Inquilab Logo

بین الاقوامی سیاست اورہمارےپڑوسی ممالک

Updated: January 03, 2021, 12:58 PM IST | Dr Mushtaque Ahmed

ہمیں پڑوسی ممالک کے ساتھ تعلقات استوار رکھنے کی ہر ممکن کوشش کرنی ہوگی کیونکہ ان پر امریکہ اور چین کی عقابی نظر ہے۔ اس مسئلے پر ہمیں بنگلہ دیش، نیپال اور بھوٹان جیسے ممالک سے بھی بات کرنی ہوگی اور انہیں اعتماد میں لینا ہوگا۔ علاوہ ازیں امریکی صدر بائیڈن سے بھی گفتگو کرنی ہوگی کیونکہ ٹرمپ اور بائیڈن کی پالیسی میں بہت فرق ہے، اسلئے ہمیں کافی محتاط رہنا ہوگا

Saar Summit
بین الاقوامی سیاست اورہمارےپڑوسی ممالک

یہ مثل مشہور ہے کہ دوست بدلے جا سکتے ہیں لیکن پڑوسی نہیںاور دوسری حکایت یہ بھی ہے کہ اگر کمزور پڑوسی دشمن بن جائے تو طاقتور دوست بھی مددگار نہیں ہو سکتا۔ اس لئے دنیا جب سے قائم ہے اس وقت سے پڑوسیوں کی غیر معمولی اہمیت رہی ہے۔ اگر بین الاقوامی سیاست پر نگاہ ڈالیں تو یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ ترقی یافتہ ممالک کی ترقی میں ان کے پڑوسی ممالک بھی کسی نہ کسی طورپر معاون رہے ہیں۔ ظاہر ہے کہ اگر پڑوسی سے تعلقات ہموار نہیں رہتے تو پھر ہر وقت یہ خدشہ بنا رہتا ہے کہ نہ جانے کس وقت وہ کون سی شطرنجی چال چل جائے جس سے اس کا خسارہ ہو جائے۔ اسلئے عہدِ قدیم ہی سے  اپنے پڑوسیوں سے بہتر تعلقات بنائے رکھنے کی روایت رہی ہے مگر جنگِ عظیم اول اور دوم کے بعد عالمی سطح پر جو گروپ بندی شروع ہوئی اس میں بیشتر ممالک کیلئے ان کے پڑوسی کا کردار دشمن جیسا ہوگیا۔
  نتیجہ یہ ہوا کہ اکثر ممالک کے درمیان رسہّ کشی شروع ہوئی اور اس کا فائدہ ان طاقتور ممالک کو ہوا جو چھوٹے چھوٹے ممالک کو آپس میں لڑا کر اپنا مفاد پورا کرنا چاہتے تھے۔ بالخصوص ایک عرصے تک امریکہ اور روس کی بالا دستی رہی اور دیگرممالک ان دونوں کے شکنجوں میں جکڑتے چلے گئے۔ اگر متحدہ روس کا شیرازہ نہیں بکھرتا تو شاید اس وقت بھی دنیا دو خیمے میں نظر آتی۔روس کے بکھرنے کے بعد امریکہ کی طاقت میں اضافہ تو ضرور ہوا مگر بین الاقوامی سیاست کو ایک نیا رخ بھی ملا کہ کئی ممالک کے سربراہوں نے امریکہ کو چیلنج کرنا شروع کیا ۔ یہ اور بات ہے کہ اس کا خمیازہ اس کو بھگتنا پڑا مگر امریکہ کی بالا دستی کمزور ضرور ہوئی۔ اب جبکہ امریکہ میںنئے صدر منتخب ہوگئے ہیں اور ڈونالڈ ٹرمپ کی پالیسی کے برعکس جان بائیڈن نے اپنی سیاست شروع کی ہے، اس سے یہ اشارہ ضرور مل رہا ہے کہ امریکہ لابی کے بہت سے ممالک کو اپنے نظریئے میں تبدیلی لانی ہوگی کیوں کہ بائیڈن نے ان ممالک کو اپنی صف میں کھڑا کرنے کی کوشش شروع کردی ہے جو ٹرمپ کے دور اقتدار میں امریکہ مخالف سمجھے جاتے رہے ہیں۔مثلاً ٹرمپ کی پالیسی کا سب سے بڑا مخالف ایران رہا ہے لیکن اب بائیڈن کے تئیں اس کارویہ نرم نظر آرہا ہے۔
  ظاہر ہے کہ اگر ایران اور امریکہ کے تعلقات استوار ہو جاتے ہیں تو ایران کے حامیوں کی سیاسی پالیسیوں میں بھی تبدیلی آئے گی اور اس کا اثر خصوصی طورپر ایشیائی ممالک پر پڑے گا۔ جہاں تک ہندوستان کا سوال ہے تو اس وقت چین سے جس طرح کی رسّہ کشی چل رہی ہے، ایسے وقت میں ہند ایران تعلقات کو بھی مستحکم کرنا ہوگا ساتھ ہی ساتھ تمام پڑوسی ممالک یعنی بنگلہ دیش ، پاکستان، بھوٹان اور نیپال کے ساتھ نزدیکی بڑھانی ہوگی۔ بالخصوص اس وقت نیپال چین کے زیر اثر ہے اور وہاں کی سیاست میں جس طرح کا ہیجان ہے، اس کے پسِ پردہ چین ہی ہے اور یہی وجہ ہے کہ نیپال نے حالیہ دنوں میں کچھ اس طرح کا رویہ اپنایا ہے جس سے ہندوستان کی خارجہ پالیسی کو نقصان پہنچا ہے ۔ اگرچہ بھوٹان ایک چھوٹا سا ملک ہے لیکن ہندوستان کے پڑوسی ممالک میں وہ ایک امن پسند ملک ہے اور ہندوستان کا بہی خواہ مانا جاتاہے کیوں کہ اس کا رویہ ہمیشہ ہندوستان کے تئیں ہمدردانہ رہاہےجبکہ بنگلہ دیش اور پاکستان پر بھروسہ نہیں کیا جا سکتا۔ ایک وقت تھا کہ بنگلہ دیش ہندوستان کا سچا دوست تسلیم کیا جاتا تھا لیکن حالیہ دہائی میں اس کے نظریئے میں تبدیلی آئی ہے اور وقتاً فوقتاً بنگلہ دیش نے بھی ہندوستان کی شناخت کو بین الاقوامی سطح پر مسخ کیا ہے ۔ چوں کہ پاکستان ہمیشہ سے امریکہ کی کٹھ پتلی رہاہے، اسلئے وہ کبھی بھی ہندوستان کا اچھا پڑوسی نہیں بن سکتا۔
  اگرچہ وہاں کے عوام چاہتے ہیںکہ ہندوستان سے ان کے رشتے ہموار ہوں لیکن وہاں کی سیاست ایسا نہیں ہونے دے گی ۔ اس کے بہت سارے وجوہات ہیں ۔جس طرح ہندوستان میں کچھ سیاسی جماعتیں دن رات پاکستان کی سیاست کو نشانہ بناتی رہتی ہیں، اسی طرح پاکستان کی چند جماعتیں ہندوستان کے اندر خلفشار پھیلانے کی کوشش میں رہتی ہیں۔ نتیجہ ہے کہ ہندوستان کے چاہنے کے باوجود پاکستان کی  فریب دہی نے بنتے رشتوں کو بگاڑنے کا کام کیا ہے ۔ آنجہانی اٹل بہاری واجپئی نے ایک بڑی کوشش کی تھی کہ ہند پاک تعلقات ہموار ہوں اور واجپئی جی بذریعہ بس لاہور تک گئے تھے لیکن اس کے بعد کرگل کی جنگ نے ہندوستان کے جذبات کو مجروح کردیا اور نتیجہ ہے کہ اب تک ان دونوں پڑوسی ممالک کے تعلقات ہموار نہیں ہوسکے ہیں مگر اس وقت بین الاقوامی سیاست میں جس طرح کی تبدیلی ہو رہی ہے، اس کے مدنظر ہندوستان کو اپنی خارجہ پالیسی میں بھی تبدیلی لانی ہوگی اور پڑوسی ممالک کے ساتھ رشتے ہموار کرنے ہوں گے کیوں کہ ہندوستان ایشیاء کا ایک ایسا ملک ہے جو اس وقت پور ی دنیا میں ایک طاقتور ملک میں شمار ہونے لگا ہے۔ بین الاقوامی سیاست اور بالخصوص امریکہ کبھی نہیں چاہتا کہ ہندوستان دنیا میں اپنی دھاک جما سکے ۔ چین بھی اسی منشا سے ہندوستان کو ہمیشہ دبائو میں رکھنا چاہتا ہے۔
  حال کے دنوں میں چینی فوج نے یہ ثابت کردیا ہے کہ وہ ہندوستان کے اندر ہیجان پیدا کرنے کی سازش کررہا ہےمگر ہندوستان نے بھی اس کا منہ توڑ جواب دیا ہے اور یہ ثابت کردیا ہے کسی بھی خطرے کا مقابلہ کرنے کی قوت رکھتا ہے ۔ ایسے وقت میں نیپال ، بھوٹان اور بنگلہ دیش کے ساتھ ہندوستان کا رشتہ مضبوط رہے اس کی ہر ممکن کوشش کی جانی چاہئے۔ نیپال پر خصوصی توجہ کی ضرورت ہے کہ اس کی چین سے قربت ہمارے لئے زیادہ نقصان دہ ثابت ہو گی۔ اسی طرح بنگلہ دیش کے ساتھ بھی ہمارا رشتہ مستحکم رہے، اس کی بھی کوشش جاری رہنی چاہئے کہ بنگلہ دیش اور افغانستان کی مدد سے پاکستان کی ناپاک سازشوں کو ناکام بنانے میں کامیابی مل سکتی ہے۔ غرض کہ امریکہ کی نئی قیادت کی وجہ سے نہ صرف امریکہ کی خارجہ پالیسی میں غیر معمولی تبدیلی کے امکانات ہیں بلکہ بین الاقوامی خارجہ پالیسی بھی اس سے متاثر ہوگی اور ہندوستان جیسے ترقی یافتہ ممالک کو دیگر ممالک سے کہیں زیادہ بیدار اور چاق وچوبند رہنا ہوگا ۔ 
 ساتھ ہی ساتھ ہمیں اپنے پڑوسی ممالک کے ساتھ تعلقات استوار رکھنے کی ہر ممکن کوشش کرنی ہوگی کہ ہمارے پڑوسی ممالک پر امریکہ اور چین دونوں کی عقابی نظر ہے ۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے حال میں بنگلہ دیش کی وزیر اعظم شیخ حسینہ کے ساتھ کئی مسائل پر گفتگو کی ہے۔اس گفتگو میں دونوں ممالک کے درمیان بہت سی غلط فہمیوں کے ازالے کے راستے ہموار ہوئے ہیں مگر ان دنوں چین ہمارے ہاتھ سے نکلتا جا رہاہے ۔یہ ہمارے لئے فکر مندی کا باعث ہے کہ نیپال ہمارا دیرینہ دوست رہا ہے اور جب چین ہمارے خلاف طرح طرح کی سازشیں رچ رہاہے ایسے وقت میں تو نیپال کو اپنی صف میں رکھنا وقت کا تقاضا ہے۔جہاں تک خطۂ عرب کا سوال ہے تو ان سے ہندوستان کا رشتہ قدرے بہتر ضرور ہے لیکن ٹرمپ کی وجہ سے ایران سے ہماری دوری بڑھی ہے ۔ اب ضرورت ہے کہ اس دوری کو ختم کیا جانا چاہئے اور ہند ایران کے رشتے کو مستحکم کیا جانا چاہئے ۔ہندوستان کو جان بائیڈن کے ساتھ بھی گفت وشنید کی ضرورت ہے کہ بائیڈن، ڈونالڈ ٹرمپ کی طرح بڑبولے لیڈر نہیں ہیں کہ وہ کبھی ہندوستان کی حمایت کرتے نظر آتے تھے تو کبھی ہندوستان کے خلاف سازش کرتے بھی نظر آتے تھے۔ یعنی ٹرمپ کی پالیسی اور بائیڈن کی پالیسی میں زمین آسمان کا فرق ہے اسلئے ہندوستان کو ہر قدم پھونک پھونک کر اٹھانا ہوگا اور اپنے پڑوسی ممالک کے ساتھ رشتوں کو بدلتے وقت کے ساتھ مزید مستحکم کرنا ہوگا۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK