Inquilab Logo

اُن دنوں قریش نگر میں مشاعرے ’دانش کدہ‘ اور نثری محفلیں ’آئینہ دار اَدب‘ کےزیر اہتمام منعقد ہوتےتھے

Updated: February 25, 2024, 3:13 PM IST | Saadat Khan | Mumbai

کرلامیں رہائش پزیر حمیدادیبی ناندوروی کا شروع ہی سےادبی ذوق رہا ہے، وہ ۸۶؍ سا ل کی عمر میں بھی پوری طرح سے سرگرم ہیں اور روزانہ بزم اقبال میں صبح ۱۱؍بجے سے دوپہر ۳؍بجے تک اپنی خدمات پیش کرتےہیں، ان کی اب تک ۹؍ کتابیں شائع ہوکر منظر عام پرآچکی ہیں۔

Hameed Adibi Nandurvi. Photo: INN
حمید ادیبی ناندوروی۔ تصویر : آئی این این

اس کالم کیلئے گزشتہ دنوں کرلا، قریش نگر، بانگڑی والا چال کی معروف علمی اورادبی شخصیت حمید ادیبی ناندوروی کا ارسال کردہ ایک مضمون ڈاک کےذریعے موصول ہوا۔ مضمون پڑھ کرذاتی ملاقات کااشتیاق پیداہوا، ۱۸؍ فروری اتوار کو راقم کے قریش نگر،حسینی گارڈن کےقریب واقع تعلیمی، ادبی اور فلاحی ادارہ بزم اقبال کے دفتر پہنچنے پر حمید ادیبی کے علاوہ ادارہ ھٰذا کے سیکریٹری سلیم قریشی اور ان کے دیگر ساتھیوں نے گرمجوشی سے استقبال کیا۔ ایک دوسرے سے تعارف کے بعد ادیبی صاحب سے ہونے والی تفصیلی گفتگو انتہائی معلوماتی، دلچسپ اور کارآمد رہی۔
حمید ادیبی کی پیدائش ۳؍جولائی ۱۹۳۸ء کو ضلع بلڈانہ کے دیوی گھاٹ میں ہوئی تھی۔ آبائی وطن شہر ناندورہ، ضلع بلڈانہ ہے۔ سیکنڈری اسکول سرٹیفکیٹ ( ۱۱؍ویں جماعت ) کاامتحان ۱۹۵۷ء میں پاس کرنے کے بعد کھام گائوں کے جی ایس کالج میں آگے کی تعلیم کیلئے داخلہ لیا لیکن علالت کی وجہ سے کالج کی پڑھائی نہیں ہوسکی۔ بیماری کا سلسلہ دراز ہوا تو تعلیم کاسلسلہ ترک کردیا۔ بعدازیں والد نے انہیں ٹائپنگ اور شارٹ ہینڈ کا کورس کرانے کا فیصلہ کیا جس کیلئے وہ ممبئی آگئے اور اپنے والد کے ایک شناسا کے یہاں ٹھہرے۔ ممبئی میں قیام اور طعام کی مشکلوں کو جھیلتے ہوئے انہوں نے ۴؍سال کی لگاتار محنت کے بعد مذکورہ کورس مکمل کیا۔ اسی کی بنیاد پر انہیں ایک کمپنی میں اسٹینوگرافر کی ملازمت مل گئی جواُن کی معاشی ضروریات کو پورا کرنے کا ذریعہ بنی۔
حمید ادیبی ۱۹۵۸ء میں پہلی مرتبہ ممبئی آئے تھے۔ سب سے پہلے انہوں نے دادر، نائیگائوں میں واقع قیصر باغ عمارت میں ناندورہ کے بسم اللہ منیار کے ساتھ ان کی ’کھولی‘ میں قیام کیا تھا۔ یہیں ان کی ملاقات شیخ نعمان شریر نامی ادب نواز شخص سے ہوئی تھی۔شیخ نعمان کے ایک بھائی شیخ بخش قریش نگر میں قیام پزیر تھے۔ حمید ادیبی ،شیخ نعمان کے ساتھ اکثر شیخ بخش سے ملاقات کیلئے قریش نگر جایا کرتےتھے۔ اسی مراسم کی بنیاد پر حمید ادیبی کو بانگڑی والا چال میں ایک کھولی کرائے پر ملی تھی جہاں وہ اب بھی اپنے اہل خانہ کے ہمراہ رہائش پزیر ہیں۔   
 ابتدائی دور میں جب حمید ادیبی ممبئی آئے تھے۔ ان کےبڑے بھائی انہیں ماہانہ خرچ کیلئے۳۰؍روپے ارسال کرتے تھے جس میں قیام وطعام، اسٹینوگرافی کورس کی فیس اور دیگر اخراجات پورا کرتے تھے۔ یومیہ ایک روپے کے حساب سے ساری ضرورتوں کو پورا کرنا تھا۔ ایسےمیں بھی بڑی خوش اسلوبی سے انہوں نے اپنا مقصد حاصل کیا تھا۔ 
حمید ادیبی کوعلم وادب کا شوق ہونے سے قریش نگر میں قیام کے بعد یہاں کی علمی اور ادبی شخصیات کے ساتھ اُٹھنے بیٹھنے کا موقع ملا۔ ان میں دلدار ادیبی جوایک معلم، انتہائی نیک دل اورملنسار انسان تھے۔ وہ مشاعروں میں ایک اُستاد کی حیثیت رکھتے تھے۔ انہوں نے حمید ادیبی کا رجحان شعروادب کی جانب بڑھتا دیکھ کر، انہیں ادیب مالیگانوی سے متعارف کرایا تھا۔ بعدازیں اس دور میں قریش نگر میں قیام کرنے والے شاعر یش کنول، اثرشولا پوری، عارف اعظمی ، نشان صدیقی، شوقین لافانی اور راشد کانپوری وغیرہ سے ملنے جلنے کا موقع ملا۔ قریش نگر میں وقتاً فوقتاً شعری و ادبی نشستوں کا انعقاد ہوتا تھا جن میں قریش نگر کے علاوہ پائپ روڈ کرلا کی معروف ادبی شخصیات محمود درانی، قیصر الجعفری، وفااعظمی، مرزا حفاظت بیگ اور ماہر برہانپوری وغیرہ اکثر شریک ہوتےتھے۔ قریش نگر میں ۲؍ انتہائی فعال علمی اور ادبی ادارے، دانش کدہ اور آئینہ دار ادب تھے۔ اثر شولاپوری نے آئینہ دار ادب قائم کیا تھا۔

یہ بھی پڑھئے:ہند پاک جنگ کےدوران لوگ مخصوص مقامات پرجمع ہوکر ریڈیو پر خبریں سنتے اور پھرگھر والوں کوجاکر بتاتےتھے

مشاعرے دانش کدہ اور نثری محفلیں آئینہ دار ادب کےزیر اہتمام منعقد ہوتےتھے۔ وقت کے ساتھ حالات بدلے، دانش کدہ خود بخود ٹوٹ گیا اور آئینہ دار ادب اثر شولا پوری کی ناگہانی موت کےبعد بند ہوگیا لیکن حمیدادیبی کی علمی اور ادبی خدمات کاسلسلہ جاری وساری ہے۔ انہیں ان کی خدمات کیلئے متعدد اعزاز سے بھی نوازاگیاہے۔ ان کی ادبی خدمات کا اندازہ ان کی ۹؍ تصانیف سے بھی لگایاجاسکتاہے۔۸۶؍سال کی عمر میں بھی ان کی ادبی سرگرمیاں جاری ہیں۔ وہ روزانہ بزم اقبال میں صبح ۱۱؍بجے سے دوپہر ۳؍بجے تک اپنی خدمات پیش کرتےہیں۔ 
حمید ادیبی جب ۱۰۔۹؍ سال کے تھے۔ اس وقت ملک کی آزادی سے متعلق سرگرمیاں تیزی سے جاری تھیں۔ ناندورہ میں اسی سرگرمی سے متعلق ایک بڑا جلسہ منعقد ہونے جارہا تھا۔ اس جلسہ کا شہر میں بڑا چرچہ تھا۔ حمید ادیبی بھی اپنے کچھ ساتھیوں کے ہمراہ جلسہ گاہ پہنچ گئے۔ جلسہ شروع ہونے میں تاخیر ہورہی تھی۔ ابھی جلسہ شروع ہونے ہی والا تھا کہ اچانک انگریز پولیس نے آکر مجمع کو منتشر کرنا شروع کردیا۔ جلسہ گاہ میں بھگدڑ مچ گئی۔ لاٹھی چارج کے خوف سے لوگ ڈرکر ادھر اُدھر بھاگنے لگے۔ حمید ادیبی بھی بھاگنےمیں والوں میں شامل تھے۔ افراتفری کے ماحول میں وہ گھر جانے والا راستہ بھول گئے۔ چونکہ جلسہ گاہ سے گھر کا فاصلہ کافی دور تھا، اسلئے بڑی مشکل اور تاخیر سے گھر پہنچے۔ اس پر والدہ نے خوب ڈانٹا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ان حالات میں تیرے ابا تجھے تلاش کرنے گئے ہیں۔ جلسہ میں ہونےوالی افراتفری کو وہ اب بھی نہیں بھول سکے ہیں۔
انہوں نے گاندھی جی کے قتل کے بعد ملک میں پھیلنے والے فرقہ وارانہ فسادات کےمناظر بھی دیکھے ہیں۔ قتل کے بعد پورے ناندورہ میں کشیدگی کا ماحول تھا۔ ہندو ،مسلمانوں پر شبہ کررہے تھے لیکن جلد ہی یہ خبر آگئی کہ ایک ہندو ہی نے گاندھی جی کا قتل کیا ہے۔ اسی روز شام کو ایک میدان میں ہندو مسلمانوں نے جمع ہوکر گاندھی جی کو خراج عقیدت پیش کیا تھا۔ حمید ادیبی اپنے دادا کے ساتھ وہاں موجود تھے۔
بابری مسجد کی شہادت والے دن حمید ادیبی معمول کے مطابق ڈیوٹی پر گئے ہوئے تھے۔ ڈیوٹی سے لوٹنے پر انہیں معلوم ہوا کہ بابری مسجد منہدم کی جارہی ہے۔ سارا منظر ٹیلی ویژن پر دکھایا جارہا تھا۔ ان کی چشم گنہ ِگار نے وہ دل دکھانے والے مناظر بھی دیکھے ہیں۔ قریش نگرمیں خوف و ہراس کا ماحول تھا۔ بیشتر لوگوں نے وہ رات جاگ کر گزاری تھی۔ اس خوف سے کہ کہیں کوئی شرپسند موقع کا فائدہ اُٹھاکر فساد نہ برپا کرادے۔ ایسے کشیدہ ماحول میں حمید ادیبی کے بانگڑی والاچال کے گھر کے سامنے ایک غیر مسلم اپنے اہل وعیال کے ساتھ قیام پزیر تھا۔ حمید ادیبی نے ان سب کو اپنے گھر میں ۳؍دنوں تک پناہ دی تھی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ قریش نگر میں مسلمانوں کی اکثریت اور ہندو قلیل تعداد میں قیام پزیر ہیں۔
حمید ادیبی کی نوجوانی والے دور کے قصائی واڑہ اور آج کے قریش نگر میں کافی تبدیلیاں ہیں۔ اُس وقت یہاں بیٹھی چالیں تھیں جن کی چھتیں منگلوری کویلو سے بنی ہوتی تھیں۔ اس دورمیں یہاں مذبح بھی ہوتا تھا۔  اسے منہدم کرکے اسی جگہ پر اب ۴؍منزلہ عمارت تعمیر کردی گئی ہے اور اب  اس میں میونسپل اسکول قائم کی گئی ہے۔ مذبح کےٹھیک سامنے بیچ سڑک پرایک کھولی تھی جس میں ایک کھڑکی ہواکرتی تھی۔ اس کےسامنے جانوروںکی قطار لگائی جاتی تھی تاکہ انہیں ڈاکٹرکے ذریعہ جانچنےکےبعد ذبح کیلئے بھیجا جاسکے۔ 
 ایک مرتبہ قریش نگرکی پہاڑی کی مٹی کا تودہ گرنے سے ۷؍افراد کی موت ہوگئی تھی۔ وہ اندوہناک منظرحمید ادیبی نےاپنی آنکھوں سے دیکھا تھا۔ اس واقعہ سےپورے علاقےمیں سراسیمگی پھیل گئی تھی۔ لوگ ڈر اور خوف کےسائے میں جی رہےتھے ۔ان کی سمجھ میں نہیں آرہاتھاکہ ایسا کیا، کیاجائے کہ لوگ محفوظ زندگی بسر کریں۔ اس واقعہ کے بعد حکومت کی طرف سے اس علاقے کی گھیراب ندی کردی گئی تھی۔ اب بھی کبھی کبھار بارش کے موسم میں تودوں کے کھسکنے سے نیچے بنائی گئی چالیوں میں رہنے والے پریشان ہوجاتے ہیں۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK