Inquilab Logo

نسل کشی کی تاریخ

Updated: September 20, 2020, 11:06 AM IST | Prof Syed Iqbal

نسل کشی کی اصطلاح مرتب کرنے کا کریڈٹ ایک پوش یہودی کو جاتا ہے جو پولینڈ میں یہودیوں کی بربادی کا چشم دیدگواہ تھا۔ اس المیے نے اسے تاریخ کے ان خونیں ابواب کو پڑھنے پر مائل کیا جس میں انسانی گروہوں کو کسی نہ کسی سبب نیست ونابود کرنے کا احوال رقم کیا گیا تھا۔ وہ ہر دم یہی سوچتا کہ صدیوں سے ساتھ رہنے والے آخر ایک دوسرے کے خون کے پیاسے کیوں ہوجاتے ہیں؟

African Genocide
افریقی ملک روانڈہ جو ۲۵؍ سال قبل نسل کشی کا عذاب جھیل چکا ہے۔ یہاں کے لوگ آج بھی اسے یاد کرکے سہم جاتے ہیں

انسانی تاریخ  میں نسل کشی کا تعین کرنا مشکل کام ہے۔ مورخین کا خیال ہے کہ اولین نسل کشی رومیوںنے کار تھیج کے خلاف کی تھی جس میں ڈیڑھ تا۲؍ لاکھ  افراد کو تہ تیغ کردیا گیا تھا۔ اس کے بعد حضرت عیسیٰ کے ماننے والوں کے قتل عام کا ذکر ملتا ہے جنہیں رومیوں  نے موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔ ویسےصلیبی جنگوں کو بھی نسل کشی کا نام دیا جاسکتا ہے کیوں کہ یہ ان غیر عیسائیوں کی نسل کشی تھی جو ایک مخصوص مذہبی فرقے کے مخالف قراردیئے گئے تھے۔ اسی طرح تیسرہویں صدی میں چنگیز خان کی مہمات بھی نسل کشی کے زمرے میں آتی ہیں جس نے مشرقی ایشیا سے لے کر یورپ کے دروازے تک کئی حکومتیں تاراج کردی تھیں۔ اس جرم سے کرسٹوفر کو لمبس کو بھی معاف نہیں کیاجاسکتا جب اس نے نئی زمینیں آباد کرنے کی خاطرافریقی نژاد آبادی کو بے رحمی سے قتل کردیاتھا لہٰذا فرانسیسی انقلاب کا قتل عام ہویا زولوقبائل کو ختم کردینے کی منصوبہ بند سازش، ایسی ساری مہمات نسل کشی ہی کہلائیں گی۔
  نسل کشی کی اصطلاح مرتب کرنے کا کریڈٹ ایک پوش یہودی کو جاتا ہے جو پولینڈ میں یہودیوں کی بربادی کا چشم دیدگواہ تھا۔ اس المیے نے اسے تاریخ کے ان خونیں ابواب کو پڑھنے پر مائل کیا جس میں انسانی گروہوں کو کسی نہ کسی سبب نیست ونابود کرنے کا احوال رقم کیا گیا تھا۔ وہ  ہر دم یہی سوچتا کہ صدیوں سے ساتھ رہنے والے آخر ایک دوسرے کے خون کے پیاسے کیوں ہوجاتے ہیں؟ مذہب ، زبان اور قومیت کے نام پر انسانی جانیں کیوں ضائع کردی جاتی ہیں؟ انہیں بچانے کوئی آگے کیوں نہیں آتا؟ اور ان الم ناک واقعات کو درج کرنے کیلئے ہم تاریخ میں کب تک لوٹ مار، فساد اور جنگوں جیسے الفاظ  استعمال کرتے رہیں گے جبکہ نسل کشی صرف قتل عام تک محدود نہیں رہتی بلکہ ظلم کرنے والے اپنے مخالفین کی تہذیب کو بھی نشانہ بناتے ہیں۔ اس مسئلے پرگفتگو کرنے کیلئے رافیل لیم کین نے میڈریڈمیں (۱۹۳۳ء) میں ماہرین قانون کی ایک کانفرنس کا انعقاد کیا۔ مندوبین نے اس میں شرکت بھی کی مگر اس کے خیالات سے متفق نہ ہونے کی بناپر کچھ کہے بغیر چل دیئے۔ لیم کین نے ہمت نہیںہاری بلکہ اس واقعہ کے بعد سارے یورپ میں اپنی فکر کی تشہیر کرنے کی مہم میں مصروف ہوگیا۔ آج کی طرح اُن دنوں بھی حکومتیں  اپنے شہریوں کو کچھ مفروضات کی بنیاد پر قتل کردنیا اپنا  حق سمجھتی تھیں  اور اسے اپنا اندرونی معاملہ قرار دیتی تھیں جبکہ لیم کین کی رائے میں، ایسے سارے معاملات جس میںایک بڑا گروہ کسی چھوٹے گروہ پر ظلم  وتعدّی روا  رکھے، قابل تعزیر ہے۔ اسے کسی ریاست کا اندرونی معاملہ کہہ کر ٹالا نہیں جاسکتا۔ اس سے تواکثریتی گروہ اور حکومتی حلقوں کو ایک طرح کا لائسنس مل  جاتا ہے اورایسے مظالم مستقبل میں بھی جاری رہتے ہیں۔ ضرورت ہے کہ کسی تیسرے فریق کو ثالث بناکر ان معاملات کی جانچ کروائی جائے اور عدالتی کارروائی کے ذریعہ مجرمین کو انسانیت کے خلاف جرم کرنے کی سزا دی جائے۔ اس نے ان جرائم کیلئے یونانی لفظ  Genos ( نسل یا قبیلہ ) اور لاطینی لفظ Cide( قتل کرنا ) کو ملا کر ایک نئی اصطلاح  Genocide ترتیب دی۔ اس کے نزدیک نسل کشی صرف جان لینا ہی نہیں تھا بلکہ اقلیتی طبقہ کی سیاسی اور سماجی حیثیت کوبھی ختم کرنا  تھا۔ یہی نہیں زبان ، مذہب  اور تہذیبی شناخت کے ساتھ ان کی عزت نفس کو ختم کردینا بھی نسل کشی کا حصہ تھا۔ اپنے محبوب موضوع کو سندعطا کرنے کی خاطر رافیل لیم کین اقوام متحدہ تک گیا۔ اس نے اپنی تحریریں مختلف زبانوںمیں لکھ کر تقسیم کیں، مختلف ممالک کے سفراء سے ملاقاتیں کیں۔ اس وقت تک دوسری جنگ عظیم کا آغاز ہوچکا تھا اور نازی جرمنی کے مظالم کی داستانیں ساری دنیا میں عام ہونے لگی تھیں۔ ایک طاقت ور آمر کا اپنی نہتی اقلیت کو بیدردی سے قتل کرنا اورانہیں صفحۂ ہستی سے مٹا دینے کیلئے غیر انسانی افعال کا مرتکب ہونا، ایسے جرائم تھے کہ دنیا نے پہلی بار ۱۹۴۸ء میں اقوام متحدہ کے زیر تحت نسل کشی کو جرم قرار دیا۔ اس دوران مغرب کے پڑھے لکھوں کی’ نسل کشی‘ میں دلچسپی اتنی بڑھی کہ سماجی علوم کے ماہرین کے ساتھ صحافیوں نے بھی اس موضوع پر کتابیں لکھنے کا  آغاز کر دیا۔ اب تو نسل کشی پر لکھنے والوں کی انجمن بھی قائم ہوچکی ہے اور اس عنوان  پر ایک انکلیومیڈیا بھی شائع ہوچکا ہے۔
  معلوم تاریخ میں قدیم آبادی اور قبائلیوں کی نسل کشی کا سہرہ ان سامراجی طاقتوں کے سرجاتا ہے جنہوں نے نئی زمینیں دریافت کرنے کے بعد اپنے ترقی یافتہ اسلحہ کی مدد سے ان قدیم باشندوں کو ان کی زمینوں سے بے دخل کرنے کا کام کیا جو صدیوں سے وہیں آباد تھیں ۔ اولاً تو انہیں غیر مہذب ٹھہرایا ، پھر انہیں مہذب بنانے کے بہانے ان سے ان کی تہذیبی شناخت چھین لی۔ اس کارخیر میں کیا مشنری ، کیا فوجی، سبھی برابر کے شریک تھے۔ یہ امریکہ اور کناڈا میں ہوا اور آسٹریلیا میں بھی ۔ ترکی نے بھی ۱۰؍ لاکھ سے زیادہ آرمینین آبادی کا قتل عام کیا اور  انہیں فرار ہونے پر مجبور کیا۔ ۱۹۱۵ء کی اس نسل کشی کو آرمینینس آج تک نہیں بھلا پائے ۔ اس دوران ایک اچھی بات یہ ہوئی کہ ترکی کے موجودہ صدر نے فراخ دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے آرمینین نسل کشی کی معافی مانگ لی (جبکہ کچھ لوگ اقلیتوں کی نسل کشی پر اپنی زبان تک نہیں کھولتے)۔ عراق کی کرد آبادی کو منصوبہ بند طریقہ سے ختم کرنا بھی نسل کشی کے زمرے میں ہی آتا ہے اوریہ مسئلہ آج تک حل نہیں ہسکا ہے۔ اس ضمن میں اسٹالن ایسے سخت گیر لیڈر کو تاریخ کبھی معاف نہیں کرے گی کیونکہ زارنکولس سے اقتدار چھین کر بالشویک انقلابیوں نے کمیونسٹ نظام حکومت کو تو سند جواز عطا کردی مگر اس کے بعد ` Gulag` اور’طبقاتی جنگ‘ کے نام سے اسٹالن کی  سیکرٹ پولیس نے جس طرح دس لاکھ سے زائد شہریوں کا قتل عام کیا اور ایک بھاری اکثریت کو سائبریا کے جنگلوں میں پھینک کراپنی درندگی کا ثبوت دیا، وہ انسانی تاریخ کا ایک ناقابل فراموش باب ہے۔ نسل کشی کا ایک خونیں باب جوہر پڑھے لکھے کوازبر ہے، وہ ہٹلر کے ہاتھوں یہودیوں کی نسل کشی ہے۔ ہٹلر ایک ناکام فوجی اور ایک بے ہنر مصور تھا جس نے جمہوری رائے سے اپنی اقلیتی سیاسی پارٹی کو  اعتبار دلایا تھا۔ بعدازاں اس نے کچھ ایسی سیاست کھیلی کہ اس کی تقریریں اور قومیت کے راگ جرمن قوم کے دل  میں بستے چلے گئے اور اپنی تشہیری مشینری کے ذریعہ اس نے یہودیوں کی نسل کشی کو عوام سے منظوری دلوادی۔ پھر تو عقوبت خانے بننے لگے، گیس چیمبرز تیار ہوئے اور یہودیوں کو ان کی آبادیوں سے کھینچ کھینچ کر موت کے گھاٹ اتار ا گیا۔ آج یہودیوں کی نسل کشی  (ہولوکاسٹ ) سے انکار ایک جرم بن چکا ہے اوراس کے پردے میں فلسطینیوں پر  مظالم ڈھانے کی روایت بھی مستحکم ہوچکی ہے ۔ ہٹلر کے مظالم  اوراس کی منصوبہ  بند نسل کشی کو اتنی کتابوں، مقالات اور فلموں میں  دُہرایا گیا ہے کہ آنے والی نسلیں شاید ہی ہٹلر کے مظالم کو بھول سکیں۔
  اسی طرح ۱۹۷۳ء میں صرف ۶؍ مہینوں میں کمبوڈیا میں ڈھائی تا تین لاکھ ویت نامیوں کی موت بھی نہیں بھلائی جاسکتی ۔ پانچ سال کے عرصے میں امریکہ کی مدد سے کتنے معصوم شہری جاں بحق ہوئے، ان کی صحیح تعداد آج تک معلوم نہیں  ہوسکی ہے۔نسل کشی کا زخم تو بوسنیا اور کوسوووکی آبادی نے بھی سہا ہے اورجس نفرت اور درندگی سے ان علاقوں کی مسلم آبادی کیلئے اجتماعی قبریں بنائی گئیں ، عورتوں پر جبراً تشدد روا رکھا گیا اور نوجوانوںکو چن چن کر مارا گیا،  وہ ’عالمی عدالت انصاف‘ (ہیگ) کے ریکارڈ میں آج تک محفوظ ہے۔ اگر ۱۹۹۲ء میں کچھ مغربی صحافیوں نے سربوں کے قائم کردہ کیمپوں کی رپورٹنگ نہ کی ہوتی تو شاید بلقان کی نسل کشی کی خبر بھی نہ ہوتی۔ آج بھی ۱۸؍ ہزار بوسنیائی مسلمانوں کا کوئی پتہ نہیں۔ بوسنیا ہرزوگنیا کا وزیراعظم ملیوسوویک عدالتی فیصلے سے قبل ہی اپنی طبعی موت مرگیا مگرنسل کشی میں اس کا شریک کار ملک کا صدر کارازک اور فوجی جنرل ملاویک آج تک قیدی ہیں۔اس کے باوجود کوسوو کی سیاسی حیثیت اور مسلم آبادی کا مستقبل آج بھی اتنا ہی غیر محفوظ ہے جتنا نسل کشی کے دوران تھا۔ کچھ تجزیہ نگاروں کے نزدیک۱۹۹۴ء میں روانڈا میں Tutsi قبیلہ کا قتل عام بھی کسی اور نسل کشی سے زیادہ لرزہ خیز ہے۔ شاید اسلئے بھی کہ اس ’معرکہ‘ میں اکثریتی آبادی Hutu راتوں رات قاتل بن گئی تھی اور اس نے دس لاکھ سے زائد Tutsi آبادی کی جان لے لی۔ دنیا کے کسی ملک نے اس غریب اور بے سہارا قبیلے کیلئے ہمدردی کا ایک لفظ نہیں کہا اور سب یہی دُہراتے رہے کہ وہ ہم سے کتنے دور ہیں اور غریب سیاہ فاموں کیلئے ویسے بھی کیا کیاجاسکتا ہے۔ عالمی طاقتوں کی اس بے حسی پر دس سال بعد کوفی عنان نے افسوس کرتے ہوئے کہا تھا کہ کیا ہم اچھے دنوں میں ایک نئے روانڈا کے ساتھ ایسا ہی برتاؤ کریں گے؟ 
  ایسے میں کچھ سوالات اُبھرتے ہیں۔ کیا نسل کشی کا ذمہ دار وہ آمر ہے جسے قسمت سے کسی ریاست کی سربراہی حاصل ہوگئی اوراس نے اپنے اقتدار کے نشے میں اپنی ہی آبادی کو کچھ فرضی وجوہات اور سیاسی مصلحتوں کے تحت اجاڑ ڈالا؟ (اڈولف ہٹلر،  جوزف اسٹالن اور ماؤزے تنگ کی شخصیات کے مطالعہ سے تویہی واضح ہوتا ہے) یا یہ زمین  جائیداد اور  دولت واقتدار کی لالچ تھی جس نے ایک گروہ کو دوسرے گروہ کا مخالف بنادیا؟ یا کوئی خوف کہ اگراس اقلیت کو زیر نہیں کیا توکل ہم خود زیر دام ہوں گے؟ یا پھر نئی ٹیکنالوجی کا فیض ( ریلوئے ، ہوائی جہاز ، کیمیاتی ہتھیار اور ریموٹ سے بمباری وغیرہ ) جس نے حکمراں پارٹی کو مزید قوی تر بنا دیا؟  وجہ جو بھی ہو، نسل کشی کی چنگاری کے بھڑکنے سے قبل عوام کو خبردار رہنا چاہئے ۔ معاشی بدحالی، فرقہ پرستی ، نفرت کا پروپیگنڈہ ، ناانصافیوں پر مبنی نت نئے قوانین کی تشکیل، ہر طرح کی آزادی کو دبانے کی کوششیں اور اقتدار کے آگے میڈیا کی غلامی، کچھ ایسی علامات ہیں جو بالآخر نسل کشی کو ہوا دیتی ہیں۔ اس پر اقوام متحدہ سے امید باندھی جائے کہ وہ نسل کشی پر روک لگائے گی، تویہ خام خیالی ہے۔ سوپرپاور کی اپنی سیاست ہوتی ہے۔ کسی معاملے میں ان کے مفاد ات  پر ضرب پڑتی ہو، تو وہ ٹس سے مس نہیں ہوتے۔ انہیں تو مجرم حکومتوں پر پابندی لگاتے ہوئے بھی ہزار مصلحتیں یادآجاتی ہیں۔ فوجی مداخلت کا ذکر بھی فضول ہے۔ نسل کشی کے دوران ’پیس آرمی‘ کے چند سونوجوان بھی کوئی کارنامہ انجام دینے سے قاصر رہتے ہیں۔ اب یہ انسانی حقوق کی تنظیموں سے متعلق ان باشعور اور باضمیر افراد پر منحصر ہے کہ وہ ٹھوس ثبوتوں کی موجودگی  میں حکومتوں سے داد طلب ہوں ورنہ تو لوگ ان مضامین اور کتابوں کو پڑھنے سے بھی کتراتے ہیں جن میں سرکاری بدعنوانیوں کا ذکر ہوتا ہے۔ اگر عوام کی طاقت واقعی موثر ہوتی تو، دارارفور ہوتا، نہ مشرقی تیمور، نہ میانمار۔
  درحقیقت آج ہم نے  انسانی خطوط پر سوچنا چھوڑ دیا ہے۔ ہماری ہمدردیاں صرف ہم تک محدود ہیں۔ ہمیں ان لاکھوں مجبوروں اور بے سہارا افراد سے کوئی سروکار نہیں جو میلوں دور ظالم گروہوں کے استبداد کا شکار ہیں۔ ہمیں ان کی عزت وناموس کی بے حرمتی بھی مغموم نہیں کرتی۔ ہم تو اپنی دعاؤں میں ان مظلوموں کو یاد بھی نہیں کرتے جو نہ جانے کب سے اپنے اپنے علاقوں میں محصور ہیں، نہ ہم نے کبھی ان کے لئے کچھ کرنے کا سوچا ہے ۔ ایسے میں نسل کشی پابندی سے ہوتی رہے تو موردِ الزام کسے ٹھہرایاجائے

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK