Inquilab Logo Happiest Places to Work

نظریۂ ہندوتوا کو سمجھنے اور سمجھانے کی ایک کوشش

Updated: May 26, 2024, 1:59 PM IST | Aakar Patel | Mumbai

لوگ نہیں جانتے کہ ہندوتوا کیا ہے۔ آر ایس ایس نے کوشش کی کہ اصل ہندوتوا ظاہر نہ ہو۔ اس مضمون میں ایسی کتاب کی تفصیل پیش کی گئی ہے جس کیلئے اصل دستاویزات سے استفادہ کیا گیا۔

Photo: INN
تصویر:آئی این این

بھارتیہجنتا پارٹی ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت یا سیاسی طاقت ہے۔ لیکن، اس حقیقت کو لازماً جاننا چاہئے کہ اس کے نظریات عوام پر پوری طرح واضح نہیں  ہیں ۔ اس کے نظریات کے چند پہلو مثلاً سیاسی وراثت کی مخالفت اور معاشی ترقی کا وعدہ سے تو ہر خاص و عام واقف ہے حالانکہ پارٹی نے اس پر زیادہ توجہ نہیں  دی اور اپنے وعدوں  اور دعوؤں  کی تکمیل پر ضروری محنت نہیں  کی مگر اس کے نظریات یعنی آئیڈیالوجی کا بڑا حصہ ہندوتوا یا ہندو نیشنلزم پر محیط ہے جو زیادہ مبہم اور غیر واضح ہے۔ ایسے میں  یہ جاننا ضروری ہے کہ ہندوتوا سے بی جے پی کی کیا مراد ہے؟ 
 کرناٹک کے مشہور قلمکار دیوانورا مہادیو نے اس سلسلے میں  تحقیقی کام کیا ہے اور بی جے پی کو اُس کی سرپرست تنظیم آر ایس ایس کے حوالے سے سمجھنے کی کوشش کی ہے۔ اپنی کتاب ’’آر ایس ایس: دی لانگ اینڈ دی شارٹ آف اِٹ‘‘ میں  اُنہوں  نے ہندوتوا کو ساورکر اور گولوالکر کی کتابوں  سے سمجھنے کی جدوجہد کی او رجو کچھ بھی سمجھا اُسے ایک تمثیل کے ذریعہ سمجھانے کا جتن کیا۔ 
 اُن کا کہنا ہے کہ ایک جادوگر ہنگامہ برپا کرتا ہے مگر دکھائی نہیں  دیتا کیونکہ اس کی جان طوطے میں  ہے اور طوطا غار میں  ہے، وہ جو کچھ بھی چاہتا ہے کر گزرتا ہے کیونکہ لوگ اس تک پہنچ نہیں  سکتے تھے۔ اُس تک رسائی کی ایک ہی تدبیر ہوسکتی ہے، وہ یہ کہ اُس طوطے تک پہنچا جائے جس میں  اُس کی جان ہے۔ دیوانورا مہادیو کا کہنا ہے کہ نظریۂ ہندوتوا کا معاملہ بھی کچھ اسی طرح کا ہے۔
 گولوالکر کے بارے میں  دیوانورا مہادیو نے جتنا مطالعہ کیا اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ آر ایس ایس کے سربراہ نے ’’کاسٹ‘‘ کی پرستش کی اور اپنے ماننے والوں  سے کہا کہ وہ اُن کی بات مانیں ۔ اپنی کتاب ’’بنچ آف تھاٹس‘‘ میں  گولوالکر کہتے ہیں  کہ اُن کا خدا ہندو عوام ہیں  جو خود کو طبقات (ذات پات) کے ذریعہ ظاہر کرتا ہے۔ اس کا معنی یہ ہوا کہ منو کا بیان کردہ ہندو سماج قابل پرستش ہے جس میں  برہمن سر ہے، شتریہ بازو ہے، ویشہ ٹانگیں  ہیں  اور شودر پیر ہے۔ ۱۹۶۰ء میں  گولوالکر نے کہا تھا کہ طبقات کے اختلاط کے ذریعہ افزائش کا نظم ہونا چاہئے تاکہ اعلیٰ انسان پیدا ہو۔ایسا ماضی میں  ہوتا رہا ہے جس کے تحت اعلیٰ طبقے کا مرد ایسی خاتون کے بچے کی پرورش کرتا تھا جس کی شادی کسی اور سے ہوئی ہے۔ قارئین کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ یورپ میں  زمینداری کے دور میں  بھی کچھ اسی قسم کا طریقہ رائج تھا جسے ’’خدا کا حق‘‘ کہا جاتا تھا۔ 
 اگر یہ اور ایسی باتیں  عوام تک نہیں  پہنچی ہیں  تو اس کا یہ مطلب نہیں  کہ آر ایس ایس یا بی جے پی نے انہیں  مسترد کردیا بلکہ اس کا مطلب آر ایس ایس اور بی جے پی کا یہ ایقان ہے کہ زیادہ لوگ اُتنی محنت کرکے نظریۂ ہندوتوا کے بنیادی دستاویز تک نہیں  پہنچیں  گے اور اصل نظریات سے واقف نہیں  ہوسکیں  گے جتنی محنت ’’آر ایس ایس: دی لانگ اینڈ دی شارٹ آف اِٹ‘‘ کے مصنف نے کی ہے۔ دیوانورا مہادیو نے ہندوتوا کی آئیڈیالوجی کی بنیادی دستاویز کا مطالعہ کیا۔ اگر اس موضوع پر بحث ہو تو یہ جاننا دلچسپی سے خالی نہیں  ہوگا کہ کیا آج کے دور میں  بھی کاسٹ سسٹم قابل پرستش ہے جیسا کہ آر ایس ایس (اپنی بنیادی دستاویز کے حوالے سے) چاہتا ہے؟ دیوانورا مہادیو نے کئی بہت بنیادی باتیں  جاننے کی کوشش کی ہیں ۔ اُن کا کہنا ہے کہ آر ایس ایس نے اُن مذاہب کو تو ہدف بنایا جو سرزمین ہندوستان کے باہر وجود میں  آئے مگر اُن طبقات کو بھی مسترد کردیا جنہیں  وہ قابل پرستش تصور کرتا ہے۔  بقول مصنف: ’’آر ایس ایس نے جین، بودھ، سکھ، لنگایت اور دیگر دھرموں  کو اصل اور بنیادی تناظر میں  نہیں  مانا جن کا آغاز سرزمین ہند سے ہوا اور اِس طرح ’چتور ورنا نظام‘ کو مسترد کردیا۔ اس نے یہ کہہ کر کہ یہ سب ہندو عقیدہ کا حصہ ہیں ، اِن مذاہب کی اہمیت کو نہیں  مانا۔‘‘ مصنف کے بقول: ’’آر ایس ایس نہیں  چاہتا کہ لوگ اپنے ذہن سے سوچیں ۔ بنچ آف تھاٹس پر بھی خاطرخواہ غوروخوض نہیں  کیا گیا۔‘‘ آر ایس ایس میں  غوروخوض کی حوصلہ شکنی اس لئے کی جاتی ہے تاکہ لوگ جو کہہ دیا گیا وہ مان لیں  اور اپنے طور پر رائے قائم نہ کریں ۔ دیوانورا مہادیو نے گولوالکر کا بیان نقل کیا ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ جو کہہ دیا گیا وہ مان لو، کبڈی کھیلنے کیلئے کہا گیا تو کبڈی کھیلو، میٹنگ کرنے کیلئے کہا گیا تو میٹنگ کرو، اس پر بحث کرنے کی ضرورت نہیں  ہے۔
 آر ایس ایس اپنے کارکنان (کیڈر) کو یہ سمجھانے کیلئے کوشاں  رہتا ہے کہ ملک کا آئین ناقص ہے۔ اس تنظیم کے نزدیک ریاستوں  کا تصور درست نہیں  کیونکہ ایک ہی بھارت ماتا ہوسکتی ہے چنانچہ کرناٹک، گجرات یا بنگال کا وجود غلط ہے۔ تنوع (کثرت) کے بجائے اکائی (وحدت) پر اصرار کی کوشش میں آر ایس ایس ناموں  کو بھی اہمیت دیتا ہے جس کا نتیجہ ہے کہ آر ایس ایس اور بی جے پی کے لوگ ادیباسی کو وَنواسی کہنے کو ترجیح دیتے ہیں  تاکہ ملک کے اصل اور قدیم باشندوں  کی اُن کی جو حیثیت ہے وہ ختم ہوجائے۔
 دیوانورا مہادیو ہندوتوا کو ایسا نظریہ قرار دیتے ہیں  جو ہندوستانی سماج کو کھوکھلا کررہا ہے۔مصنف کاکہنا ہے کہ وزیر اعظم عوام میں  مقبول ہیں  لیکن اُن کی حیثیت ’’اُتسو مورتی‘‘ کی ہے یعنی مورتی کی وہ تصویر جسے جلوس میں  لے کر چلتے ہیں ، اصل مورتی یا دیوی ناگپور میں  ہے جسے آر ایس ایس کے مندر میں  نصب کیا گیا ہے۔ 
 سوال یہ ہے کہ مہادیو اپنی تحقیقی کاوش اور بحث کے ذریعہ کیا پیغام دینا چاہتے ہیں ۔ اس کی مثال وہ اس طرح پیش کرتے ہیں  کہ اگر ایک گاؤں  پرچوروں  کا راج ہو تو آپ کیا کرینگے، سب سے پہلے کوشش یہ ہوگی کہ پورا گاؤں  جاگے، رات میں  گاؤں  کے نوجوان  محلوں  میں  گشت کریں  اور خواتین اپنے پاس مرچ کا سفوف رکھیں ۔ گاؤں  والوں  کیلئے اس نوع کی بیداری ضروری ہے کیونکہ چور کسی بھی بھیس میں  آسکتا ہے، مثلاً وہ مندر کی مرمت کے نام پر بھی آسکتا ہے، جعلی اور فرضی خبریں  بھی پھیلا سکتا ہے چنانچہ ضروری ہے کہ سب سے پہلے سازش کو افشاء کیا جائے، دانشور طبقہ عوام کو بیدار کرے اور سماج میں  محبت، رواداری، انصاف اور ایسے ہی دیگر مثبت الفاظ کا استعمال بڑھایا جائے تاکہ ہر طرف اس کی بازگشت سنائی دے۔ 

hinduism Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK