Inquilab Logo

ہلدوانی میں عوام متحد، شاہین باغ جیسا احتجاج

Updated: January 04, 2023, 10:23 AM IST | nainital

مسلم اکثریتی علاقے کے ۴؍ ہزار سے زائد مکانات کے انہدام کیخلاف خواتین ، بچے اور معمر افراد سمیت سیکڑوں لوگ سڑکوں پر بیٹھ گئے ، سپریم کورٹ میں ۵؍ جنوری کو سماعت

Local Muslim women are protesting Shaheen Bagh style in Ghafoor Basti of Haldwani. (Photo: Agency)
ہلدوانی کی غفور بستی میں مقامی مسلم خواتین شاہین باغ کی طرز پر احتجاج کررہی ہیں۔(تصویر: ایجنسی )

بی جے پی کی حکومت والی ریاست اتراکھنڈ کےنینی تال ضلع کے مشہور اور تاریخی اہمیت کے حامل قصبہ ہلدوانی میں ہزاروں مسلم کنبوں میں خوف وہراس کا ماحول ہے کیونکہ مقامی انتظامیہ نے مسلم اکثریتی علاقے غفور بستی کے ۴؍ ہزار ۳۶۵؍ مکانات کو منہدم کرنے کا نوٹس دیا ہے۔  امکان ہے کہ اس نوٹس کے بعد ۹؍ جنوری سے بڑے پیمانے پر انہدامی کارروائی شروع ہو سکتی ہے۔ اسی کے خلاف یہاں کے ہزاروں باشندوں نے شاہین باغ احتجاج کی طرز پر  ۲۹؍ دسمبر سے اپنا احتجاج شروع کردیا ہے۔ ابتدا میں تو کچھ ہی مکانات کے مالکان نے احتجاج شروع کیا تھا لیکن یکم جنوری کے بعد سے یہاں احتجاج کرنے والوں کی تعداد بڑھتی جارہی ہے اور ۳؍ جنوری کو یہاں تقریباً ۲۰؍ ہزار افراد کا مجمع علاقے کےوسط میں آکر سڑکوں پر بیٹھ گیا ہے اور انہدامی کارروائی روکنے کا مطالبہ کررہا ہے۔ واضح رہے کہ ان مکانات کے انہدام سے ایک اندازہ کے مطابق تقریباً ایک لاکھ لوگ براہ راست یا بالراست طریقے سے متاثر ہوں گے ۔ واضح رہے کہ یہ علاقہ ۲ء۲؍ کلومیٹر طویل  پٹی پر آباد ہے اور یہاں ہر وہ سہولت دستیاب ہے جو سرکار کی جانب سے فراہم کی جاتی ہے۔ معمر افراد، خواتین اور بچے سرد رات میں بھی گھر سے باہر نکل کر اپنے  لئے انصاف کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ جب ان کی پریشانی سوشل میڈیا پر سامنے آنے لگی تو ان کی حمایت میں آواز بھی اٹھنے لگی ہے۔
  دوسری طرف انتظامیہ کا کہنا ہے کہ یہ مکانات ۷۸؍ ایکڑ اراضی پر ریلوے کی زمین پر غیر قانونی طور پر تعمیر  کئے گئے ہیں اور اتراکھنڈ ہائی کورٹ کے حکم پر انہیں منہدم کرنے کے لئے نشانات لگا د ئیے گئے ہیں۔ واضح رہے کہ  ان میں بیشتر مکانات کافی عالیشان ہیں۔جس علاقے میں انہدامی کارروائی کی جانی ہے وہاں  ۲؍ لاکھ سے زائد افراد رہائش پذیر ہیں۔ ان میں ۹۵؍فیصد مسلمان اور ۵؍ فیصد برادران وطن ہیں۔ اس کارروائی کی زد میں تقریباً ۵۰؍ ہزار افراد براہ راست طور پر آئیں گے ۔ یہ لوگ تقریباً ۸۰؍برس سے یہاں آباد ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ یہ ریلوے کی زمین نہیں ہے۔ اس انہدامی کارروائی کی زد میں تقریباً ۲۰؍مساجد، ۹؍مندر، کمیونٹی سینٹراور متعدد اسکول بھی آئیں گے۔  ہائی کورٹ نے ان سب کو منہدم کرنے کا فیصلہ سنایا ہے جس سے پورے نینی تال ضلع میں بھی کافی ہلچل مچی ہوئی ہے۔ یاد رہے کہ اتراکھنڈ ہائی کورٹ نے ۲۰؍دسمبر کو پوری بستی خالی کرانے کا حکم دیا تھا ۔  مقدمے کے دوران ریاست کی بی جے پی حکومت نے عدالت سے کہا  تھاکہ چونکہ یہ زمین  ریلوے کی  ہے لہٰذا اس کا اس  معاملے سے کوئی لینا دینا نہیں۔ عدالت جو چاہے حکم سناسکتی ہے۔ 
 عدالت کے فیصلے کے خلاف گزشتہ ہفتے ہلدوانی میں  احتجاجی مظاہرہ ہوا تھا۔ ہزاروں مرد  اور خواتین سڑکوں پر اتر آئے تھے۔ جب اس احتجاج سے بھی بات نہیں بنی تو مقامی افراد کو شاہین باغ کی طرز پر اپنا احتجاج ترتیب دینا پڑا۔مقامی افراد کا کہنا ہے کہ  یا تو ہمارے گھر مت اجاڑو  یا پھر ہمیں سب سے پہلے متبادل جگہ پربسائو اور اس کے بعد یہاں پر انہدامی کارروائی کرو۔ 
  دوسری طرف اپوزیشن پارٹی کانگریس کے مقامی رکن اسمبلی سُمت ہردیش کا کہنا ہے کہ بی جے پی حکومت نے مقدمے کی درست طور پر پیروی نہیں کی  ۔اگر وہ اس معاملے میںتھوڑی بھی مداخلت کرتی تو عدالت اتنا سخت فیصلہ نہیں سنا تی۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہاں رہنے والے لوگوں کے پاس وہ تمام سرکاری دستاویزات موجود ہیں جو حکومت جاری کرتی ہے لیکن چونکہ یہ لوگ کانگریس کے امیدوار کو کامیاب بناتے رہے ہیں اس لئے انہیں اسی کی سزا دی جارہی ہے۔اس معاملے میںسماج وادی پارٹی ، کانگریس اور دیگر اپوزیشن پارٹیوں کے لیڈران کی جانب سے مشترکہ پٹیشن سپریم کورٹ میں داخل کی گئی ہے جس میں ہائی کورٹ کے مذکورہ فیصلے کو چیلنج کیا گیا ہے۔ کورٹ نے یہ پٹیشن سماعت کے لئے قبول کرلی ہے اور امکان ہے کہ ۵؍ جنوری کو اس معاملے میں سماعت کی جائے۔

 متاثرین کا کہنا ہے کہ ہائی کورٹ میں ہماری ایک نہیں سنی گئی اور زمین پر ریلوے کو قبضہ دے دیا گیا حالانکہ یہ ریلوے کی زمین ہے ہی نہیں، یہ تو میونسپل کارپوریشن کی زمین ہے جس پر ہزاروں مسلمان دہائیوں سے بسے ہوئے ہیں۔ ریلوے زبردستی کر رہی ہے، لیکن ہم اس کے خلاف آواز اٹھائیں گے، ایک انچ زمین اسے لینے نہیں دیں گے۔ کچھ سیاسی پارٹی کے لیڈران بھی اس معاملے میں غفور بستی کے لوگوں کا ساتھ کھل کر دیتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں۔ کانگریس رکن پارلیمنٹ عمران پرتاپ گڑھی نے بھی متاثرین کے انصاف کی لڑائی لڑنے کی بات کہی ہے۔ انہوںنے کہا کہ ۵؍ جنوری کو سپریم کورٹ میں معاملے پر سماعت ہوگی اور میں ہلدوانی کے لوگوں کو یقین دلانا چاہتا ہوں کہ فیصلہ ان کے حق میں ہوگا۔ ہمارے ماہر قانون اور کانگریس کے سینئر لیڈر سلمان خورشید اور وہاں کے مقامی کانگریس لیڈران لوگوں کی قانونی مدد کے  لئے تیار ہیں۔آزاد سماج پارٹی کے قومی صدر چندرشیکھر آزاد نے بھی متاثرین کی حمایت میں آواز بلند کی ۔  انہوں نے اپنے ٹویٹر ہینڈل پر ایک خبر کا تراشہ شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ ہلدوانی میں انسانی پہلو کو بھی دیکھنا چا ہئے۔ ہزاروں بچے اپنا اسکول، اپنا گھر بچانے کے لیے دھرنا دے رہے ہیں۔ ریاستی حکومت ہائی کورٹ میں لڑ ہی نہیں پائی۔ وزیر اعظم نے۲۰۲۲ء  تک بے گھروں کو گھر دینے کا وعدہ کیا تھا، وعدہ تو پورا کیا نہیں اوپر سے بسے بسائے لوگوں کو اجاڑنے لگے۔ سماجوادی پارٹی کے قومی صدر اکھلیش یادو نے تو اس معاملے کی سنجیدگی کو دیکھتے ہوئے ایک نمائندہ وفد کی تشکیل کر دی ہے۔

Haldwani Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK