Inquilab Logo

ضمیر ہر قوم کی آپ میراث ہوتا ہے

Updated: March 05, 2024, 1:28 PM IST | Hasan Kamal | Mumbai

ہمارا یہ کالم شاید ہندوستان کا واحد مضمون تھا جس نے یہ بتایا تھا کہ عمران خان اور ان کی پارٹی تحریک انصاف کو پاکستان کی قومی اسمبلی میں وہ اکثریت مل جائے گی جسے حاصل کرنے کے لئے ان کی پارٹی سوچ بھی نہیں سکتی تھی ، اس کے باوجود عمران خان وزیر اعظم نہیں بن سکے ۔

Photo: INN
تصویر:آئی این این

پچھلے دنوں  ان کالموں  میں ہم نے پاکستان کے راولپنڈی شہر کے پولیس کمشنر لیاقت علی جتھا کا ایک واقعہ بتایا تھا اور یہ بتانے کی کوشش کی تھی کہ جب قوم جاگتی ہے توسب سے پہلے اس کا ضمیرجاگ پڑتاہے، افسوس کا مقام ہے کہ اس افسر نےخود کو گرفتار کروا دیا تھا لیکن اس کے بارے میں  مزید کچھ پتہ نہیں  چلا ، اگر اس افسر کی جان لینے کی کوشش کی گئی ہےتو قاتلوں  کو کہیں  سرچھپانا مشکل ہو جائے گا۔ ایسی ہی ایک خبر امریکہ سے آئی ہے۔
 گزشتہ ہفتہ امریکہ کی راجدھانی واشنگٹن میں  امریکی فوج کے ایک سپاہی نے اپنے دفتر کے سامنے خود کو نذرآتش کر دیا، اس نے خود سوزی کی وجہ یہ بتائی کہ وہ فلسطین میں  تعینات رہا ، لیکن جب اس نے غزہ کے نہتے عوام کو اسرائیلی ڈرونوں  اور میزائیلوں  سے بے سہارا مرتے دیکھا اور یہ دیکھا کہ ان شہید ہونے والوں  کی بڑی تعداد بچوں اور خواتین کی تھی تو اسے ایسالگا جیسے وہ سپاہی خود ہی یہ قتل عام کر رہا ہے۔اس کیلئے بلکہ اس کے ضمیر کیلئے یہ ایسا بوجھ تھا جسے وہ نہیں  اٹھا سکتا تھا، اس امریکی کاخود کو نذر آتش کرنے والا یہ ویڈیو امریکہ میں  وائرل ہورہا ہے۔
 امریکہ میں  فلسطین اور اب غزہ کے بارے میں  بہت سے حقائق سامنے آچکے ہیں ، ہم نے ان کالموں  میں  بتایا تھا کہ امریکہ کی نصف سے بھی زیادہ آبادی فلسطین کو ایک سچائی ماننے والی ہے، حال ہی میں نیویارک ٹائمز کے ایک کالم نگار نے لکھا ہے کہ امریکی رائے عامہ معلوم کرنے والی ایک کمپنی نے یہ بتایا ہے کہ امریکہ کی ڈیمو کریٹ پارٹی میں  موجود لیفٹسٹ عناصر صدر جو بائیڈن کی فلسطین پالیسی کے یکسر خلاف ہیں ، اس سروے میں  کہا گیا ہے کہ اگر جوبائیڈن ہی امریکی صدارت کے امیدوار رہے تو ڈیمو کریٹ یہ الیکشن ہار جائیں  گے، یہ ممکن ہے کہ گر ان کے بجائے کوئی دوسرا امیدوار ہو تو ڈیموکریٹ کچھ توقع رکھ سکتے ہیں ، اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ بائیڈن پہلے اسرائیل کے بہت خلاف تھےانہیں  معلوم تھا کہ امریکی ان کی اس پالیسی سے خوش نہیں  ہیں  ، بائیڈن بھی یہ چاہتے تھے کہ اسرائیل غزہ میں  کم از کم ایک ماہ یا اس سے کچھ زیادہ مدت کیلئے  جنگ بند کردے اور اس عرصہ میں  وہ عرب دوستوں  کی مدد سے حالات کو قابو میں  کر لیں  گے لیکن یہ نہیں  ہوا۔ اس کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ امریکہ کے یہودی وزیر خارجہ ٹونی بلنکن اس کے مخالف تھے، دوسری طرف ٹونی بلنکن نے یہ بتایا کہ نیتن یاہو کی بھی ایک مجبوری ہے، وہ یہ جانتے ہیں  کہ اسرائیل میں  ان کا اثر گھٹتے گھٹتے بالکل صفر تک ہو گیا ہےاور ان کی یہ مجبوری ہے کہ اگر انہوں  نے غزہ میں  جنگ جاری نہیں  رکھی تووہ شاید دوسرے ہی دن اسرائیلی سیاست سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے فارغ ہوجائیں  گے ، اس لئے وہ جنگ پر مجبور ہیں ، لیکن اب حالات سرے سے قابو سے باہر ہو چکے ہیں  ۔یہ جنگ شاید اب چند دنوں  اور چند ہفتوں  تک ہی چل سکے۔ 
 پاکستان کا حال اور بھی عجیب و غریب ہے۔ ہمارا یہ کالم شاید ہندوستان کا واحد مضمون تھا جس نے یہ بتایا تھا کہ عمران خان اور ان کی پارٹی تحریک انصاف کو پاکستان کی قومی اسمبلی میں  وہ اکثریت مل جائے گی جسے حاصل کرنے کے لئے ان کی پارٹی سوچ بھی نہیں  سکتی تھی ، اس کے باوجود عمران خان وزیر اعظم نہیں  بن سکے ، اس کی کچھ وجوہات ہیں ۔عمران خان کے سب سے بڑے مخالف نواز شریف ایک نہیں  دو سیٹوں سے الیکشن ہار چکے ہیں ، نوشہرہ سیٹ پر انہیں  تحریک انصاف کے ایک حامی امیدوار محمد گشتاسپ خان سے ہار ملی ہے اور لاہور سے انہیں  ستر سالہ کینسر سے شفایاب یاسمین راشد سے شکست فاش ہوئی ہے، لیکن کوشش کی جا رہی ہے کہ کسی طرح ہارے ہوئے کی ایک حکومت بن جائے، شاید یہ ہو بھی جائے لیکن یہ ریت کے اوپر بنی ہوئی عمارت ہو گی۔ پاکستان کی صورت حال میں  بھی امریکہ کا عمل دخل ہے۔ جوبائیڈن کو عمران خان سے نفرت تھی ، کیونکہ عمران خان کی پارٹی پاکستان کو امریکہ کے چنگل سے نجات دلانا چاہتی ہے۔
 اگر امریکہ نے اس سچ کو تسلیم نہیں  کیا تو شاید ہندوستان کی مودی سرکار کو بھی اسے ماننے میں  تکلف ہو۔حالانکہ سچ ہے کہ چاہے پاکستان میں  کوئی ڈھنگ کی سرکار بن جائے، چنانچہ یہ جان لیجئے کہ پاکستان کے سلجھے ہوئے حالات میں  سب کی بہتری ہے۔ لیکن دنیا کی کوئی طاقت عمران خان کو ملنے والی رائے عامہ سے مکر نہیں  سکتی۔  اس لئے ہم نے اسرائیل کے بارے میں  یہ کہا کہ وہاں  نتن یاہو کی مرضی نہیں  چلے گی ،اسی طرح پاکستان کے بدنام سیاست دانوں  کی بھی مرضی نہیں  چلےگی۔
 بتایا جاتا ہے کہ امریکہ کی وزارت خارجہ نے مبینہ طور پر پاکستان کے آرمی چیف جنرل باجواکو ایک پیغام بھیجا تھا کہ عمران خان کی سرکارگرادی جائے اور یہیں  سے یہ کھیل شروع ہوا تھا،  شریفوں  اور زرداریوں  کی ساری تائید حاصل رہی اور ان سب کو شہ مل رہی تھی۔ جو بائیڈن اوران کے وزیر خارجہ ٹونی بلنکن تھے، لیکن امریکہ میں  حالات اب بدلے ہوئے ہیں ، امریکہ کے عوام کے علاوہ وہاں  کے کانگریس مینوں  کو بھی اس بات کا احساس ہے ،پاکستانی سیاست دانوں  پریعنی وہی شریفوں اور زر داریوں  نے پاکستانی عوام کو یہ بتایا کہ امریکہ یہاں  کی صورت حال سے بہت نا مطمئن ہے، لیکن انہیں  یہ خبر نہیں  تھی کہ امریکہ میں  کیا ہو رہا ہے۔ پھر امریکی کانگریس نے جوبائیڈن کو ایک خط لکھااورکہا کہ ا گر امریکہ نے اس طرح کی چنی ہوئی سرکار مان لی تو امریکہ کی جمہوریت پسندی خاک میں  دھری کی دھری رہ جائے گی۔ لیکن صدر اس پر زیادہ توجہ نہیں  دے رہے تھے، لیکن کانگریس کے اس خط کے ساتھ ہی امریکہ کے تین دہائی سے بھی زیاہ کانگریسی بائیڈن کو یہی لکھ چکےہیں  ، بائیڈن کیلئے ان کانگریس مینوں  کی بات کوٹالنا مناسب نہیں  ہوگا، اس لئے یہ سمجھا جا رہاہے کہ اگر امریکہ نے یہ بات نہیں  مانی تو یورپ کا کوئی دوسرا ملک بھی اسے تسلیم نہیں  کرے گا، یہی نہیں  پاکستان کو بین الاقوامی فنڈ سے ایک خطیر مدد ملنے والی تھی اس میں  بھی خلل پڑ جائے گا۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK