دہلی کار دھماکے کے بعد وہی مسلم نام اور مسلم علاقے تحقیقات کی زد میں ہیںلیکن حکومت ان دعوؤںسے بری الذمہ نہیںہوسکتی جو اس نے مذکورہ آپریشن کے بعد کئے تھے۔
جس دن لال قلعہ کے نزدیک کار دھماکہ ہوا، اسی دن تینوںافواج کی مشترکہ مشق’ ایکسرسائز ترشول‘ کا آخری دن بھی تھا۔ تصویر:آئی این این
قومی راجدھانی دہلی میں۱۰؍ نومبر کو ہوئے کاربم دھماکہ نے ملک میںبم دھماکوںکے اس دور کی تلخ یادیں تازہ کردیں جن کے بعدپولیس ، سی بی آئی اور دیگر تفتیشی ایجنسیوں کے ذریعے مسلمانوںکو نشانہ بنایاجانا معمول تھا۔ہر بم دھماکے کے بعد تفتیش ایک ہی رخ پرہوتی تھی جس کے تحت مسلم نوجوانوںکی گرفتاری عمل میں آتی تھی اور پھراسلام اور دہشت گردی کے موضوع پرطویل بحث کا سلسلہ چل پڑتا تھا۔ پولیس اور ایجنسیوں کیلئے یہ کام اتنا آسان اور سادہ تھا کہ کسی افسر کو بم دھماکوں کے بعد مسلمانوںکوتحقیقات کے دائرے میں لانے کےسِوااورکوئی زاویہ تفتیش سوجھتا ہی نہیںتھا ۔ ان میں صرف مہاراشٹر اے ٹی ایس کے سابق افسر ہیمنت کرکرے استثنیٰ ہیں جنہوں نے مالیگاؤںبم دھماکوں (۲۰۰۸ء) کے بعدتفتیش کو ایک بالکل نیا رُخ عطا کیا تھا اور ملک میں پہلی بار بھگوا دہشت گردی کے چہر ےسے نقاب اٹھایا تھا ۔
ملک میںیہ حالات برسوں رہے ، بہرحال اِدھر کچھ برسوںسےبم دھماکےخاموش رہے لیکن بعض دوسرے مسائل پیدا ہوگئے ۔ ان برسوں میں بم دھماکے اوران کی آڑ میں مسلمانوںکو نشانہ بنانے سلسلہ تو رُک گیا لیکن ہجومی تشدد کا ایک نیا رجحان پیدا ہوگیا، اس کے علاوہ مسلمانوںکی املاک پر بلڈوزر چلانے کی بھی بالکل نئی مثال قائم کردی گئی۔ یہ دونئے رجحانات اور مثالیںابھی جاری ہی ہیں ، یہ ملک میںمسلمانوںکو خوفزدہ کرنے اور انہیںدوسرے درجہ کا شہری بناکررکھنے کے نئے ہتھیار ہیںلیکن اب ان کے ساتھ وہی پرانا پیٹرن یعنی بم دھماکہ ایک بار پھرزندہ کردیاگیا ہے ۔ اب اس کی آڑ میںبھی وہی کچھ کیا جارہا ہےجوبیس تیس سال پہلے کیاجاتا رہا ۔
دلچسپ بات یہ ہےکہ اس وقت جب کہ آئے دن بم دھماکوں اوران کے الزام میں مسلم نوجوانوں کی گرفتاری کی خبریں سننے ، پڑھنے ا ور دیکھنے کو ملتی تھیں ، حکومت کا موقف دہشت گردی کے تعلق سے ’ زیروٹالرینس ‘ کا ہی تھا لیکن دعویٰ اوردہشت گردی سے نمٹنے کی تیاریاں ایسی نہیںتھیں جیسی آج ہیں ۔ قومی راجد ھانی جس دن کاردھماکے سے لرز اٹھی اور اس کے نتیجے میں ۱۲؍ افرادجان گنوابیٹھے ، سوراشٹر کے خطے میں اسی دن تینوں افواج کی مشترکہ فوجی مشق ’ایکسرسائز ترشول ‘کا آخری دن تھا ۔یہ مشق جدید جنگی طریقوںکے تجربہ سے متعلق تھی ۔ ہندوستانی بحریہ، بری فوج اور فضائیہ کی مشترکہ تربیتی کار روائیاں اس مشق کا حصہ رہیں جن میں ڈرون جنگ، سائبر وارفیئر، جل تھلی (سمندری و زمینی مشترکہ) آپریشنز اور الیکٹرانک جنگی طریقے شامل تھے۔ یہ مشق گجرات اور راجستھان کے علاقوںمیں انجام دی گئی جن میں سرکریک ،صحرائی سیکٹراورشمالی بحیرۂ عرب کے ساحلی علاقے شامل ہیں۔ دہشت گردی سے نمٹنے اور لڑنےکی تیاریوںکے پہلو سے اس مشق کوتینوںافواج کی اب تک کی سب سے بڑی مشق قراردیا گیا ہے ۔یہ بات نہایت عجیب ہےکہ افواج تاریخ کی سب سے بڑی مشترکہ مشق میںمصروف تھیں اوردہلی جیسےشہر میں دہشت گردگھوم رہےتھے۔اسے انٹیلی جنس کی ناکامی کہیںیا محکمہ داخلی سلامتی کی ۔ اسے فوج کی ناکامی کہیںیا پولیس اورتفتیشی ایجنسیوں کی ۔ اس سے پہلے خود پہلگام حملہ بھی کئی سوالوں کی زد میں آچکا ہے جن میںسب سے اہم توحملہ آوروںکے عین سیاحوں کے درمیان پہنچنے اورغارتگری انجام دینے کے بعدفرار ہوجانے سے متعلق ہےکیونکہ وادی کشمیر وہ خطہ ہے جو مسلسل فوجی سیکوریٹی کے گھیرے میں رہتا ہے ۔ اگر دہشت گرد فوجی سیکوریٹی کا حصارتوڑ کرملک میںداخل ہوسکتے ہیںتو ایسی سیکوریٹی کس کام کی؟ اس کے جواب میں حکومت نے آپریشن سیندور کی شکل میں سرحد پار دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو کامیاب نشانہ بنایا لیکن اب تک کہیںسے یہ تصدیق نہیں ہو سکی ہے کہ پہلگام کے حملہ آوروں کا پتہ لگالیا گیا ہے یا انہیں گرفتار کرنے کی کوئی کوشش جاری ہے ۔پہلگا م حملہ بھی غیر معمولی تھا ، اس کے جواب میںانجام دیا گیا آپریشن سیندور بھی غیر معمولی تھا اورحال ہی میںختم ہوئی مشق ترشول بھی غیر معمولی تھی ۔ آپریشن سیندور کے بعد ملک کے تحفظ اور سلامتی کے تعلق سے حکومت کے دعوے بھی غیرمعمولی تھے۔ان سبھی اقدامات اور دعوؤں کو دہلی کار بم دھماکہ نے ڈھاک کے تین پات ثابت کر دیا ۔ آپریشن سیندورجیسی فوجی کارروائی بھی اگر ملک میںدہشت گردی کو روک نہیںسکی توحکومت اقدامات کس کیلئے اور دعوے کس بنیاد پر کررہی ہے۔ کار دھماکے کو ’دہشت گردانہ حملہ ‘ قراردینے میںبھی حکومت کو ۲؍ دن لگ گئے جس سے ظاہر ہوتا ہےکہ حکومت کسی بڑے مخمصے میں تھی۔ حکومت نے اسے دہشت گردانہ حملہ قراردے کریہ اعتراف بھی کرلیاکہ دہشت گردی کیخلاف اس کے اب تک کے سارے اقدامات لاحاصل رہے ۔گویا اس نے قبول کرلیا کہ دہشت گردی پر قابو نہیںپا یاجاسکتا یا کم از کم وہ قابونہیںپاسکتی ۔
تحقیقات میںاسے ’وہائٹ کالرٹیرر ماڈیول‘نام دیا گیا ہے جس میںاعلیٰ تعلیم یافتہ مسلمانوںکے ملوث ہونے کا دعویٰ کیاگیا ہےاور اسی سمت میں تحقیقات بھی کی جا رہی ہے۔وہی مسلم نام ، مسلم چہرے اور مسلم علاقے تحقیقات کی زد میں ہیں۔تفتیشی ایجنسیاںاپنے طے شدہ رخ پر ہی تحقیقات کریں گی، انہیںیہی ہدایت دی جاتی ہے۔طےشدہ رخ سے ہٹنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ کار دھماکے کوسی این جی سلنڈردھماکے کے طورپربھی دیکھا جارہا تھا لیکن پریس انفارمیشن بیورو(پی آئی بی)نے ایسی اطلاعات کو مسترد کردیا۔حالانکہ یہ بات اتنی آسانی سے مسترد نہیںکی جاسکتی ۔ کیا نہیںکہا جاسکتا کہ اگر کار کسی مسلمان کی نہ ہوتی تب اسے سلنڈر دھماکہ ہی کہہ کرمعاملہ رفع دفع کر دیا جاتا۔ کارمسلمان کی تھی یا بنا دی گئی،اس سوال کا جواب بھی کسی تحقیق و تفتیش میں سامنے نہیںآئے گا لیکن جوکچھ سامنے آیا ہے وہ ملک کوبیس تیس سال پہلے کے دور میں لے جانے کے مترادف ہے۔
اس معاملے میںاب تک جتنی بھی گرفتاریاںہوئی ہیں، جتنے بھی چھاپے مارے گئے ہیں، جتنے بھی دھماکہ خیز مواد اورآتش گیر کیمیکل وغیرہ ضبط کئے گئے ہیں،ان کا معاملہ ایسا ہی ہے کہ اے ٹی ایس اور اے این آئی جیسی ایجنسیوں کے افسران نے کچھ مخصوص ٹھکانوں کو مقرر کیا، وہاںپہنچ کر کارروائی کی ، مواد ومشمولات ضبط کرلئے اورملزمین کو اپنے ساتھ لے گئے۔شبہ کیا جاسکتا ہےکہ ایجنسیوں کی کارروائی پہلے سے طے تھی! انہوں نے اہداف پہلے سے مقرر کررکھے تھے۔کسی ملزم کو اپنی صفائی میںکچھ کہنے کا موقع نہیں دیاگیا(اور ایجنسیوں کی کارروائی میں دیا بھی نہیںجاتا ، ممکن ہے انہیںعدالت میں ا پنا مقدمہ رکھنے کا موقع ملے ) ، بس کارروائی اورچھاپےکی تصاویر جاری کردی گئیں۔یہاں یہ بھی اندیشہ ہےکہ ایجنسیاںانہیںہی عدالت میںپیش کرے گی ،جنہیں وہ پیش کرنا چاہے گی اور کچھ کو وہ بغیر مقدمہ کے بھی حراست میں رکھ سکتی ہیں۔یہ نیوانڈیا کی نئی تفتیشی ایجنسیاں ہیں،آخر ان کے بارے میںکچھ نہیں کہا جا سکتا لیکن یہ سوال عام لوگوں کے ساتھ ہی سرکار کوبھی چبھنا چاہئےکہ آپریشن سیندور جیسی کارروائی کے بعدملک کی راجدھانی دھماکہ کی زدمیں کیسے آئی؟