈسے پریم ‘‘ کیوں چھلکنے لگتا ہے؟ جب ۲۰۱۹ء میں مشہور زمانہ رکن پارلیمان پرگیہ سنگھ ٹھاکور نے بھی کچھ ایسی ہی حرکت کی تھی تب وزیر اعظم مودی نے مذمت کی اور کہا تھا کہ وہ اُنہیں (پرگیہ سنگھ کو) کبھی معاف نہیں کرپائیں گے مگر پھر کیا ہوا؟ پھر یہ ہوا کہ وزیر اعظم نے اس موضوع پر دوبارہ کبھی کچھ نہیں کہا جس سے یہ مفہوم اخذ کیا جاسکتا ہے کہ اُنہوں نے ’’معاف نہ کرسکنے‘‘ کے باوجود معاف کردیا۔ نہ کیا ہوتا تو اُن کے خلاف کوئی کارروائی کی جاتی!
مسئلہ یہی ہے کہ ایسے معاملات میں کارروائی نہیں ہوتی۔ گوڈسے کو ہیرو باور کرانے والوں کے خلاف کارروائی تو کیا اُنہیں متنبہ تک نہیں کیا جاتا جس کا نتیجہ ہے کہ ’’گوڈسے پریم ‘‘ بڑھتا جارہا ہے۔ کوئی ان سے پوچھے کہ یہ پریم اچانک کیوں پیدا ہوگیا؟ گوڈسے کو ۱۵؍ نومبر ۱۹۴۹ء کو پھانسی دی گئی تھی۔ تب سے لے کر اب تک پون صدی کا عرصہ گزر چکا ہے، پریم کی یہ جوالا اپنا پریچے اب کیوں کروا رہی ہے اس سے پہلے کہاں تھی؟ کوئی ان سے پوچھتا نہیں ہے، اگر پوچھ لے تو ان کے پاس جواب نہیں ہوگا۔ گری راج اور راوت جس سیاسی جماعت سے تعلق رکھتے ہیں اس کے لیڈروں نے پہلے کبھی کہا ہے کہ ’’ملک کی جو حالت ہے وہ نہ ہوتی اگر آزادی کے بعد نہرو کے بجائے سردار پٹیل کو وزیر اعظم بنایا گیا ہوتا۔‘‘ اگر ان کا ’’سردار پریم‘‘ اصلی ہے تو انہیں سردار پٹیل کے خطوط کا مطالعہ کرنا چاہئے جو کتابی شکل میں شائع ہوچکے ہیں۔ اُس دور کی قانون ساز اسمبلی کے رُکن برجیشور پرساد نے سردار پٹیل سے گوڈسے کی جاں بخشی کی درخواست کی اور یہ لکھا تھا کہ اگر گاندھی جی بقید حیات ہوتے تو ایسے معاملے میں اُن کا فیصلہ کیا ہوتا۔
سردار پٹیل نے خط کے جواب میں کہا تھا کہ ’’کوئی شخص مجھ سے بہتر نہیں جانتا کہ ایسے معاملہ میں گاندھی جی مجھ سے کیا توقع کرتے، اس لئے آپ اس معاملے کو یہیں چھوڑ دیجئے۔‘‘ سب جانتے ہیں کہ سردار پٹیل اپنے موقف پر قائم رہے اور گوڈسے کو پھانسی ہوئی۔ جب پٹیل نے گوڈسے کو دھرتی پُتر اور محب وطن نہیں مانا تھا تو یہ لوگ کون ہیں جو گوڈسے کی محبت میں بیان پر بیان داغتے رہتے ہیں؟
کیا ان کی گوشمالی نہیں ہوسکتی؟ آخر یہ دُہرا معیار کب تک جاری رہے گا کہ گاندھی سے عقیدت بھی رکھی جائے اوراُن کے قاتل کو محب وطن بھی کہا جائے؟