Inquilab Logo

آہ اور فرض شناسی کبھی رائیگاں نہیں جاتی

Updated: May 10, 2024, 1:26 PM IST | Shamim Tariq | Mumbai

عام طور سے مذہب، علاقہ، ذات برادری کی بنیاد پر لوگ ایکدوسرے سے تعاون کرتے ہیں مگر خوشگوار حیرت کی بات یہ ہے کہ ان دِنوں جاری اسرائیل مخالف مظاہروں میں فلسطینی اور مسلمان طلبہ ہی نہیں یہودی طلبہ بھی شامل ہیں۔

Photo: INN
تصویر:آئی این این

گزشتہ چند دنوں  میں  جن خبروں  نے بہت زیادہ متوجہ کیا ان میں  تین اس لحاظ سے بہت اہم ہیں  کہ ان کا تعلق غزہ (فلسطین)، اقوام متحدہ اور صحافت سے ہے۔ پہلی خبر یہ ہے کہ ’ورلڈ پریس فریڈم ڈے‘ پر جاری رپورٹ میں  کئی ملکوں  میں  میڈیا کی آزادی کا انڈیکس پیش کیا گیا ہے۔ انڈیکس کے مطابق امریکہ میں  ۱۰؍ مقامات کی، روس میں  دو مقام کی اور پاکستان میں  دو مقام کی گراوٹ آئی ہے مگر ہندوستان جو گزشتہ رپورٹ میں  ۱۸۰؍ ملکوں  میں  ۱۶۱؍ ویں  مقام پر تھا اب ۲؍ مقام اوپر اٹھ کر ۱۵۹؍ ویں  مقام پر پہنچ گیا ہے۔ ’رپورٹس وداؤٹ بارڈرس‘ کے عمومی تجزیے میں  اس بات پر تشویش کا اظہار کیا گیا ہے کہ اس سال بھی دنیا میں  اظہار رائے کی آزادی خطرے میں  ہے۔ مگر اسی سال اقوام متحدہ کے یونیسکو نے پریس فریڈم ایوارڈ غزہ کے فلسطینی صحافیوں  کو دینے کا اعلان کیا ہے۔ نیویارک میں  قائم ’ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس‘ کے مطابق غزہ میں  اکتوبر ۲۳ء میں  شروع ہونیوالی جنگ میں  اب تک ۹۷؍ صحافی مارے جاچکے ہیں  جن میں  ۹۲؍ فلسطینی ہیں ۔ غزہ کے لوگ روٹی، کپڑا اور مکان کو ہی نہیں  صاف پانی اور ہوا کو بھی ترس رہے ہیں ۔ رفح سے فلسطینیوں  کا جبراً انخلاء کیا جا رہا ہے۔ الجزیرہ کے دفتروں  کو بند کیا جاچکا ہے۔ ان حالات میں  بھی غزہ کے صحافیوں  نے بتایا کہ یہاں  حقیقی صورتحال کیا ہے اور کس طرح تل ابیب کے بڑے ہوٹلوں  میں  بیٹھ کر کچھ صحافی جھوٹ پھیلا رہے ہیں ۔ مَیں  اس انعام کو فلسطین کے جانباز صحافیوں  کو خراج تحسین سمجھتا ہوں ۔ عام حالات میں  بھی سچے صحافی صلہ و ستائش سے بے نیاز ہو کر سچ کی ہی اشاعت کرتے ہیں ۔ ایک واقعہ یاد آتا ہے کہ کورونا کے دور میں  جب مجھے خبر ملی کہ ممبئی کا جمعہ مسجد ٹرسٹ غیر مسلموں  کی آخری رسوم بھی ادا کر رہا ہے تو میں  نے اس کالم میں  ایک مضمون لکھنے کا فیصلہ کیا۔ ذمہ داروں  میں  سے ایک کو فون کیا تو انہیں  یہی معلوم نہیں  تھا کہ ’انقلاب‘ کیا ہے اور ’شمیم طارق‘ کون ہے۔ مَیں  نے کالم لکھا جس کے مختلف زبانوں  میں  ترجمے ہوئے اور ہر طرف تحسین ہوئی مگر اُردو پڑھنے والوں  میں  سے کئی صاحبان نے بڑے قبرستان میں  ہونیوالی تکلیف بیان کی۔ مَیں  نے کہہ دیا کہ انقلاب کے مدیر  سے بات کرو۔ انہوں  نے بات سنی اور خبر بھی شائع کی۔ میرا کالم بلکہ زیادہ صحیح یہ ہے کہ روزنامہ انقلاب کا کالم جمعہ مسجد ٹرسٹ کی نیک نامی کا سبب بنا۔ دراصل اخبار سے وابستگی کے سبب کوئی شخص صحافی نہیں  ہوتا۔ اصل صحافی کٹے پھٹے جسم، رستے ہوئے زخم اور بھوک سے تڑپنے کے باوجود دوسروں  کی غذا، زندگی اور توقیر کی حفاظت کرنے سے ہوتا ہے۔ غزہ کے صحافیوں  نے یہی کیا ہے۔ یونیسکو کے ڈائریکٹر جنرل آڈری ازولے نے سچ کہا کہ یہ ایوارڈ مشکل اور خطرناک حالات کا سامنا کرنے والے صحافیوں  کی ہمت کو خراج تحسین پیش کرتا ہے۔ فرض شناس شخص ہر فرض شناس شخص کی عزت کرتا ہے۔ جمعہ (۳؍ مئی) کو بائیکلہ اسٹیشن پر ٹرین پکڑتے ہوئے دھوپ کی شدت یا یہ بھول جانے کے سبب کہ اب مَیں  جوان نہیں  رہا، ٹرین سے گر گیا۔ اس کے بعد مسافروں  اور پولیس محکمے کے بڑے افسروں  سے کانسٹبلوں  تک نے، جن میں  خواتین بھی شامل تھیں ، جو مدد کی وہ فرض شناسی اور ہمدردی کی روشن مثال تھی۔ کسی کو نہیں  معلوم تھا کہ وہ کس کی مدد کر رہا ہے۔ سچ ہے ان کی فرض شناسی اور قارئین کی دعاؤں  نے بچا لیا۔
 دوسری خبر طلبہ کے مظاہروں  سے متعلق ہے جس میں  واشنگٹن اور امریکہ کی تقریباً ۲۲؍ ریاستوں  کی ۵۰؍ یونیورسٹیوں  اور کالجوں  کے طلبہ چھوٹے چھوٹے خیمے بنا کر کیمپس میں  بیٹھ گئے ہیں ۔ ان کا مطالبہ ہے کہ فلسطینیوں  پر ہونیوالے حملوں  میں  اسرائیل کی شریک کمپنیوں  سے یونیورسٹی انتظامیہ اپنا تعلق توڑ لے۔ معاملے کی نزاکت دیکھتے ہوئے یونیورسٹیوں  کے کچھ وی سی (صدور صاحبان) کو پارلیمنٹ میں  بلایا گیا جن میں  سے دو نے نہ صرف طلبہ سے ہمدردی کا اظہار کیا بلکہ ان کے مطالبے کو جائز بتایا۔ کولمبیا یونیورسٹی کے وائس چانسلر نے اس تحریک کو طاقت سے کچل دینے کی بات کہی تو مظاہروں  میں  نہ صرف شدت پیدا ہوگئی بلکہ دوسرے ملکوں  میں  بھی طلبہ کی تحریک شروع ہوگئی۔ ہندوستان میں  ہریانہ کی اشوکا یونیورسٹی کے طلبہ نے بھی احتجاج کیا ہے۔ عام طور سے مذہب، علاقہ، ذات برادری کی بنیاد پر لوگ ایکدوسرے سے تعاون کرتے ہیں  مگر خوشگوار حیرت کی بات یہ ہے کہ ان اسرائیل مخالف مظاہروں  میں  فلسطینی اور مسلمان طلبہ ہی نہیں  یہودی طلبہ بھی شامل ہیں  اور غزہ میں  فلسطینیوں  یا عربوں  کی نسل کشی کی مذمت کر رہے ہیں ۔
  امریکہ نے اس قرار داد کو بھی سلامتی کونسل میں  ویٹو کر دیا تھا جس میں  فلسطین کو اقوام متحدہ میں  مبصر کے بجائے مکمل رکن کا درجہ دینے کی بات کہی گئی تھی مگر وہ اپنے ملک میں  یا اپنے حلیف ملکوں  میں  بڑھتے مظاہروں  کو روکنے میں  ناکام رہا ہے اسلئے پہلے تو اس نے طاقت سے مظاہرہ کرنے والے طلبہ کو زیر کرنے کے مقصد سے کیمپس میں  پولیس بھیجی، گرفتاریاں  کیں  اور اب اسرائیل کی موافقت میں  بھی مظاہرے کروا رہا ہے۔ لیکن یہ مصنوعی مظاہرے کس انجام کو پہنچیں  گے؟ اسکا جواب حاصل کرنا مشکل نہیں  ہے۔ ہندوستان بھی فلسطینی مملکت کے حق میں  ہے۔ عمومی صورتحال یہ ہے کہ امریکہ میں  ۱۹۶۸ء کی صورتحال دوبارہ دیکھنے میں  آرہی ہے جب ویتنام پر امریکی حملوں  کیخلاف عوام اٹھ کھڑے ہوئے تھے۔ عوامی مظاہروں  کو کچلنے کیلئے پولیس اور انتظامیہ کے جبر کیخلاف اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن کے سربراہ نے بھی تشویش کا اظہار کیا ہے۔ براؤن یونیورسٹی کی انتظامیہ نے اسرائیلی کمپنیوں  کی فنڈنگ ختم کرنے پر بھی غور کرنا شروع کر دیا ہے۔ بائیڈن انتظامیہ کی ایک ذمہ دار ہالا رہریت یہ کہتے ہوئے پہلے ہی مستعفی ہوچکی ہیں  کہ جو نکات مجھے دیئے جاتے تھے وہ فلسطینیوں  کیخلاف ہوتے تھے اور سننے والے ٹی وی پر جوتے مارتے تھے۔ اب انہوں  نے بیان دیا ہے کہ ’’مجھے ڈر ہے کہ یتیم فلسطینی بچے کل ہم سے انتقام لینے نہ اٹھ کھڑے ہوں ۔‘‘ اس بیان کو مظلوموں  کی آہ کی تاثیر سمجھنا چاہئے۔ آہ اور ظلم میں  جب بھی ٹکراؤ ہوا ہے ظلم کی شکست ہوئی ہے۔
 تیسری خبر یہ ہے کہ امریکہ کے سابق صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے بیان دیا ہے کہ اسرائیل مخالف طلبہ مظاہرین کو فنڈ مل رہا ہے۔ امریکی صدر جو بائیڈن نے بھی اعلان کیا ہے کہ وہ اسرائیل مخالف نظریوں  یا احساسات کو نہیں  پنپنے دیں  گے مگر واقعہ یہ ہے کہ اقتدار ان کے پاؤں  تلے سے کھسکتا جا رہا ہے۔ فلسطینیوں  کی آہ رنگ لا رہی ہے۔ اس آہ کو جنہوں  نے لفظوں  اور تصویروں  میں  پیش کیا تھا ان کا اعزاز ہوا ہے، فلسطینیوں  کو بھی ان کا حق ملے گا۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK