• Sat, 25 October, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

قذافی ریاستہائے متحدہ افریقہ بنانا چاہتے تھے!

Updated: October 21, 2025, 1:34 PM IST | Sohail Waheed | mumbai

معمر قذافی کی برسی پر: وہ چاہتے تھے کہ باقاعدہ افریقی اسٹیٹ بن جائے۔ اس کیلئے انہوں نے ۲۰۰۲ء میں کافی دولت خرچ کی اور کچھ برسوں تک افریقہ کا دورہ کرتے رہے ۔

INN
آئی این این
قریب بیالیس برسوں  تک اپنی شہنشاہیت کا پرچم بلند کرنے والے لیبیا کے وزیرِ اعظم محمد ابو منیارمعمر قذافی کی موت کے ساتھ ساتھ ’یونائٹیڈاسٹیٹس آف افریقہ‘ یا ’ریاستہائے متحدہ افریقہ‘ کا خواب بھی آج سے چودہ برس پہلے ٹوٹ گیا تھا۔۲۰؍ اکتوبر ۲۰۱۱ءکو کرنل معمرقذافی کو ناٹو اور امریکی افواج نے مار دیا تھا۔ افریقی برصغیر میں  کرنل قذافی کے بعد کوئی ایسا لیڈر بچا ہی نہیں  ہے جو امریکہ کے خلاف قریب چار درجن ممالک کی ’افریقی یونین‘ کے صدر کے روپ میں  جھنڈا بلند کر کے یہ کہنے کی جراٴت کر سکے کہ ایک اور ’یو ایس اے‘ ہی امریکہ کی ہٹ دھرمی کو توڑ سکتا ہے، اور ایک پین افریقی ریاست ہی اصل میں  افریقہ کو دائمی اور معاشی طاقت بنا سکتی ہے۔ لیکن قذافی کی تاناشاہ طبیعت کی تشہیر کے آگے یہ بات اکثر بھلا دی جاتی ہے کہ دراصل ’یونائٹیڈا سٹیٹس آف افریقہ‘ اور ’افریقی یونین‘ کے پیچھے قذافی کا اصلی مقصد دنیا کے سب سے بڑے اور بیحد طاقتور مسلم حکمراں  بننے کا خواب بھی تھا، اسی لئے وہ اپنے آپ کو اماموں  کا امام کہنے لگے تھے اور مسلم ممالک سے جن ملکوں  کے رشتہ اچھے نہیں  رہتے تھے ان سے وہ بلا وجہ دشمنی مول لے لیا کرتے تھے۔
پاکستان نے ایٹم بم بنا لیا تو وہ اس پر ایسے فریفتہ ہوئے کہ آخر تک اس کی معاشی معاونت کرتے رہے اور ہندوستان سے رشتوں  کو کبھی بہتر نہیں  بننے دیا۔ انہیں  مسلم پرست ہونے کا ہوکا تھا اور اپنے عرب ہونے کا بھی بڑا گمان تھا۔ اسی لئے انہوں  نے اپنی وصیت میں  اسلامی رسم ورواج سے خود کو دفنائے جانے کی بات بڑی اہمیت کے ساتھ لکھی ہے اور انہوں  نے اپنا آخری وقت قرآن کی تلاوت میں  گزارا۔حالانکہ قذافی کے زیادہ تر طور طریقے غیر اسلامی تھے۔ قذافی نے اپنے آس پاس خوبصورت اور سجی دھجی خواتین کا محافظ دستہ رکھا ہوا تھا۔افریقی یونین کے صدر بننے کے بعد قذافی نے فوج کی وردی پہننا چھوڑ دی تھی اور اپنے قبیلے کے شہنشاہ کی پوشاک میں  ریڈ کیپ والی محافظوں  کے درمیان نظر آئے۔ وہ افریقہ کے سب سے بڑے اور طاقتور لیڈر کے روپ میں  دکھنا چاہتے تھے۔قریب بیس برس پہلے امریکی صدر بارک اوبامہ اور فرانس کےصدر نکولا سارکوجی سے ملاقات کے بعد تو قذافی نے اپنے آپ کو انہیں  کے ہم پلہ کی طرح نظر آنا شروع کر دیا تھا۔ لیکن ان کی ساری کوششیں  برباد ہو گئیں  اور افریقی ممالک کی قیادت کا خواب بھی پورا نہیں  ہو سکا۔
بے حد دلچسپ معاملہ یہ ہے کہ ’ریاستہائے متحدہ افریقہ ‘کا خواب اگر شرمندۂ تعبیر ہو جاتا تو وہ پوری دنیا کے لیے ایک زبردست ’مسلم خطرہ‘ بن جاتا۔ پورے افریقی برصغیر کی کل آبادی کے۷۰؍ فیصدی لوگوں  کا مذہب اسلام ہے۔ چھوٹے بڑے سینتیس ممالک کے حکمراں  مسلمان ہیں ۔ تیل کی دولت سے مالامال اس ذیلی برِ اعظم میں  دھات اور قدرتی گیس بھی ان علاقوں  میں  پائی جاتی ہے۔ تیل ختم ہونے کی حالت میں  شمسی توانائی کے بھی یہ سب سے بڑے علاقے ہیں ۔ افریقہ کے یہ علاقے یا تو مسلم حکمرانوں  کے ہاتھوں  میں  ہیں  یا ان کے زیرِ اثر ہیں ۔ خلیج ممالک سے ایک دم الگ افریقہ کے یہ مسلمان ذرا زیادہ جدید اور مغربی ممالک سے ملے جلے ہیں ۔سلطنتِ عثمانیہ سے متاثر ان علاقوں  کے مسلمان خلیج کے مسلمانوں  کی بہ نسبت زیادہ جدید ہیں ۔شام، مصر، لیبیا اور لبنان جیسے ملکوں  کے مسلمان جدیدیت میں  مغربی ممالک سے اکثر لوہا لیتے نظر آتے ہیں ۔ ان میں  سے کچھ ملکوں  نے تیل کی دولت سے اپنی فوجی طاقت بھی خوب بڑھا لی ہے۔ اسی لئے اگر ریاستہائے متحدہ افریقہ وجود میں  آ جاتا تو سب کیلئے خطرہ بن جاتا۔ قذافی اسی دھمکی آمیز خطرے کا سب سے نمایاں  چہرہ اور آواز بننا چاہتے تھے۔
امریکہ اور مغربی طاقتوں  نے ان کی یہ بلند پروازی اچھی طرح سے سمجھ لی تھی اور اسی لئے فروری ۲۰۰۹ء میں  یوروپی یونین کی طرز پر قائم ہوئی ’افریقی یونین‘ کے صدر منتخب ہوجانے کے بعد سے قذافی کے خلاف بغاوت ذرا زیادہ ہی پنپنے لگی۔ اسی سال افریقی یونین کی ایتھوپیا کے ادس ابابا میں  ہوئی بڑی کانفرنس میں  قذافی نے ریاستہائے متحدہ افریقہ کی بات زور شور سے اٹھائی اور قریب ۵۰؍ افریقی ملکوں  نے اس کی حمایت بھی کی۔ اس سے پہلے قذافی ۲۰۰۷ء میں  گُیانا میں  ہوئی افریقی یونین کی کانفرنس میں  بھی یہ مدعا اٹھا چکے تھے۔ حالانکہ اس کا تصور۱۹۲۴ء میں  افریقہ کے ایک لیڈر اور شاعر ’مارکوس گروے‘ نے اپنی ایک نظم ’حیل یونائٹیڈ اسٹیٹس آف افریقہ‘میں  کی تھی۔ باقاعدہ نہ سہی پر ریاستہائے متحدہ افریقہ میں  ابھی پندرہ سال پہلے تک اگر دیکھا جائے تو قریب پچاس آزاد ملک شامل تھے۔ ان سب کی مجموعی آبادی ۱۰۰ ؍کروڑ سے زیادہ ہوتی ہے جو دنیا میں  چین اور ہندوستان کے بعد سب سے بڑی آبادی ہے۔ 
 
قذافی کا کہنا تھا کہ پورے افریقہ کی ایک فوج، ایک کرنسی اور ایک پاسپورٹ ہو تاکہ افریقی لوگ یوروپی یونین کی طرح اس پورے برصغیر میں  کہیں  بھی آزادانہ طور پر آ جا سکیں ۔قذافی چاہتے تھے کہ افریقی اسٹیٹ ۲۰۱۷ء تک باقاعدہ وجود میں  آجائے اس کیلئے انہوں  نے ۲۰۰۲ء میں  ریاستہائے متحدہ افریقہ کیلئے کافی دولت بھی خرچ کی تھی اور بعد میں  کچھ برسوں  تک وہ پورے افریقہ کا دورہ کرتے رہے اور اس کیلئے حمایت حاصل کرتے رہے۔ اس دوران وہ یہ بتانا نہیں  بھولتے تھے کہ انہوں  نے کس طرح لیبیا کو فرش سے عرش تک پہنچا دیا ہے۔ وہاں  کی حکومت سنبھالنے سے پہلے حالانکہ جنوبی افریقہ، کینیا اور نائیجیریا نے اس میں  زیادہ دلچسپی نہیں  دکھائی تھی لیکن پھر بھی شمالی افریقہ کے عرب مسلمانوں  کی حمایت اس پر بھاری پڑ رہی تھی۔ 
یہی وجہ ہے کہ جیسے ہی قذافی کے خلاف بغاوت شروع ہوئی تو جنوبی افریقہ کے صدر جیکب جمہ نے راحت کی سانس لی اور کہا تھا کہ افریقی یونین قذافی کے بنا زیادہ اچھا کام کریگی۔  جوہانس برگ میں  افریقی یونین کے دفتر میں  اس کو لے کر کافی کچھ تیاریاں  شروع کر دی گئی تھیں ۔ قذافی نے مغربی افریقہ کے حکمرانوں  کو بھی اس کیلئے راضی کر لیا تھا۔ لیکن افریقی اسٹیٹ کے دو اہم اور دولت مند ملک لیبیا اور مصر میں  جو افریقی اتحاد کے قاعد بننا چاہتے تھے وہ اپنے یہاں  کے عدم اطمینان کو ہی نہیں  پہچان سکے اور دونوں  کے حکمراں  اقتدار سے بے دخل کر دئیے گئے۔ بعض مبصرین کا کہنا ہے قذافی جیسے حکمراں  جس اتحاد کی بات کر رہے تھے وہ دراصل تاناشاہی سے آ ہی نہیں  سکتی تھی، جمہوری طور طریقوں  سے ہی اتنی بڑی ریاست کا تصور ممکن تھا اور جمہوریت کو ہی یہ لوگ درکنار کیے ہوئے تھے۔ اس کے بعد جو ہوا وہ سب کے سامنے ہے اور آج کے حالات اس دور کے پس منظر کو بیان کرنے کیلئے کافی ہیں ۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK