Inquilab Logo

گرمی کی شدت کے معاشی پہلو

Updated: April 29, 2024, 1:15 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai

موسم گرما اگر ابھی سے اپنے شباب پر ہے تو مئی اور جون میں کیا ہوگا اس کا اندازہ لگانا بھی مشکل ہے۔ خدا تعالیٰ اپنے بندوں پر رحم فرمائے اور رحمت خداوندی جلد برس جائے تو عافیت ہوسکتی ہے ورنہ صورتحال کافی سنگین معلوم ہوتی ہے۔

Photo: INN
تصویر:آئی این این

موسم گرما اگر ابھی سے اپنے شباب پر ہے تو مئی اور جون میں  کیا ہوگا اس کا اندازہ لگانا بھی مشکل ہے۔ خدا تعالیٰ اپنے بندوں  پر رحم فرمائے اور رحمت خداوندی جلد برس جائے تو عافیت ہوسکتی ہے ورنہ صورتحال کافی سنگین معلوم ہوتی ہے۔ ایک زمانہ تھا جب موسم باراں  کا آغاز جون کے پہلے ہفتے میں  ہوجاتا تھا، اب اس میں  تاخیر ہونے لگی ہے اور پہلی بارش جولائی کے پہلے ہفتے تک انتظار کرواتی ہے۔ ماہرین موسمیات پیش گوئی کرچکے ہیں  کہ ۲۰۲۴ء گرمی کے نئے ریکارڈقائم کریگا۔ یہ گرم ترین سال تو ہے، اس کے دو ماہ (مئی اور جون) بہت زیادہ گرم ہوسکتے ہیں ۔ گزشتہ چند دنوں  سے ملک کی بیشتر ریاستوں  کا جو حال ہے وہ سب پر عیاں  ہے۔ مشکل یہ ہے کہ غیر معمولی درجۂ حرارت جہاں  باہر نکلنے والوں  کا امتحان لیتا ہے وہیں  مکان یا دکان یا دفتر کے اندر رہنے والوں  کو بھی مشکلات سے دوچار کرتا ہے۔ ایئر کنڈیشن کے عام ہونے سے کافی راحت تو ہوگئی ہے مگر یہ اُنہی کیلئے ہے جنہیں  یہ میسر ہو۔ بہت سے لوگ ایئر کنڈیشن مکان یا دکان یا دفتر میسر ہونے کے باوجود گرمی میں  باہر نکلنے پر مجبور ہوتے ہیں ۔
 گرمی کی شدت کے جہاں  سماجی اور طبی پہلو ہیں ، وہیں  معاشی بھی ہیں ۔ جتنی زیادہ گرمی پڑتی ہے اور جتنے زیادہ عرصے تک جاری رہتی ہے، معیشت کو اُتنا خسارہ اُٹھانا پڑتا ہے۔ یہ چیز عام طور پر لوگوں  کی نگاہ سے مخفی رہتی ہے۔ وہ مزدور جو کھلے میں  کام کرتے ہیں ، شدید دھوپ اُن کی ’’پیداواریت‘‘ کو شدید طور پر متاثر کرتی ہے بالخصوص زراعتی مزدوروں  کی حالت ناگفتہ بہ ہوتی ہے۔ انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن (آئی ایل او) کے ایک مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ شدید دھوپ اور گرمی سے ۲۰۳۰ء تک مزدوروں  کا کام ۲ء۲؍ فیصد کم ہوسکتا ہے۔ دشواری یہ بھی ہوتی ہے کہ بعض مزدور شدید گرمی کے سبب بیمار پڑتے ہیں  اور کام سے غیر حاضر رہنے پر مجبور ہوتے ہیں ۔ اس سے فیکٹریوں  کی پیداوار اور مزدوروں  کی اُجرت متاثر ہوتی ہے۔ اس دوران نقل و حمل کے ذرائع بھی آزمائش سے گزرتے ہیں ، مال اور سامان ڈھونے والے وقت پر نہیں  پہنچ پاتے چنانچہ فیکٹریوں  کی پیداوار معمول کے مطابق نہیں  رہ جاتی۔بازاروں  میں  صبح ۱۱؍ بجے کے بعد سے شام پانچ ساڑھے پانچ بجے تک گاہکوں  کی تعداد ۷۰۔۸۰؍ فیصد کم ہوجاتی ہے۔ 
 شدید دھوپ اور گرمی (ہیٹ ویو) کی وجہ سے افراطِ زر بھی بڑھتا ہے۔ سبزی ترکاری کے دام بڑھ جاتے ہیں  کیونکہ ان کی پیداوار اور ان کی نقل و حمل متاثر رہتی ہے۔ فصلوں  کے متاثر ہونے کی وجہ سے بھی افراط زر بڑھتا ہے۔ کوئی بھی معیشت افراط زر برداشت نہیں  کرسکتی خواہ وہ مستحکم ہی کیوں  نہ ہو۔ 
 گرمی کی شدت سے بجلی کے شعبہ پرغضب کا دباؤ پڑتا ہے۔ اس میں  بجلی کا استعمال عام دنوں  سے کئی گنا بڑھ جاتا ہے اور اتنی پیداوار نہیں  بڑھ سکتی جتنی اس کی طلب بڑھ جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سے علاقوں  کو پاور آؤٹیج کا سامنا ہوتا ہے جو عام شہریوں  کیلئے پریشانی کا باعث بنتا ہے تو فیکٹریوں  اور صنعتی مراکز کیلئے پیداوار کے براہ راست نقصان پر منتج ہوتا ہے۔
 ہمارے دور کی مشکل یہ ہے کہ ہم درجۂ حرارت کے بڑھنے کے عواقب پر تو بحث کرتے ہیں ، درجۂ حرارت میں  اضافہ کی وجوہات کو دور کرنے کے معاملے میں  سنجیدہ نہیں  ہیں ۔ اس کیلئے عام شہری بھی ذمہ دار ہیں  اور حکومتیں  بھی ۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK