وزیراعلیٰ ایکناتھ شندے نے کسی موقع پر کہا تھا کہ ادھو جی کو جب کبھی مدد کی ضرورت پڑیگی میں ضرور مدد کرونگا۔ اس جذبے کی ستائش ضروری ہے۔ سیاسی اختلافات ہوتے رہتے ہیں مگر سیاسی اختلاف کی بنیاد پر شرافت کی زبان اور آپس کے رشتوں کو بھول جانا کسی طرح بھی جائز نہیں ٹھہرایا جاسکتا۔
الیکشن کمیشن نے ہندوستان کے طول و عرض میں ہونے والے انتخابات میں مثبت تبدیلیاں لانے میں بڑی حد تک کامیابی حاصل کی ہے اس کے باوجود ہندوستان میں سیاست اور سیاسی لیڈروں کی گفتگو منفی سوچ کی حامل محسوس ہوتی ہے۔ الیکشن کی آہٹ کے ساتھ تو الزام تراشی، گالم گلوج اور تشدد کا سلسلہ بھی شروع ہوجاتا ہے۔ وہ تمام بدزبان اور تشدد پسند لوگ جو عوام اور پولیس دونوں کیلئے ناپسندیدہ ہوتے ہیں کسی نہ کسی سیاسی پارٹی کو اپنا پشت پناہ بنا لیتے ہیں ۔ بعض لوگ ٹوپیاں پہن لیتے ہیں کہ کسی سیاسی پارٹی یا سیاسی محاذ کا اشتہار بن سکیں ۔ ایسے میں کچھ اچھی باتیں ہوں تو دل کو چھو جاتی ہیں ۔ ابھی پونے سے خبر آئی کہ ایک الیکشن میٹنگ میں اجیت پوار اور بی جے پی کے ایک لیڈر ایک ہی اسٹیج پر موجود تھے۔ بی جے پی لیڈر نے شرد پوار کے بارے میں کچھ ہلکے جملے کہے تو اجیت پوار نے روک دیا۔ پولنگ ختم ہوتے ہی سپریہ سلے اپنی بھابھی اور حریف سے ملنے ان کے گھر گئیں ۔ الیکشن سے پہلے ایک خبر آئی تھی کہ ادھو ٹھاکرے کی طبیعت خراب ہوئی تھی تو ان کی خبر گیری اور خدمت کیلئے سب سے پہلے دوڑنے والے راج ٹھاکرے تھے۔ وزیراعلیٰ ایکناتھ شندے نے بھی کسی موقع پر کہا تھا کہ ادھو جی کو جب کبھی مدد کی ضرورت پڑے گی میں ضرور مدد کروں گا۔ اس جذبے کی ستائش ہی نہیں تقلید بھی ضروری ہے۔ الیکشن آتے جاتے ہیں ، سیاسی اختلافات ہوتے رہتے ہیں مگر سیاسی اختلاف کی بنیاد پر شرافت کی زبان اور آپس کے رشتوں کو بھول جانا کسی طرح بھی جائز نہیں ٹھہرایا جاسکتا۔
انسانی رشتوں کی بحالی اور انسان کی حیثیت سے ہر شخص کا احترام آج کی سیاست کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ اس کے بعد اگر کچھ ہے یا کوئی مسئلہ سب سے زیادہ توجہ کا مستحق ہے تو وہ مسلمانوں کا آپسی انتشار اور مجموعی طور پر نظرانداز کئے جانے کا مسئلہ ہے۔ حکمراں جماعت مسلک و عقیدہ کی بنیاد پر ان کے اختلاف کو گہری خلیج میں پہلے ہی تبدیل کرچکی ہے اب وزیراعظم نے پسماندہ مسلمانوں کو اپنے قریب کرنے یا ریزرویشن دینے کی بات کہی ہے۔ کام اور سماجی نظام کی تقسیم کے سبب کچھ برادریاں یقیناً پسماندہ ہیں اور ان کو ریزرویشن دیا جانا چاہئے مگر سب سے بڑا مسئلہ ذہنی پسماندگی کا ہے۔ ذہنی پسماندگی میں مبتلا طبقے نے ہی ایسے حالات پیدا کئے ہیں یا مختار انصاری اور عتیق احمد کے نام لے لے کر مسلمانوں کو چڑا رہے ہیں یا ایک خوشحال جماعت ’قریشی برادری‘ کیلئے نت نئے مسائل پیدا کئے ہیں کہ اس برادری کے لوگوں کیلئے پشتینی روزگار اور عام لوگوں کیلئے تازہ، سستا اور حلال گوشت ایک مسئلہ بنتا جا رہا ہے۔ پاور لوم چلانے والے یا بے روزگار ہیں یا کلو کے حساب سے اپنے لوم بیچ رہے ہیں ۔ حکمراں جماعت نے مسلمانوں میں سے کچھ لوگوں کی اہم عہدوں پر تقرری کی ہے کسی کو وائس چانسلر یا کچھ اور بنایا ہے ان میں کتنے ایسے ہیں جن کا تعلق پسماندہ سمجھی جانے والی برادریوں سے ہے؟ سابق نائب صدر جمہوریہ حامد انصاری تک الزامات کے گھیرے میں آچکے ہیں ۔ صرف بات سے تو ان کے زخم مندمل نہیں ہوسکتے۔ میرا تجربہ ہے کہ ابھی انسانیت زندہ ہے۔ ہر برادری اور جماعت میں ایسے لوگ ہیں جو پریشاں حال شخص کی مدد کو ہاتھ بڑھاتے ہیں ۔ ہاں ایک بہت بڑا طبقہ ان لوگوں کا ہے جن کو کسی کی مدد کرنا تو دور کسی کو کسی کی مدد کرتے ہوئے دیکھنا بھی گراں گزرتا ہے۔ درمندی سے محروم ایسے اشخاص مذہب، مسلک، برادری کا زیادہ نام لیتے اور سماج میں انتشار پیدا کرتے ہیں ۔ جو واقعی انسانیت کے قائل ہیں وہ دوسروں کی دنیا بہتر بنا کر اپنی آخرت بہتر بناتے ہیں ۔ مختصر یہ کہ سماجی اور اقتصادی پسماندگی سے بڑا مسئلہ ذہنی پسماندگی کا ہے ذہنی پسماندگی میں مبتلا افراد انسانوں کے درمیان اعلیٰ اور ادنیٰ کی تفریق پیدا کررہے ہیں ۔ جو ذہنی پسماندگی میں مبتلا نہیں ہیں وہ بھوکے، ننگے اور بے گھر انسانوں سے ان کا مذہب، مسلک، برادری یا علاقائی تعلق سے نہیں پوچھتے یہ سیاستداں ، ایڈوکیٹ اور بابا صاحب امبیڈکر کے پوتے پرکاش امبیڈکر نے ممبئی حملے میں جج کے دیئے ہوئے فیصلے کے کئی پیراگراف پڑھ کر جو سوالات اٹھائے ہیں وہ نظرانداز نہیں کئے جاسکتے مثلاً ’’بیلسٹک رپورٹ کے مطابق اگر گولیاں حملہ آوروں کے اسلحہ سے نہیں چلی تھیں تو انہیں چلانے والے ہاتھ کس کے تھے؟‘‘ اس وضاحت کی ضرورت نہیں کہ ہم اپنے وطن پر جان چھڑکنے والے ہیں ، تمام حملہ آوروں اور ان کی مدد کرنے والوں کی مذمت کرتے ہیں ۔ اس ملک یا ان ملکوں کی بھی مذمت کرتے ہیں جو حملہ آوروں کی پشت پناہی کر رہے تھے مگر ان ہاتھوں کو بھی پہچاننا اور دوسروں کو پہنچوانا چاہتے ہیں جو فرض شناس پولیس افسروں کو خود قتل کرکے الزام کسی اور پر رکھ رہے تھے۔ پرکاش امبیڈکر پسماندہ طبقے سے تعلق رکھتے ہیں مگر انہوں نے ثابت کیا ہے کہ وہ ذہنی طور پر پسماندہ نہیں ہیں ۔ یہ سوال دوسروں نے کیوں نہیں اٹھایا؟
پرکاش امبیڈکر نے یہ بات کہنے کیلئے کس موقع کا انتخاب کیا؟ اس پر سوال اٹھایا جاسکتا ہے مگر اس سے تو انکار نہیں کیا جاسکتا کہ انہوں نے دہشت گردوں کا سہارا لے کر اپنے سیاسی حریفوں کو نشانہ بنانے والوں کو بے نقاب کیا ہے۔ کئی واقعات ایسے حالات میں رونما ہوئے ہیں جو بڑی خرابی کی نشاندہی کرتے تھے مگر جو واقعات رونما ہوئے وہ بذات خود انسانیت کی بالادستی کا ثبوت بن گئے۔ ان سے سبق لینے کی ضرورت ہے کہ اپنے فائدے کیلئے یہ مختلف قسم کے نعرے لگا رہے ہیں ۔ افسوس تو اس پر ہے کہ ایک بڑا طبقہ جذباتی نعروں کے فریب میں بھی آجاتا ہے۔ ایسے لوگ انتخابات کے علاوہ قومی سیاست، ثقافت اور ادب میں بھی اپنی راہ بنا رہے ہیں ۔ عام ہندوستانی فریب کن نعروں یا پروپیگنڈے کے زیر اثر ہیں ۔ مسلمانوں کا معاملہ اور زیادہ مضحکہ خیز ہے۔ ہر محاذ پر انہیں شکست کا سامنا ہے مگر ان کے اجتماعات میں ، افطاری اور عید ملن کی محفلوں میں ننگے سر رہنے والوں کے ہاتھوں سیاسی لیڈروں اور وزیروں کو ٹوپیاں پہنائی جا رہی ہیں ۔ ان کے شعار اور اجتماعی مفاد کا مذاق اڑانے والوں کی باتوں پر تالیاں بجائی جارہی ہیں ۔ اسٹیج پر بیٹھنے کیلئے روپے دیئے جارہے ہیں یا جن کی قبر کھودی جارہی ہے انہیں بھائی ہونے کی دہائی دی جارہی ہے۔ اسٹیج پر قبضہ کرنے کی کوشش میں اہم ترین پروگرام تباہ کئے جا رہے ہیں ایسے برے حالات میں رونما ہونے والے اچھے واقعات کیا ان کے ذہن و ضمیر کو نہیں جھنجھوڑ سکتے؟