Inquilab Logo

خدابچائے ہندوستان کو ان نادان دوستوں سے

Updated: January 19, 2021, 1:25 PM IST | Hasan Kamal

امریکی کانگریس میں صدر ٹرمپ کے خلاف مواخذہ کی تجویز۳۵ ؍ ووٹوں کی اکثریت سے پاس ہو جانے کے بعد اسپیکر نینسی پلوسی نے ۶؍ جنوری کے ہنگاموں میں شامل عناصر کو مقامی دہشت گرد قرار دیا۔

Capitalo Hill - Pic : PTI
کیپٹل ہل پر حملہ ۔ تصویر : پی ٹی آئی

گزشتہ ۶ جنوری کو امریکی دارالحکومت واشنگٹن میں جو کچھ ہوا، اس نے بہت سے امریکیوں کا  بھرم چکنا چورکر دیا۔جو امریکی یہ سمجھتے تھے کہ حمایت یا مخالفت کی حدیں ہوتی ہیں جنہیں پار نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن مذکورہ تاریخ کو  ایسے امریکی بھی سکتے میں آگئے جنہیں یقین نہیں آرہا تھا کہ ڈونالڈ  ٹرمپ نے صرف چار سال میں امریکہ کو کس حد تک گرا دیا ہے۔ ٹرمپ نے سیاست کی بھاشا کو فحش، پست اور بازاری بنا دیاہے اور اس میں تشدد کی آمیزش بھی کر دی ہے، جو ایک عرصہ سے متروک تھی۔ بہر حال  یہ فیصلہ امریکی عوام کو کرنا ہے کہ اسے کیسے بدلا جائے اور کتنی جلدی بدلا جائے۔ اس میں تو شک نہیں کہ مذکورہ تاریخ کو واشنگٹن میں جو بھیڑ اکٹھا تھی ، اس میں اکثریت سماج دشمن عناصر کی تھی جن میں اچھی خاصی تعداد عورتوں کی بھی تھی۔ پولیس فائرنگ میں مرنے والی  ایک عورت ہی تھی۔ 
  بہر حال ہماری تشویش کی وجہ کچھ اور ہے۔ٹرمپ کی حمایت میں تشدد پر آمادہ جو بھیڑ جمع ہوئی تھی، اس میں  شامل افراد اپنے اپنے ہاتھوں میں مختلف جھنڈے لئے ہوئے تھے۔ کسی کے ہاتھ میں امریکہ کا قومی پرچم تھا تو کوئی ر ی پبلکن پارٹی کا پر چم لہرا رہا تھا۔ لیکن ہندوستان میںٹی وی پر یہ تماشہ دیکھنے والوں کے یہ دیکھ کر ہوش اڑ گئے کہ ایک کونے میں کچھ لوگ ترنگا جھنڈا بھی لہرا رہے تھے۔سمجھ میں نہیں آرہاتھا کہ امریکہ  میں ہونے والے ایک سیاسی مظاہرے میں ترنگے کا کیا کام۔بی جے پی میں بھی سنسنی پھیل گئی۔  اسے یہ اندازہ ہو گیا کہ اس واقعے نے پارٹی کو ایک ایسی صورتحال سے دو چار کر دیا ہے ، جس کے نتائج فوری بھی ہو سکتے ہیں اور جو بائیڈن کے صدر بن جانے کے بعد تواور بھی مشکلات بھرے ثابت ہو سکتے ہیں۔  اس نے معلوم کیا کہ جھنڈا تھامے ہوئے دو افراد ہندوستانی تھے۔   ان میں سے ایک کیرل کا رہنے والا ونسنٹ زیوئیرس ہے۔ بی جے پی آئی ٹی سیل کی بانچھیں کھل گئیں۔ اس نے فوراََ شور مچانا شروع کر دیا کہ یہ شخص عیسائی ہے اور ہندوستان کو بدنام کرنا چاہتا تھا۔ سیل نے اس کا کانگریسی لیڈرششی تھرور کے ساتھ ایک فوٹو بھی ڈھونڈ نکالا۔ لیکن جلد ہی  یہ پتہ چلا کہ ونسنٹ  کے ساتھ جو دوسرا شخص تھا ، جھنڈا وہی تھامے ہوئے تھا۔ اس شخص کا نام کرشنا گوڈی پڈا ہے ۔ یہ بھی کیرل کا رہنا والا ہے۔ کوئی ویڈیو کلپ جعلی ہے یا بنایا ہوا ہے اس کا پتہ لگانے ولے ایک ویب پورٹل آلٹ نیوز نے یہ بھی معلوم کر لیا کہ کرشنا گوڈی پڈا امریکہ میں مقیم ہے اوروہ امریکہ میں ہندوستانیوں کی ایک تنظیم وشو ہندو سینا کا صدر بھی ہے۔ 
 آلٹ نیوز نے یہ بھی معلوم کر لیا کہ ونسنٹ کا ششی تھرور کے ساتھ والا فوٹو گراف بہت پرانا ہے۔ وہ مودی کا بہت بڑا بھکت بن چکا ہے۔ آلٹ نیوز نے ونسنٹ کا ممبئی سے رکن پارلیمان پونم مہاجن کے ساتھ ایک تصویر بھی دکھا دی۔ یہ بھی معلوم ہو گیا کی کرشنا گوڈی پڈا نے ٹرمپ کی پارٹی کے امیدواروں کا ارنب گوسوامی کے نیوز چینل پر انٹرویو کروانے میں بھی مدد کی تھی۔ معاملہ صرف یہ نہیں ہے کہ یہ انتہائی مذموم اور خطر ناک حرکت کرنے والے کون ہیں۔ معاملہ یہ ہے کہ اس حرکت سے امریکہ میں مقیم  ہندوستانیوں کو کس پریشانی اور ندامت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے اور ہند امریکہ سفارتی تعلقات پر اس کا کیا اثر پڑ سکتا ہے۔ ٹرمپ کیلئے کیا جانے والا مظاہرہ امریکی تاریخ کا حصہ بن چکا ہے۔  جب بھی اس منظر کو یاد کیا جائے گا، لہراتے ہوئے ترنگے کی یاد تازہ ہو جائے گی۔ امریکی کانگریس میں صدر ٹرمپ کے خلاف مواخذہ کی تجویز۳۵ ؍ووٹوں کی اکثریت سے پاس ہو جانے کے بعد اسپیکر نینسی پلوسی نے ۶ ؍جنوری کے ہنگاموں میں شامل   عناصر کو مقامی دہشت گرد قرار دیا۔ افسوس صد افسوس کہ ان مقامی دہشت گردوں میں دو ہند نژاد امریکی بھی موجود ہیں۔ 
 ونسنٹ اور کرشنا کے ساتھ ہی ہندوستان کے نادان دوستوں کی فہرست میں بی جے پی کے یوتھ ونگ کے صدر اور لوک سبھا کے سب سے کم سن ممبر تیجسوی سوریہ کا نام بھی شا مل کر لیا جانا چاہئے۔یہ وہی شریمان ہیں جنہوں نے برسوں پہلے عرب عورتوںکے تعلق سے  بیہودہ  ٹویٹ کیا تھا جس پر دبئی کی  شہزادی ہند القاسمی نے زبردست احتجاج کیا تھا۔ بات نریندر مودی تک پہنچی تھی، جنہوں نے خود بھی اظہار معذرت کیا تھا اور تیجسوی سوریہ کو یہ نا معقول ٹویٹ ڈلیٹ کرنا پڑا تھا۔ اس بار بھی انہوں نے ایک انتہائی نا معقول حرکت کی ہے ۔  ٹویٹر کمپنی نے  جب  ڈونالڈٹرمپ کا ٹویٹراکاؤنٹ پہلے معطل پھر بند کر دیا کیونکہ ٹرمپ نے اپنے حامیوں کو تشدد کی ترغیب دی تھی تو تمام دنیا میں اس اقدام کا خیر مقدم کیا گیا۔ امریکہ میں بھی ٹرمپ   حامیوں کے سوا کسی نے اس اقدام کی مذمت نہیں کی۔ بدقسمتی سے ٹویٹر کے  کے خلاف پہلی صدائے احتجاج ہندوستان ہی سے بلند ہوئی۔ یہ صدا بلند کرنے والے بھی کوئی اورنہیں ،یہی شریمان تیجسوی سوریہ تھے۔    انہوں نے کہا کہ جب ٹویٹر کمپنی ایک اتنے طاقتور ملک کے صدر کے خلاف اتنا بڑا قدم اٹھا سکتی ہے ، تب تو کوئی بھی محفوط نہیں محسوس کر سکتا۔ انہوں نے حکومت ہند سے بھی اس اقدام کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنے کی اپیل کی۔ ویسے ان کا ڈر بیجا بھی نہیں ہے۔  بی جے پی آئی ٹی سیل کے دو روپے فی ٹویٹ کے عوض مودی سرکارکیلئے قصیدہ خوانی کرنے اور ان کے مخالفین پر غلیظ گالیوں کی بارش کرنے والے تو یقیناًخود کو محفوظ محسوس نہیں کریں گے۔ بلکہ ان کا اب تک ٹویٹرپر محفوظ رہنا کمپنی کی افادیت پر سوال کھڑا کرتا ہے۔ 
 تیجسوی سوریہ جیسوں سے تو خیر اس کی امید کرنا فضول ہے ، لیکن انتظامیہ کو تو یہ احساس ہونا  چاہئے کہ ان باتوں سے ۲۱؍ جنوری ۲۰۲۱ء سے امریکی ایڈمنسٹریشن سنبھالنے والے کا کیا رد عمل سامنے آسکتا ہے۔ کیا اس سے یہ پیغام نہیں دیا جا رہا ہے کہ بی جے پی ، موجودہ سرکار اورمجموعی طور پر ہندوستان میں ٹرمپ کے حمایتی موجود ہیں۔دونوں ملکوں میں جب معاملہ بندیوں کا وقت آئے گا تو امریکی ایدمنسٹریشن کا ہماری طرف رویہ کوئی بہت دوستانہ نہیں ہوگا۔ یہ جاننے کیلئے خارجہ امور کا ماہر ہونا ضروری نہیں ہے۔ لیکن اس کا کیا کیا جائے کہ گزشتہ سال واشنگٹن کی ’’ہاوڈی مودی ریلی‘‘کا مشورہ وزیر خارجہ شنکر سبرامنیم اور نیشنل سیکوریٹی ایڈوائزراجیت ڈوبھال نے دیا تھا، جس میں  مودی نے ’’اب کی بار ٹرمپ سرکار‘‘ کانعرہ لگایا تھا۔ اس وقت ہمارا ملک  ایک  نازک موڑ پر کھڑا ہے۔ ہمارا کوئی پڑوسی ہمارا دوست نہیں نظر آرہا ہے۔ تین سپر پاور یعنی امریکہ ، روس اور چین میں سے کسی ایک کو بھی ہم اپنا دوست نہیں کہہ سکتے۔ امریکہ سے ہمارے تعلقات بہت خراب نہیں ہیں، لیکن جو غیر ذمہ دارانہ باتیں اور نامعقول حرکتیں کی جا رہی ہیں ان کی وجہ سے امریکی ایڈمنسٹریشن کا غلط فہمیوں میںمبتلا ہو جانا خارج از امکان نہیں کہا جا سکتا۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK