Inquilab Logo

پنویل میں بننے والے بیل گاڑی کے لکڑی کے پہیوں کی دنیا بھر میں دھوم ہے

Updated: March 03, 2024, 3:17 PM IST | Saadat Khan | Mumbai

کچھی محلہ کے۷۶؍سالہ اسماعیل دائود کچھی بڑی خوبیوں کے مالک ہیں،انہیں لکڑی کے پہیے اور کھیتی باڑی کے دیگر لوازمات بنانے میں مہارت حاصل ہے، اس کیلئے انہیں لائنس اور روٹری کلب کے علاوہ متعدد سماجی، ملّی اور کاروباری اداروں کی طرف سے ایوارڈ سے نوازاگیا ہے۔

Ismail Dawood Kuchi. Photo: INN
اسماعیل داؤد کچھی۔ تصویر : آئی این این

پنویل کے ایک شناسا بڑی پابندی سے’ گوشہ ٔ بزرگاں ‘کالم کا مطالعہ کرتےہیں۔ انہیں اس کالم سے بڑی دلچسپی ہے۔ یہی وجہ ہےکہ گزشتہ دنوں فون کرکے خیرخیر یت معلوم کرنےکےبعد انہوں نے کہاکہ میرے ایک دوست محمد حنیف کچھی کے والد اسماعیل دائود کچھی جن کی عمر ۷۶؍ سال ہے، وہ اس کالم کےذریعے اپنے تجربات قاری تک پہنچانے کے خواہش مند ہیں۔ مقام اور وقت طے ہونے پر کالم نگارسنیچر، ۲۳؍فروری کو مذکورہ شناسا کے ہمراہ پنویل کےکچھی محلہ، جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے، پہنچا۔ اسماعیل کچھی کی رہائش گاہ کے قریب پہنچنے پر ا ن کےبیٹے نذیر کچھی سے سڑک پرہی ملاقات ہوگئی۔ سلام دعاکےبعد معلوم ہواکہ اسماعیل صاحب ظہر کی نماز اداکرنےمسجدگئے ہیں۔ قریب میں اسماعیل کچھی کی ڈاکٹر بیٹی کادواخانہ بھی ہے، جہاں ہم ان کے انتظار میں بیٹھ گئے۔ اسماعیل صاحب کےنماز پڑھ کرآنے پر ہم سب مل کر ان کی رہائش گاہ پہنچے۔ اسماعیل کچھی اور ان کے ۲؍بیٹے حنیف اور نذیر کچھی کی موجودگی میں ہم نے تقریباً ۵۰؍ منٹ گفتگو کی۔ اس دورا ن انہوں نے پنویل اور اطراف کے گائوں کی زندگی اور یہاں کے رہن سہن کے علاوہ ہندومسلم یکجہتی پر مبنی انتہائی کارآمد معلومات فراہم کیں۔ 
  اسماعیل کچھی، پنویل کے کچھی محلہ میں ۱۹۴۷ءمیں پیداہوئے۔ یہاں کے یعقوب بیگ محمد اُردو میڈیم اسکول سےپانچویں جماعت تک تعلیم حاصل کی۔ اسی دوران والد کی رحلت ہوگئی جس کی وجہ سے گھر کی تمام ذمہ داریاں ان کے کندھوں پر آن پڑیں۔ بیل گاڑی کی لکڑی کاپہیہ بنانے اورمیلے میں استعمال ہونے والےآسمانی جھولے وغیرہ بنانا، ان کا خاندانی اورآبائی کاروبارتھا۔ والد کی موت کے بعد وہ ان کاروبار سے وابستہ ہوئے اورتقریباً ۶۰؍سال کی عمر تک ان کاموں میں مصروف رہے۔ فی الحال اس پیرانہ سالی میں عبادت کےعلاوہ سماجی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیناان کی مصروفیات میں شامل ہے۔ 

یہ بھی پڑھئے: اُن دنوں قریش نگر میں مشاعرے ’دانش کدہ‘ اور نثری محفلیں ’آئینہ دار اَدب‘ کےزیر اہتمام منعقد ہوتےتھے

 بیل گاڑی میں لگنےوالا لکڑی کاپہیہ بنانے کےمعاملہ میں پنویل کا کچھی محلہ عالمی شہرت کاحامل رہاہے۔ کسی دورمیں یہاں کےلوگوں کایہی آبائی پیشہ تھا۔ لکڑی کا پہیہ بنانے کا فن دیکھنے کیلئےبیرونی ممالک کے سیاح پنویل آتے تھے۔ اسماعیل کچھی کا خانوادہ بھی اسی پیشہ سے وابستہ رہا ہے۔ ان کی ’جمعہ اینڈ کمپنی‘میں بنائےگئے پہیوں کو دیکھنے کیلئے دور دور سے سیاح پنویل آتےتھے۔ ان کی دستکاری اور فن کا ری کی مقبولیت کا اندازہ اس با ت سے لگایا جاسکتا ہے کہ۴۰؍سال قبل ان کے بنائے پہیے دبئی کے واچ ٹائور میوزیم اور امریکہ میں رکھے گئے ہیں۔ اُس وقت ۲؍ پہیوں کی قیمت صرف ساڑھے ۴۰۰؍ روپے تھی۔ اب ان ۲؍پہیوں کی قیمت ۴۰؍ہزارروپے ہے۔ بغیر لوہے اورکیل کے استعمال سے لکڑی کا پہیہ اور کھیتی باری میں استعمال ہونے والے دیگر اوزار بنانے کےمعاملہ میں جمعہ اینڈ کمپنی کی مقبولیت کے بناپر انہیں لائنس کلب، روٹری کلب اور دیگر متعدد سماجی اور مذہبی اداروں کی جانب سے انہیں متعدد ایوار ڈ سے بھی نوازاگیاہے۔ 
 یہ ۱۹۶۵ء کی بات ہے اسماعیل کچھی نے اپنے نانا کے ساتھ اُرن کے دتاجیتنی میلہ میں جھولالگایاتھا۔ جھولا بند کرنے کاوقت رات ۱۲؍بجے کا تھا لیکن اس دن کاروبار نہیں ہواتھا۔ اچانک ۱۲؍بجے کےبعد میلہ کے شرکاء کا ایک بڑا گروپ جھولا جھولنے آیاہی تھاکہ ایک شرابی پولیس انسپکٹر نے آکر ان کےناناکو گالی بکناشروع کردیا۔ ناناسے برداشت نہیں ہوا۔ انہوں نے پولیس انسپکٹر کو دھکیل دیا، جس کی وجہ سے پولیس انسپکٹر ایک قریبی دیوار سے جاٹکرایا، جس کی وجہ سے اس کےسر میں چوٹ آگئی۔ اس پرطیش میں آکر پولیس انسپکٹر نے نشے کی حالت میں خوب ہنگامہ کیا۔ دوسرے دن سینئر پولیس انسپکٹر کے سامنے معاملہ پیش ہوا۔ ناناکو سینئر پولیس انسپکٹر نے ڈرانے دھمکانے کی کوشش کی، ایسے میں مذکورہ واقعہ کے وقت موجود سبھی برادران وطن اور میلہ کے سربراہ نے پولیس اسٹیشن پہنچ کر سینئر پولیس انسپکٹر کو سارےحالات سے آگاہ کیااور شرابی پولیس انسپکٹر کی بدتمیزی کی پوری روداد بیان کی۔ جس کا نتیجہ یہ ہواکہ سینئر پولیس انسپکٹر نے ناناکو چھوڑ دیا۔ برادران وطن کی اس حق پرستی، سچائی اور ہمدردی کو اسماعیل کچھی اب یاد کرکے جذباتی ہوجاتےہیں۔     
 پنویل میں ۱۹۸۶ءمیں شیوجینتی کےموقع پر ہونےوالے فرقہ وارانہ فساد کےدوران یہاں کےمسلمانوں کی املاک اور گھربار کو بڑے پیمانےپر نقصان پہنچایاگیاتھا۔ خواجہ نگر ی محلے کو پوری طرح تباہ کر دیا گیا تھا۔ اس موقع پرمسلم ناکہ علاقے کی مسجد پر گلال پھینک کر مسلمانوں کی دل آزاری کی گئی تھی۔ فساد بڑھنے سے پولیس نے یہاں کرفیو نافذ کر دیا تھا۔ چونکہ اسماعیل کچھی کے تعلقات برادران وطن سے اچھے تھے۔ اس لئے ان کا ایک ملاقاتی جس نے اپنی سائیکل پر ترشول لگارکھا تھا، ان کے کارخانےپر آکر پینےکاپانی مانگنے لگا۔ پنویل میں ایسا فساد کبھی نہیں ہواتھا جواسماعیل کچھی نے اپنی آنکھوں سے دیکھاتھالیکن بیوپاری ہونےکے ناطے وہ اس فساد سے بہت دورتھے۔ 
 پنویل اور اطراف کے مسلم علاقوں میں شادی کی رسم بڑی دلچسپ ہواکرتی تھی۔ شادی کے موقع پر ۵؍دنوں تک مختلف پروگرام ہوتے تھے۔ ہلدی اور مہندی کے علاوہ ایک دن لوگ رات بھر جوا بھی کھیلتے تھے۔ قوالی اور ناچ گانےکی محفلیں سجائی جاتی تھیں۔ پان گلاب کی ایک رسم ہوتی تھی۔ جس کےمطابق محلے کے بااثراور ذمہ دار لوگوں کو مدعوکرکے انہیں شادی کےکاموں کی ذمہ داریاں سونپی جاتی تھیں۔ مجلس کے اختتام پر شرکاء کو شال پہنا کر، پان پیش کرنےکےساتھ گلاب کا پانی کا چھڑکاؤ کیا جاتا تھا، اسے پان گلاب کی رسم کہتے تھے۔ تقریباً ۵۵؍سال قبل کی بات ہے۔ کچھی محلے کی ایک امیر گھرانےکی لڑکی اور ایک غریب گھرانے کے لڑکی کی شادی ہونےوالی تھی۔ لڑکی والوں کے یہاں متعدد قسم کے تفریحی پروگراموں ہونے سے وہاں خوب مجمع ہوتا لیکن لڑکے والوں کےیہاں سناٹا ہونے سے لڑکے کے والد نے مایوس ہوکر اسماعیل کچھی سے اس بات کی شکایت کی۔ اسماعیل کچھی کے مشورہ پر لڑکے والے نے ایک رات ایک الگ نوعیت کا پروگرام رکھا۔ اس پروگرام کی وجہ سے لڑکی والوں کے یہاں کاسارا مجمع لڑکے والوں کے یہاں جمع ہوگیا۔ اس موضوع پر شادی ہونے کےبعد بھی محلےمیں کئی دنوں تک خوب تفریحی ماحول رہا اور اسی موضوع پر باتیں کرتے ہوئے سنائی دیئے۔ 
 یہ ۶۰؍ کی دہائی کا معاملہ تھا۔ پنویل میں قبرستان تو کئی تھے لیکن ان میں سے کچھ ہی قبرستانوں میں گورکن کا انتظام تھا۔ اس کی بھی متعدد وجوہات تھیں۔ غربت اور مفلسی سے لوگ گورکن وغیرہ کاخرچ برداشت نہیں کرسکتےتھے۔ ایسےمیں محلے کے مقامی نوجوان اور ذمہ دار لوگ ایسے گھروں میں کسی کااانتقال ہوجانےپر گورکن کا کام اپنے ہاتھوں سے کیاکرتےتھے۔ ان میں اسماعیل کچھی بھی شامل تھے۔ یہ لوگ اپنے ہاتھوں سے قبرکھود تے تھے۔ علاوہ ازیں تدفین کیلئے درکار دیگر لوازمات مثلاً برگہ، چٹائی اورکفن کاکپڑا وغیرہ کا اپنی جیب کےپیسوں سے خرید کر غریبوں کی تدفین کا انتظام کرتےتھے۔ آخری رسوم کی ادائیگی کایہ کام صرف مسلمانوں کیلئے نہیں بلکہ برادران وطن کیلئے بھی کیا کرتےتھے۔ کچھی محلے میں لکڑی کے کارخانوں میں جو لکڑیاں بچ جاتی تھیں، انہیں لکڑیوں کوبرادران وطن کو مفت میں مہیاکر دیتے تھے تاکہ غریب لاشوں کی چتا کو جلانےمیں ان لکڑیوں کا استعمال کیاجاسکے۔ ہولی کے موقع پر اسی محلے سے ’ہولیکا‘ جلانےکیلئے مفت میں لکڑیاں برادران کو وطن کو دی جاتی تھیں۔ اس طرح کی سرگرمیوں سے یہاں کے ہندواور مسلمانوں میں بڑی یکجہتی تھی جسے لوگ مثال بنا کر پیش کرتے تھے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK