Inquilab Logo

ووٹنگ سے دوری کیوں ؟ (۱)

Updated: May 05, 2024, 1:08 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai

ووٹنگ سے دور رہنے کے کئی اسباب ہیں ۔ ہر سبب کے پس پشت جمہوری ذمہ داری کے احساس کا فقدان ہے۔ آئندہ دنوںکی پولنگ کیلئے بہت سے علاقوں میںبیداری مہم چلائی گئی ہے۔

Photo: INN
تصویر:آئی این این

ووٹنگ سے دور رہنے کے کئی اسباب ہیں ۔ ہر سبب کے پس پشت جمہوری ذمہ داری کے احساس کا فقدان ہے۔ آئندہ دنوںکی پولنگ کیلئے بہت سے علاقوں  میںبیداری مہم چلائی گئی ہے۔ ہم پُراُمید ہیں  کہ اس کے خاطرخواہ نتائج برآمد ہونگے اس کے باوجود ضروری معلوم ہوتا ہے کہ ووٹنگ سے دوری کے چند بڑے اسباب کا جائزہ لیا جائے تاکہ لوگ باگ پولنگ کے دن تک ایک دوسرے کو شعوری طور پر پابند کرنے کی کوشش میں  رہیں ۔ 
 بہت سے لوگ اِس مفروضے کے تحت ووٹنگ سے دور رہتے ہیں  کہ ’’جس کو منتخب ہونا ہے وہ ہوجاتا ہے خواہ آپ کچھ کرلیں ۔‘‘ یہ قطعی بے بنیاد مفروضہ ہے۔ اگر کوئی اُمیدوار اثرورسوخ رکھتا ہے یا اپنے حلقے میں  مقبول ہے تو بہت ممکن ہے کہ وہی جیتے مگر اس کا مطلب یہ نہیں  کہ آپ کا ووٹ دینا رائیگاں  ہوا۔ جی نہیں ۔ اس سلسلے میں  یاد رکھنا چاہئے کہ ووٹنگ سے جیت ہار کے فیصلے کے علاوہ بھی بہت کچھ ہوتا ہے۔ دوسرے نمبر پر آنے والے اُمیدوار اور اس کی پارٹی کو خاص طور پر ملحوظ رکھا جاتا ہے۔ اس سے سیاسی تجزیہ کاروں  یہ تجزیہ کرتے ہیں  کہ جو اُمیدوار دوسرے نمبر پر رہا اُس کے دوسرے نمبر پر آنے کے کیا اسباب ہیں ؟ کیا اُس کی پارٹی اہم ہے؟ کیا اس پارٹی کی پالیسیاں  اہم ہیں ؟ کیا وہ اُمیدوار عوام میں  مقبول ہے؟ وغیرہ۔ بعد کے الیکشن میں ، سیاسی پارٹیاں  سابقہ الیکشن کے اول، دوم اور سوم آنے والے اُمیدواروں  کی فہرست پیش نظر رکھتی ہیں  تاکہ یہ سمجھا جائے کہ کون کتنے ووٹوں  سے پیچھے رہا۔ اسی لئے نوٹا کی بھی اہمیت ہے اور جب سے نوٹا کا متبادل آیا ہے، یہ ضرور دیکھا جاتا ہے کہ نوٹا کے تحت کتنے ووٹ درج کرائے گئے۔
 ایک اور مفروضہ ووٹنگ سے دوری پر منتج ہوتا ہے کہ ’’میرے ووٹ نہ دینے سے کیا ہوگا؟‘‘ یہ اپنے ووٹ کو بے قیمت سمجھنے کا نہایت غلط رجحان ہے۔اس کے بجائے یہ عزم ہونا چاہئے کہ ’’میرے ووٹ سے فرق پڑے یا نہ پڑے، میرا پسندیدہ اُمیدوار کامیاب ہو یا نہ ہو، مَیں  ہرصورت میں  ووٹ دوں  گا۔‘‘ یہ اس لئے ضروری ہے کہ بہت سے اُمیدوار (جو دوسرے نمبر پر آتے ہیں ) بہت کم ووٹوں  سے پیچھے رہتے ہیں ۔ اگر کوئی اُمیدوار محض ۲۰۰؍ ووٹوں  سے شکست کھا گیا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ دو سو لوگ سے کچھ زیادہ لوگ، جنہوں  نے ووٹ نہیں  دیا، آگے بڑھ کر ووٹ دے دیتے تودوسرے نمبر پر آنے والا اُمیدوار پہلے نمبر پر ہوتا۔ اگر پہلے اور دوسرے اُمیدوار کے درمیان معمولی ووٹوں  کا فرق نہ ہو تب بھی ووٹ دینے کی اپنی اہمیت ہے۔ اس سے ووٹنگ فیصد بڑھتا ہے، ووٹر کی رائے درج ہوتی ہے  اور سیاسی جماعتیں  ’’پکش‘‘ اور ’’وِپکش‘‘ کے ووٹوں  کو سامنے رکھ کر سیاسی ترجیحات کا تعین کرتی ہیں ۔ اس لئے کسی کو یہ نہیں  سمجھنا چاہئے کہ اُس کے ووٹ نہ دینے سے کوئی فرق نہیں  پڑتا۔ فرق پڑتا ہے اور بہت پڑتا ہے۔
 اِس وقت ملک میںنوجوان آبادی زیادہ ہے۔ یہی طبقہ کل ملک کی باگ ڈور سنبھالے گا لہٰذا اِس کی رائے کی بہت اہمیت رکھتی ہے مگر اکثر اوقات نوجوان ووٹرس  یہ سوچ کر، کہ چھٹی ہے، کوئی نہ کوئی پروگرام پہلے سے طے کرلیتے ہیں  اور سمجھانے کے باوجود اُسے بدلنا نہیں  چاہتے۔ اسی لئے گھر کے بڑوں  اور معاشرہ کے ذمہ داروں کو ہفتہ دس دن پہلے سے یہ دیکھنا چاہئے کہ آس پاس کے نوجوان، ووٹنگ کا ذہن بنا چکے ہیں  یا نہیں ۔ اگر نہیں تو اُن کی کاؤنسلنگ کی جانی چاہئے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK