• Fri, 17 October, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

ہر ٹائم آل ٹائم

Updated: October 17, 2025, 3:43 PM IST | Inquilab News Network | mumbai

ٹرین کے سفر کا تصور کیجئے۔ جب ٹرین آہستہ چلتی ہے تو باہر کے مناظر پر نگاہ جمانا ممکن ہوتا ہے مگر جب اس کی رفتار بہت تیز ہوجاتی ہے تو نگاہ جمانا ممکن نہیں رہ جاتا۔ موجودہ عہد کا حال بھی کچھ ایسا ہی ہے کہ کہیں بھی نگاہ ٹھہر نہیں پاتی ہے۔

INN
آئی این این
ٹرین کے سفر کا تصور کیجئے۔ جب ٹرین آہستہ چلتی ہے تو باہر کے مناظر پر نگاہ جمانا ممکن ہوتا ہے مگر جب اس کی رفتار بہت تیز ہوجاتی ہے تو نگاہ جمانا ممکن نہیں  رہ جاتا۔ موجودہ عہد کا حال بھی کچھ ایسا ہی ہے کہ کہیں  بھی نگاہ ٹھہر نہیں  پاتی ہے۔ خواہ سیاسی اُمور ہوں  یا ثقافتی، علمی، تعلیمی یا معاشرتی، سب کچھ بہت تیزی سے بدل رہا ہے اسلئے کسی ایک جگہ نگاہ جمانے کی کوشش ممکن نہیں  ہے۔ 
معاشی تغیرات کا حال بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ سونے ہی کو دیکھ لیجئے۔ جنوری سے اکتوبر تک صرف دس ماہ میں  فی تولہ قیمت دوگنا کے قریب ہوچکی ہے۔ جن لوگوں  نے جنوری ۲۵ء میں  سونا خریدا ہوگا اُنہیں  یاد ہوگا کہ ۲؍ جنوری کو ۲۴؍ قیراط کی قیمت ۷۶؍ ہزار۱۳۰ ؍ روپے فی تولہ تھی۔ اُس وقت ۷۶؍ ہزار قیمت سن کر جن افراد کے منہ کھلے کے کھلے رہ جاتے تھے اب انہوں  نے منہ کھلنے کے عمل پر شعوری قدغن لگا دی ہے۔ یہ ٹھیک بھی ہے۔ کوئی کب تک اور کہاں  تک منہ کھولتا رہے۔ یہاں  تو جتنی بار قیمت کم ہوتی ہے اُس سے کہیں  زیادہ بار بڑھتی ہے۔ پچھلے پچیس برس کی قیمتوں  کا جدول سامنے رکھیں  تو حیرتوں  کے پہاڑ ٹوٹنے لگتے ہیں ۔ پختہ عمر کے لوگ، جو ۲۰۰۰ء میں  گھر خاندان کے ذمہ دار ہوچکے تھے، یاد کریں  کہ اُس سال ( ۲۰۰۰ء میں ) ہندوستان میں ، سونے کی فی تولہ قیمت ۴؍ ہزار ۴؍ سو روپے تھی۔ جی ہاں ، صرف  ۴؍ ہزار ۴؍ سو روپے۔ ۲۰۰۷ء میں  ۱۰؍ ہزار ۵؍ سو ہوئی، ۲۰۱۰ء میں  ۲۰؍ ہزار سے تجاوز کرگئی، پھر ۲۰۲۰ء میں  ۵۰؍ ہزارکے قریب پہنچی ۔ اس کے بعد، بالخصوص پچھلے سال سے قیمت کو پر لگ گئے ہیں  چنانچہ اس کی پرواز اتنی بلند ہے کہ مہذب آدمی سر اُٹھا کر اتنا اوپر تو دیکھ بھی نہیں  پاتا۔
قیمت کا حالیہ اضافہ اُن حکومتوں  کا مرہون منت ہے جو معاشی عدم استحکام کے خدشے کے پیش نظر گولڈ ریزرو میں  توسیع کررہے ہیں ۔ حالیہ مہینوں  کا اضافہ اُن سرمایہ داروں  کے سبب بھی ہے جو ٹرمپ کے ٹیرف کے سبب معاشی مندی کے اندیشے سے نمٹنے کیلئے شیئر مارکیٹ سے پیسہ نکال کر گولڈ میں  لگارہے ہیں ۔ اس کی وجہ سے مانگ بڑھ رہی ہے اور مانگ بڑھنے سے قیمت بڑھ رہی ہے۔ ہندوستان میں  تہواروں  کا موسم آتا ہے تو سونے کا دماغ سوا آسمان پر پہنچ جاتا ہے۔ شادی بیاہ کے موسم میں  بھی اس کا مزاج نہیں  ملتا۔ ہونا تو یہ چاہئے کہ عوام کی خاطر حکومتیں  قیمت کو کنٹرول کریں  مگر بےچاری حکومتوں  کے پاس کرنے کے اتنے کام ہیں  کہ سونے چاندی پر توجہ کیسے دیں ۔ اگر وہ موقع نکال لیں  تب بھی یہ سوچ کر مداخلت نہیں  کریں  گی کہ عوام کو سونے چاندی سے بڑی رغبت ہے۔ ہندوستانی عوام کی بات ہی اور ہے۔ ممکن ہے پوری دُنیا میں  اُنہی کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ ایک اندازہ  کے مطابق اُن کے گھروں  میں  مجموعی طور پر ۲۴؍ ہزار ٹن سونا ہے۔ جی،  ۲۴؍ ہزار ٹن، آپ نے غلط نہیں  پڑھا۔ کہنے والے تو یہ بھی کہتے ہیں  کہ جتنا سونا دُنیا بھر کے بینکوں  میں  ہے تقریباً اُتنا ہی ہندوستانی خواتین کے پاس ہے۔ ہمیں  اس تاثر پر شک ہے کیونکہ ہماری حکومت کے پاس گولڈ ریزرو صرف ۸۷۷؍ ٹن ہے، یہ کیسے ممکن ہے کہ پیلی دھات کے معاملے میں  حکومت غریب اور عوام امیر ہوں ۔ جب قیمت تاریخ کی سب سے بلند سطح پر ہوتی ہے تو اُسے آل ٹائم ہائی کہتے ہیں ۔ ہم اُس دور میں  ہیں  کہ ہر ٹائم آل ٹائم ہے اور ہر نئی قیمت تاریخ بنا رہی ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK