Inquilab Logo

اللہ کی راہ میں انفاق جیسے اعمالِ صالحہ ہی آخرت کا سامان ہیں

Updated: February 21, 2020, 12:51 PM IST | Dr. Hasanuddin Ahmed

اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کی بہت زیادہ اہمیت ہے ۔ اس ضمن میں آیت البـرّ کے حوالے سے انفاق کے موضوع پر تفصیلی مضمون

علامتی تصویر۔ تصویر : آئی این این
علامتی تصویر۔ تصویر : آئی این این

اسلام ایمان کے عملی ظہور کا دوسرا نام ہے۔ ایمان بیج ہے تو اسلام اس کا درخت ہے۔ جہاں ایمان ہوگا، اخلاق میں برتاؤ، تعلقات کے کٹنے اور جڑنے، سعی اور جدوجہد کے راستو ںمیں اس کا ظہور ہوگا۔ گویا ایمان کا اظہار عملِ صالح کی شکل میں ہوتا ہے۔ آیت البرّ (لیس البرّ اَن تولّوا…الخ) میں اللہ تعالیٰ نے ایمان کے تذکرے کے بعد سب سے پہلے جس عملِ صالح کی طرف ہماری توجہ مبذول کرائی ہے وہ اس کی راہ میں اس کے بندوں پر مال خرچ کرنا ہے۔ ارشاد خداوندی ہے: ’’اور اللہ کی محبت میں اپنا دل پسند مال رشتے داروں اور یتیموں پر، مسکینوں او رمسافروں پر، مدد کے لئے ہاتھ پھیلانے والوں پر اور غلاموں  کی رہائی پر خرچ کرو۔‘‘
 اس عمل کی اہمیت کو سمجھنے کے لئے اس کے پس منظر پر ایک نظر ڈالنا ضروری ہے۔ پہلی بات یہ ہے کہ جب اللہ نے اہلِ کتاب سے اس کی راہ میں مال خرچ کرنے کی بات کی  (دیکھئے المائدہ:۶۳) تو وہ کہتے تھے کہ کیا اللہ کے ہاتھ بندھے ہیں کہ وہ ہم سے مال مانگتا ہے، حالانکہ اللہ تو غنی ہے، وہ خود ہی اللہ کے محتاج تھے اور دوسری بات یہ ہے کہ وہ اہلِ ایمان کو آگاہ کررہا ہے کہ انفاق سے نہ کترائیں ورنہ اللہ ان کی جگہ کسی اور قوم کو کھڑا کر دے گا ’’دیکھو، تم لوگوں کو دعوت دی جا رہی ہے کہ اللہ کی راہ میں مال خرچ کرو اِس پر تم میں سے کچھ لوگ ہیں جو بخل کر رہے ہیں، حالانکہ جو بخل کرتا ہے وہ در حقیقت اپنے آپ ہی سے بخل کر رہا ہے اللہ تو غنی ہے، تم ہی اس کے محتاج ہو اگر تم منہ موڑو گے تو اللہ تمہاری جگہ کسی اور قوم کو لے آئے گا اور وہ تم جیسے نہ ہوں گے۔‘‘ (محمد:۳۸)  ’’لوگو، تم ہی اللہ کے محتاج ہو اور اللہ تو غنی و حمید ہے۔‘‘(فاطر:۱۵) تیسری بات یہ ہے کہ اللہ جس عمل کا اہلِ ایمان سے مطالبہ کرتا ہے وہ عمل پہلے ہی نبیوں کے کردار میں لوگوں کو بطور نمونہ دکھا دیتا ہے تاکہ وہ اس پر عمل کرنے کو ناممکن نہ سمجھیں۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ کم و بیش یہ وہی عمل ہے جو رسول اللہ ﷺ نبوت پر سرفراز ہونے سے پہلے بھی کیا کرتے تھے ، جیسا کہ ایک حدیث کے مطابق حضرت خدیجہؓ نے آپؐ سے فرمایا تھا کہ ’’اللہ آپؐ کو ضائع نہیں ہونے دے گا، اس لئے کہ آپؐ رشتے داروں کے ساتھ حسن سلوک کرتے ہیں، ناداروں اور محتاجوں کی مدد کرتے ہیں اور مہمان نوازی کرتے ہیں…‘‘ گویا کامل مسلمان بننے کے لئے ایمان کے ساتھ اعمالِ صالحہ کا اختیار کرنا ضروری ہے ۔ چنانچہ ایمان لانا اور اس کا صرف زبانی اظہار اس امر کی ضمانت نہیں ہے کہ مومن کو کوئی اچھا یا بڑا اجر ملے جب تک کہ ایمان لانے والا ایمان کے زبانی اظہار کے ساتھ اس کا عملی اظہار بھی نہ کرے۔ یہ عملِ صالح ہی ہے جو مومن کو اچھے اور برے اجر کا مستحق بناتا ہے۔ قرآن اس کا اعلان اس طرح کرتا ہے:’’حقیقت یہ ہے کہ یہ قرآن وہ راہ دکھاتا ہے جو بالکل سیدھی ہے جو لوگ اسے مان کر بھلے کام کرنے لگیں انہیں یہ بشارت دیتا ہے کہ ان کے لئے بڑا اجر ہے ۔‘‘
 (بنی اسرائیل:۹)   
(مزید دیکھئے: الکہف:۲)
اللہ کی محبت میں دل پسند مال خرچ کرنا
 زیرمطالعہ آیت کے اس دوسرے جزو میں جو پہلی بات کہی گئی ہے وہ یہ ہے کہ ’’وہ اپنا مال اس کی محبت میں لاتے ہیں۔‘‘ اس پہلی بات میں بھی دو نکتے ہیں جن پر غور کرلینا چاہئے۔
  پہلا نکتہ یہ ہے کہ ’’وہ اپنا مال  لاتے ہیں۔‘‘ لانے سے مراد خرچ کرتے یا صرف کرتے ہیں۔ کیا یہاں اِس خرچ کو ایک فریضہ قرار دیا جارہا ہے یا یہ خرچ نفل کی حیثیت رکھتا ہے جس کے لئے  اللہ تلقین کررہا ہے؟ تمام مفسرین کے نزدیک یہ مال خرچ کرنانفل یا اختیاری عمل ہے۔ چنانچہ ایسے نفل یا اختیاری خرچ کو جو ان ضرورت مندوں پر کیا جائے جن پر خرچ کرنا قانونی یا دینی فریضہ یا ذمے داری نہ ہو، ’انفاق‘ یا صدقہ کہا جاتا ہے۔  انفاق ایک اخلاقی اور سماجی فریضہ ہے اور اس کے کرنے کے فائدے بھی بہت ہیں۔ سب سے بڑا فائدہ تو یہ ہے کہ اللہ انفاق کا اجر ۷۰۰؍ گنا بڑھا کر بلکہ اس سے بھی زیادہ عطا کرتا ہے:
 ’’جو لوگ اپنے مال اللہ کی راہ میں صرف کرتے ہیں، اُن کے خرچ کی مثال ایسی ہے، جیسے ایک دانہ بویا جائے اور اس سے سات بالیں نکلیں اور ہر بال میں سو دانے ہوں اِسی طرح اللہ جس کے عمل کو چاہتا ہے، افزونی عطا فرماتا ہے وہ فراخ دست بھی ہے اور علیم بھی ۔‘‘ (البقرہ:۲۶۱)
 دوسرا فائدہ یہ ہے کہ اللہ انفاق کرنے والے کو بخش دینے اور انعام و اکرام سے نوازنے کا وعدہ کرتا ہے:
 ’’اللہ تمہیں اپنی بخشش اور فضل کی امید دلاتا ہے اللہ بڑا فراخ دست اور دانا ہے۔‘‘ (البقرہ:۲۶۸)
 تیسرا فائدہ یہ ہے کہ اللہ انفاق کرنے والے کے چھوٹے موٹے گناہ دھودیتا ہے:
 ’’تمہاری بہت سی برائیاں اِس طرز عمل سے محو ہو جاتی ہیں۔‘‘ (البقرہ: ۲۷۱)
  اس کے دیگر فوائد میں سب سے بڑا فائدہ تو یہ ہے کہ اللہ کی راہ میں انفاق کرنے سے اس کی قربت حاصل ہوتی ہے: ’’اور جو کچھ خرچ کرتے ہیں اُسے اللہ کے تقرب کا اور رسولؐ کی طرف سے رحمت کی دعائیں لینے کا ذریعہ بناتے ہیں۔‘‘ (التوبہ:۹۹)
 اب جس کام میں ایسے بے شمار فائدے ہوں اس میں کون ذی فہم انسان مال لگانے سے احتراز  کرے گا؟ تو پھر اس کام میں دیر کیوں کی جائے۔
 ہم دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اس انفاق، یعنی ضرورت مندوں پر خرچ کرنے کی طرف قرآن میں جگہ جگہ توجہ دلائی ہے۔ ایک جگہ فرمایا: ’’کسی گردن کو غلامی سے چھڑانا ، یا فاقے کے دن کسی قریبی یتیم یا خاک نشین مسکین کو کھانا کھلانا ۔‘‘  (البلد:۱۳؍تا۱۶
 دوسرا نکتہ یہ ہے کہ وہ یہ انفاق اس کی محبت میں کرتے ہیں۔ ’اس کی محبت‘ سے یہاں کیا مراد ہے؟ کیا وہ مال مراد ہے جس سے انفاق کرنے والا خود رغبت رکھتا ہے؟ جیسا کہ ایک جگہ اللہ تعالیٰ نے یہی وجہ بتائی ہے:
 ’’تم نیکی کو نہیں پہنچ سکتے جب تک کہ اپنی وہ چیزیں (خدا کی راہ میں) خرچ نہ کرو جنہیں تم عزیز رکھتے ہو۔‘‘  (آل عمران:۹۲)
 یا یہ مراد ہے کہ اللہ سے محبت کی خاطر اس کی راہ میں مال خرچ کیا جائے؟ جیسا کہ ایک دوسری جگہ اللہ نے مال خرچ کرنے کی یہ وجہ بھی بتائی ہے: ’’ہم تمہیں صرف اللہ کی خاطر کھلا رہے ہیں، ہم تم سے نہ کوئی بدلہ چاہتے ہیں نہ شکریہ۔‘‘ (الدھر:۹) یا دونوں ہی معنی لئے جاسکتے ہیں جیسا کہ مولانا مودودیؒ نے بیان کیا ہے (تفہیم القرآن۔  مستند بات یہی لگتی ہے کہ دونوں ہی معنی لئے جائیں، چنانچہ اللہ کا یہ فرم ان ہے کہ نیکی کا تقاضا یہ ہے کہ اللہ سے محبت کے اظہار کے لئے وہ مال نکالا جائے جو نکالنے والے نے خود اپنے لئے پسند کیا ہوا ہے، نہ کہ وہ مال اللہ کی راہ میں خرچ کرے جو مال خرچ کرنے والا خود اپنے لئے گوارا نہ کرے:
 ’’ایسا نہ ہو کہ اس کی راہ میں دینے کے لئے بری سے بری چیز چھانٹنے کی کوشش کرنے لگو، حالانکہ وہی چیز اگر کوئی تمہیں دے، تو تم ہرگز اُسے لینا گوارا نہ کرو گے الّا یہ کہ اس کو قبول کرنے میں تم اغماض برت جاؤ۔‘‘  (البقرہ:۲۶۷)
 ایک حدیث کے مطابق لوگ اللہ کے عیال ہیں اور اللہ کو سب سے زیادہ وہ بندہ پسند ہے جو اللہ کے عیال کے ساتھ حسنِ سلوک کرے۔ ایک اور حدیث میں ضرورت مندوں پر مال خرچ کرنے کی طرف ہمیں اس طرح توجہ دلائی گئی ہے کہ قیامت کے روز اللہ اپنے ایک بندے سے پوچھے گا کہ وہ بیمار تھا مگر اس نے اللہ کی عیادت نہیں کی۔ بندہ کہے گا کہ اے اللہ  میں کس طرح تیری عیادت کرتا ، تو تو رب العالمین ہے۔ اللہ کہے گا کہ میرا فلاں بندہ بیمار تھا، اگر تو اس کی عیادت کرتا تو مجھے موجود پاتا۔ اسی طرح کھانے اور پلانے پر بھی اللہ اپنے بندے سے مکالمہ کرے گا۔ 
  مال کا موضوع وہ واحد موضوع ہے جس پر اللہ نے لگاتار کئی رکوعات میں اہلِ ایمان کو ہدایات دی ہیں (دیکھئے سورۂ بقرہ، رکوعات ۳۶۔۳۹) ان کے علاوہ بھی اللہ نے قرآن پاک میں مختلف جگہوں پر اہل ایمان پر انفاق کی اہمیت اجاگر کی ہے۔ چنانچہ ارشاد ربانی ہے کہ اس نے جس کو بھی جو مال اس کے تصرف کے لئے دیا ہے اس مال میں اللہ کے دوسرے بندے کا بھی حق ہے:
 ’’جن کے مالوں میںسائل اور محروم کا ایک حق مقرر ہے ۔‘‘ (المعارج: ۲۴۔۲۵)
 یہی بات ایک حدیث میں اس طرح آتی ہے کہ لوگوں کو جو رزق اللہ کی طرف سے دیا جاتا ہے اس میں غریبوں کا بھی حق ہے۔ قرآن کریم  بھی یہی بات ایک اور انداز سے ہمارے سامنے رکھتا ہے:
 ’’اور خرچ کرو اُن چیزوں میں سے جن پر اس نے تم کو خلیفہ بنایا ہے۔‘‘  (الحدید:۷)
 یہاں تو اللہ کا یہ ارشاد ہے کہ ہر اس چیز میں سے اللہ کی راہ میں خرچ کیا جائے جس جس پر اس نے انسان کو خلیفہ بنایاہے۔ کیا اللہ تعالیٰ نے صرف مال پر ہی انسان کو خلیفہ بنایا ہے؟ نہیں، بلکہ اس نے انسان کو اس کے مال کے ساتھ ساتھ اس کی صحت و جسم، علم و فہم، وقت، توانائی اور اولاد پر بھی خلیفہ بنایا ہے۔ چنانچہ اللہ کا مطالبہ یہ ہے کہ ان تمام چیزوںکو اس کی راہ میں لگایا جانا چاہئے۔ایک حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ لوگو صدقہ کرو کہ یہ تم پر واجب ہے۔ کسی نے پوچھا کہ اگر کسی کے پاس مال نہ ہو؟ آپؐ نے فرمایا کہ مال کمائے اور پھر صدقہ کرے ۔ دریافت کیا گیا کہ اگر کوئی یہ بھی نہ کرسکے تو؟ آپؐ نے فرمایا کہ کم از کم اپنے کو برائی سے بچا کر رکھے کہ یہ بھی صدقہ ہے۔(جاری)

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK