ہندوستانی اکیڈمی کے تعلق سے کہا جاتا ہے کہ اس کا مقصد گنگا جمنی تہذیب کو فروغ دینا تھا۔کتابوں کی اشاعت پر اکیڈمی نے خاصی توجہ صرف کی۔
ہندوستانی اکیڈمی سے شائع ہونے والی اردو کتابیں جب پہلی مرتبہ مطالعے میں آئی تھیں تو نگاہ ہندوستانی پر مرکوز ہو گئی تھی اور ذہن بھی اسی لفظ کے ساتھ فعال تھا۔کبھی کوئی لفظ اپنے وقت کی سیاست کے بغیر بھی معنی دیتا ہے لیکن اس لفظ کی سیاست وقت کو عبور کرتے ہوئے وہی نہیں رہ جاتی جو پہلے تھی۔اکیڈمی سے شائع ہونے والی اردو کتابیں پرانی اور نئی سیاست کے بغیر اپنی موجودگی کا احساں دلاتی رہیں ۔ہندوستانی اکیڈمی سے اردو میں شائع ہونے والی کتابوں کی فہرست بھی تیار کرنے کی ضرورت ہے۔خبر تو یہی ہے کہ پرانی کتابوں کو اکیڈمی شائع کر رہی ہے۔۱۱؍ اور ۱۲؍اکتوبر کو ہندوستانی اکیڈمی نے ہندی کے نامور نقاد منیجر پانڈے کی یاد میں دو روزہ سمینار کا انعقاد کیا تھا۔ میں ۱۲؍اکتوبر کو جلسے میں شریک ہو سکا۔دن اتوار کا تھا نہ کتابوں کو دیکھ سکا نہ خرید سکا۔پھر بھی لائبریری کے تعلق سے کچھ معلومات حاصل ہو گئیں ۔یہ جلسہ اگر کسی اور مقام پر ہو رہا ہوتا تو اس کی تاریخی معنویت اتنی زیادہ نہ ہوتیں ۔ہندوستانی اکیڈمی کے سمینار کی دیواروں پر تصویریں آویزاں ہیں ۔اسٹیج سے ان تصویروں کو دیکھنے کے لیے زیادہ مشقت نہیں کرنی پڑتی ہے۔سیاسی،سماجی اور ادبی دنیا سے تعلق رکھنے والی شخصیات زندگی میں کسی ایک مقام پر جمع شاید ہی ہوئی ہوں مگر زندگی کے بعد انہیں کچھ اس طرح یکجا کیا گیا ہے کہ یہ سب کے سب اپنے اختلافات کے باوجود ہندوستانی ہیں ۔کچھ ایسی شخصیتوں کی تصویریں بھی ہیں جنہیں ہم کم جانتے ہیں لیکن ایک خاص وقت اور سیاق میں ان کی اہمیت باقی رہتی ہے۔ہندوستانی اکیڈمی کی لائبریری میں قدیم کتابوں اور مخطوطات کا بڑا ذخیرہ ہے۔کتابوں کو ڈیجیٹل فارم میں بھی پڑھا جا سکتا ہے۔ رسالوں کا ذخیرہ بھی ہندوستانی اکیڈمی کی تاریخی اہمیت کا ایک اہم حوالہ ہے۔
۱۹۲۷ء میں ہندوستانی اکیڈمی کا قیام عمل میں آیا ۔ ہندوستانی اکیڈمی کا افتتاح اس وقت کے علاقائی گورنر سرولیم مورس نے لکھنؤ میں کیا تھا۔اس ادارے کی تعمیر و تشکیل میں اس وقت کے وزیر تعلیم راجیشور بلی،پنڈت نارائن اپادھیائے،حافظ ہدایت حسین اور تیز بہادر سپر کا تاریخی کردار ہے۔ اس کے پہلے صدر سر تیج بہادر تھے۔اس وقت ایک ایسے ادارے کی ضرورت محسوس کی جا رہی تھی جس سے ہندوستان کی مختلف زبانوں کو ایک دوسرے سے نہ صرف قریب کیا جا سکے بلکہ ان کی ترقی کے راستے بھی روشن ہو سکیں ۔ہندی اور اردو کے بغیر ہندوستانی کا تصور ممکن نہیں ۔لہٰذا ذہن ان دو اسکرپٹ سے وابستہ کتابوں اور تحریروں کی طرف منتقل ہو جاتا رہا ہے ۱۹۲۶ء میں حافظ ہدایت اللہ حسین نے پرانتیہ دھارا سبھا میں یہ تجویز رکھی کہ ہندی اور اردو ادب کی ترقی کیلئےہندوستانی اکیڈمی قائم کی جائے۔ہندوستانی اکیڈمی کے قیام کا مقصد اردو ہندی اور دوسری ہندوستانی زبانوں اور بولیوں کو فروغ دینا تھا۔کتابوں کی اشاعت، علمی و ادبی محفلوں کا انعقاد اور ادیبوں کو انعام و اکرام سے نوازنا اس کے منصوبے میں شامل تھا۔کسی علمی و ادبی ادارے کی تہذیبی شناخت اس کی سرگرمیوں سے ہوتی ہے۔یہ سرگرمیاں الگ الگ ہونے کے باوجود بنیادی طور پر ایک ہی مقصد کی حصولیابی کا وسیلہ ہیں ۔
ہندوستانی اکیڈمی کے تعلق سے کہا جاتا ہے کہ اس کا مقصد گنگا جمنی تہذیب کو فروغ دینا تھا۔کتابوں کی اشاعت پر اکیڈمی نے خاصی توجہ صرف کی۔یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ ہندوستان میں اشاعتی سلسلے کو اس کے اعلیٰ مقاصد کے ساتھ اعتبار بخشنے میں اکیڈمی کا تاریخی کردار ہے۔جیسا کہ میں لکھ چکا ہوں ،اردو میں شائع ہونے والی کتابوں کی تفصیلات یکجا کرنے کی ضرورت ہے۔جن رسالوں اور روز ناموں کی فہرست اکیڈمی کے حوالے سے دکھائی دیتی ہے ان کی بھی بہت اہمیت ہے۔ایسے کئی رسالے اور اخبار ہیں جو آزادی سے قبل کی صورتحال کو سمجھنے کے لیے ان کا مطالعہ ضروری ہے ’’اکیڈمی کا سہ ماہی رسالہ’’ہندوستانی‘‘ہےجو ۱۹۳۱ء سے شائع ہو رہا ہے۔ یہ ابتدا میں اردو اور ہندی دونوں میں شائع ہوتا تھا۔تحقیق اور تنقید اکیڈمی کا اہم ترین موضوع ہے۔اکیڈمی کے اصول و ضوابط جو چلے آرہے تھے،ان میں کچھ تبدیلی کی ضرورت محسوس کی گئی۔اس تبدیلی کو کئی زاویوں سے دیکھا جا سکتا ہے۔’’ہندوستانی اکیڈمی‘‘ہندی اور اردو کے ساتھ اپنے سفر کا آغاز کرتی ہے، یہ سفر جاری رہتا ہے، سوالات قائم کیے جاتے ہیں ، سفارشات پیش کی جاتی ہیں ، یہ تمام باتیں تہذیبی زندگی کیلئے اسی وقت اہم ہو سکتی ہیں جب کسی زبان کو فروغ دیتے ہوئے دوسری زبان کے تعلق سے تنگ نظری پیدا نہ ہو۔
ہندستانی اکیڈمی کے سلسلے میں ایک خوبصورت جملہ دیکھنے کو ملتا ہے۔’’اس کا مقصد مختلف زبانوں کے درمیان بیٹھنا تھا۔‘‘یہ تجربہ کتنا خوبصورت تجربہ ہے وہ بھی ہندستان کی تہذیبی زندگی کے سیاق میں ۔مختلف زبانوں اور بولیوں سے وابستہ تحریروں اور شخصیتوں کو جاننے اور سمجھنے بلکہ ان سے قریب ہونے کی کوشش جیسے جیسے کمزور ہوئی،اختلافات نے بھی کچھ اس طرح سر اٹھایا کہ جیسے اختلاف کا مطلب افہام و تفہیم نہیں بلکہ زور سے بولنا اور اپنے مخالف کو خاموش کرا دینا ہے۔ ہندوستانی اکیڈمی سے ایک کتاب ۱۹۳۱ء میں شائع ہوئی۔یہ کتاب میرے پاس کئی برسوں سے ہے اور میں نے ہندی کے ادیبوں سے کہا بھی ہے کہ دیکھیے پریم چند نے ہندی سے ان تین لیکچروں کو اردو میں منتقل کیا ہے۔رائے بہادر مہا پادیھاے گوری شنکر ہیرا چند کی تین تقریروں کے ترجمے پر مشتمل کتاب ہے جس کا عنوان ’’قرون وسطیٰ میں ہندوستانی تہذیب‘‘ ہے۔کئی اعتبار سے اس کتاب کی ایک خاص اہمیت ہے۔پریم چند نے بطور پیش لفظ اگر کچھ لکھا ہوتا تو اس کی اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ۔ پھر بھی پریم چند کا ہندی سے اردو میں ان لیکچروں کو منتقل کرنا اور ہندوستانی اکیڈمی سے شائع ہونا،اکیڈمی کہ اس منصوبے کی روشن مثال ہے جس کا ذکر اوپر آ چکا ہے۔ہندستانی اکیڈمی میں گزارے ہوئے چند گھنٹے اس ادارے کی تاریخ کے ساتھ سفر کرنا تھا۔یہ تاریخ در و دیوار کے ساتھ ساتھ تصویروں سے بھی گویا تھی۔’’ہندستانی اکیڈمی‘‘کی تاریخ ملک کی تہذیبی تاریخ کا ایک اہم حوالہ ہے۔