Inquilab Logo

’ہیروشیما‘، ’ناگاساکی‘ کے بعد کا جاپان

Updated: August 08, 2021, 8:58 AM IST | Mumbai

ہیروشیما اور ناگاساکی (جاپانی شہر) کرۂ ارض پر تخریبی زخموں کے ایسے نشانات ہیں کہ جب تک دُنیا قائم ہے،

Hiroshima.Picture:INN
’ہیروشیما تصویر آئی این این

  ہیروشیما اور ناگاساکی (جاپانی شہر) کرۂ ارض پر تخریبی زخموں کے ایسے نشانات ہیں کہ جب تک دُنیا قائم ہے، ان دو شہروں کی تاریخ کبھی بھلائی نہیں جاسکے گی۔ یہی نہیں، یہ کلنک جو عالمی تاریخ کے ماتھے پر لگا تھا، کبھی صاف نہیں کیا جاسکے گا۔ ہیرو شیما پر ۶؍ اگست کو اور ناگاساکی پر تین دن بعد ۹؍ اگست (۱۹۴۵ء) کو طاقتور نیوکلیائی بم گرائے گئے تھے۔ ان وحشت ناک واقعات کو ۷۶؍ سال ہوگئے ہیں مگر ان کی دلخراش یادیں دُنیا کے اجتماعی حافظے سے نہ تو محو ہوسکی ہیں نہ ہی کبھی ہوسکیں گی۔ ان واقعات سے دُنیا نے نیوکلیائی اسلحہ کے استعمال سے گریز تو سیکھا مگر ان کی تیاری پر قدغن نہیں لگائی۔ جب کہ ہیروشیما اور ناگاساکی بہت بڑا سبق تھے۔ نیوکلیائی بموں کی وجہ سے دونوں شہروں کی بڑی آبادی ہی لقمہ ٔ اجل نہیں بنی، حیوانی زندگی اور زمین کی زرخیز ی بھی تلف ہوئی، حتیٰ کہ برسوں تک انسانی زندگی مسائل و مصائب کا شکار رہی کیونکہ ان بموں کے مابعد اثرات بھی کچھ کم طاقتور نہیں تھے۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ ان بھیانک واقعات کے بعد پوری دُنیا نیوکلیائی اسلحہ کی تیاری ہی سے نہیں، جنگوں سے بھی توبہ کرلیتی مگر حرص و ہوس کا بازار گرم ہو تو یہ کب ممکن ہوتا ہے، اس لئے ایک طرف تو امن کی باتیں اور امن کے دعوے زوروشور سے کئے گئے مگر دوسری طرف اسلحہ کی دوڑ بھی تیز ہوتی چلی گئی۔ افسوس کہ دُنیا نے جنگوں سے توبہ نہیں کی۔
 تاریخ کے ان بھیانک صفحات سے طلبہ کی واقفیت نہایت ضروری ہے تاکہ اُنہیں بتایا جاسکے کہ پُرامن دُنیا کتنی ضروری ہے اور اس کیلئے اُن پر کیا ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ یہ ذہن سازی تعلیمی دور میں بہت مؤثر طور پر ممکن ہے۔ طلبہ کو یہ بھی بتانا ضروری ہے کہ ان تباہ کن واقعات کے بعد جاپان کو ملبے سے نکل کر ترقی کے نئے نقشے بنانے تھے جو اس نے بنائے اور کامیاب ہوا۔ جاپان کی صنعتی و اقتصادی تاریخ مثال ہے کہ کس طرح قومیں تخریب میں تعمیر کی صورتیں پیدا کرتی ہیں اور کامیاب ہوتی ہیں۔ جاپان کی یہ تاریخ نہ صرف معاشی او ر اقتصاری اعتبار سے اہم ہے بلکہ اس سے یہ سبق بھی ملتا ہے کہ انسان اگر ایسے حالات میں گھر جائے کہ جن میں زندہ رہنا مشکل ہو، اُن میں بھی تعمیر و ترقی کے راستے کس طرح پیدا کئے جاتے ہیں۔ ہیروشیما اور ناگاساکی کے واقعات اگست ۱۹۴۵ء کے ہیں جبکہ جاپان ۱۹۶۸ء میں دُنیا کی دوسری سب سے بڑی معیشت بن چکا تھا۔ اس کی معاشی شرح نمو ۱۰ء۸؍ فیصد تھی۔ پوری ربع صدی بھی نہیں، صرف ۲۳؍ برس میں یہ ملک کیسے اتنا اوپر آگیا؟ یہی بات سمجھنے اور سیکھنے کی ہے۔ 
 اس میں جہاں جاپانی حکومت کی پالیسیوں کا دخل ہے وہیں عوام کی شرکت کا بھی ہے۔ عوام نے دن رات محنت کے ذریعہ اپنی صلاحیتوں کو منوانے کا یک نکاتی پروگرام بنالیا تھا تاکہ حکومت کے منصوبوں بالخصوص یوشیدہ ڈاکٹرن (یعنی اس وقت کے وزیر اعظم شگیرو یوشیدہ کے فارمولہ برائے ترقی) اور ’’اکیدا پلان‘‘ ( عوام کی آمدنی دوگنا کرنے کا بعد کے وزیر اعظم حیاتو اکیدا کامنصوبہ )کو وہی کامیابی حاصل ہو جس کی توقع کی گئی۔ عوام نے بیرونی تکنالوجی سے فائدہ اُٹھایا اور اس پر اپنی محنت کا نقش قائم کیا۔جاپان کی شاندار ترقی میں پُرامن اور پُرسکون رہنے کی عوامی خصوصیت کا بھی اہم رول تھا۔ اُن کی یہ خصوصیت آج بھی متاثر کرتی ہے جس کے سبب اس ملک میں جرائم کی شرح کم ترین شرحوں میں سے ایک ہے۔ جاپان کو قابل رشک بننے میں دیر نہیں لگی، یہ سیکھنے اور سمجھنے کا نکتہ ہے۔    n

japan Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK