Inquilab Logo

ہلدوانی کا احتجاج

Updated: January 05, 2023, 9:50 AM IST | haldwani

ہلدوانی (اُتراکھنڈ) کی غفور بستی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ ریلوے کی زمین پر بسائی گئی ہے۔ ہوسکتا ہے کہ یہ دعویٰ درست ہو مگر ایسی زمین جس پر رہنے والےخاندان برسہا برس سے رہ رہے ہوں اور حکومت کی جانب سے ملنے والی سہولتیں بھی اس علاقے کو میسر ہوں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اسے تسلیم کرلیا گیا ہے اس لئے افسران اور انہدامی عملے کا اچانک متحرک ہونا کئی سوال پیدا کرتا ہے۔

Haldwani
ہلدوانی

ہلدوانی (اُتراکھنڈ) کی غفور بستی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ ریلوے کی زمین پر بسائی گئی ہے۔ ہوسکتا ہے کہ یہ دعویٰ درست ہو مگر ایسی زمین جس پر رہنے والےخاندان برسہا برس سے رہ رہے ہوں اور حکومت کی جانب سے ملنے والی سہولتیں بھی اس علاقے کو میسر ہوں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اسے تسلیم کرلیا گیا ہے اس لئے افسران اور انہدامی عملے کا اچانک متحرک ہونا کئی سوال پیدا کرتا ہے۔ جس محکمے کو ۸۰؍ سال پہلے حرکت میں آنا چاہئے تھا وہ ۷۰؍ سال پہلے بھی خواب غفلت سے بیدار نہیں ہوا، ۶۰؍ سال پہلے بھی اسے ہوش نہیں آیا، ۵۰؍ سال پہلے بھی اس کی نیند نہیں ٹوٹی۔ حقیقت یہ ہے کہ طویل عرصہ ( کم و بیش آٹھ دہائی) اُسی قطعۂ اراضی پر رہنے والے خاندانوں کو اُجاڑنے کا فیصلہ کہیں سے بھی انسانی نہیں ہے۔ یہ بسے بسائے نشیمن کو اُجاڑنے کی کوشش ہے جس سے ہزاروں خاندان متاثر ہوں گے۔ کہا جاتا ہے کہ اس کے پس پشت سیاسی محرکات اور مفادات ہیں، ہم نہیں جانتے کہ اس میں کتنی سچائی ہے مگر ایسے معاملات میں اکثر سیاسی محرکات ہی کارفرما ہوتے ہیں اس لئے اگر ہلدوانی میں بھی یہ کہا جارہا ہے تو ممکن ہے کہ ایسا ہی ہو۔ انہدامی کارروائی پر بضد افسران کو یاد رکھنا ہوگا کہ گھر اُجاڑنا تو بے حد آسان بلکہ چند گھنٹوں کا کام ہے مگر گھر بسانا بہت مشکل کام ہے۔ جس بستی پر خطرہ منڈلا رہا ہے وہاں کے رہنے والوں نے عمر عزیز کا کتنا بڑا حصہ ایک مکان اور ایک گھر کی تگ و دو میں گزارا ہوگا یہ وہی جانتے ہیں۔اگر یہ زمین واقعی ریلوے کی ہے اور اس پر بسی ہوئی بستی غیر قانونی ہے تب بھی ریلوے حکام کو چاہئے کہ ریاستی یا مرکزی حکومت سے سفارش کرکے اس جگہ پر رہنے والوں کو متبادل جگہ دلائیں اس کے بعد ہی انہدام کے بارے میں سوچیں۔ ہم اُمید کرتے ہیں کہ سپریم کورٹ میں اس سلسلے میں داخل کی گئی عرضداشت پر سماعت ہوگی تو عدالت ممکنہ کارروائی کو روک دے گی کیونکہ ایسا کرنا انسانی حقوق کو پامال کرنے جیسا ہوگا۔ 
 سوال یہ بھی ہے کہ غفور بستی کا قطعۂ اراضی ہی انہدامی کارروائی کیلئے کیوں منتخب کیا گیا۔ ۳۱؍ مارچ ۲۰۱۹ء کے اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ ملک میں ریلوے کی ملکیت میں ۴ء۷۸؍ لاکھ ہیکٹر زمین ہے۔ اُس میں سے ۸۲۲؍ ہیکٹر زمین ایسی ہے جس پر غیر قانونی قبضہ ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ مسئلہ ہر ریاست میں یا بہت سی ریاستوں میں ہوگا مگر ریلوے حکام کو غفور بستی ہی دکھائی دی۔ ایسا کیوں ہے؟ حقیقتاً کوئی ضرورت ہے یا ایک پوری بستی کو ستانا مقصود ہے؟ 
 اگر ریلوے کے کسی ترقیاتی پروجیکٹ کیلئے یہ زمین درکار ہے تو زمین خالی کرانے کی کوشش وسیع تر مفاد میں ہوگی مگر اس کا بھی طریقہ ہے۔ علاقے کے لوگوں سے مذاکرات شروع کئے جائیں، اُن کی سنی جائے اور جیسا کہ کہا گیا اُنہیں بہتر متبادل کی پیشکش کی جائے اور جب تک اس کا انتظام نہ ہوجائے تب تک وہاں کے لوگوں کو ستایا جائے نہ ہی نوٹس پر نوٹس دے کر ذہنی و نفسیاتی طور پر خوفزدہ  کیا جائے۔ وطن عزیز میں صرف ریلوے کی نہیں بلکہ جنگلات کی، سرکار کی اور وقف کی زمینات بھی انکروچمنٹ کا شکار ہیں۔ اگر انکروچمنٹ غلط ہے تو اس کی ’’اجازت‘‘ دینے یا اس کی جانب سے چشم پوشی کرنے والے افسران کو کیوں گرفت میں نہیں لیا جاتا؟ ہم کہتے ہیں کہ ایک جھوپڑا بھی کسی افسر کو اعتماد میں لئے بغیر نہیں بن سکتا چہ جائیکہ پوری بستی۔ اس لئے سزا صرف رہنے والوں کو نہیں دی جاسکتی۔ پہلے متعلقہ افسران کو دی جائے جو رشوت لے کر آنکھ بند کرلیتے ہیں۔ n

haldwani Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK