Inquilab Logo

انسان اپنی تخلیق کے فلسفے کو سمجھے، اسی میں کامیابی ہے

Updated: January 22, 2021, 11:47 AM IST | Muhibullah Qasmi

اللہ تعالیٰ نے اس کائنات میں آدم اوراس کی اولاد کو پیدا کیا اور اسے اپنا نائب و خلیفہ بناکر ایک عارضی زندگی عطاکی اور اس دارِفانی میں بھیج دیا۔ بعدازاں اس کی بقا و تحفظ کے لئے وہ تمام چیزیں محدودوقت کے لئے بلاعوض اسے عطاکردیں جن کا نظم و نسق کرنا اس کی قدرت سے باہرتھا۔

Namaz - Pic : INN
نماز ۔ تصویر : آئی این این

اللہ تعالیٰ نے اس کائنات میں آدم اوراس کی اولاد کو پیدا کیا اور اسے اپنا نائب و خلیفہ بناکر ایک عارضی زندگی عطاکی اور اس دارِفانی میں بھیج دیا۔ بعدازاں اس کی بقا و تحفظ کے لئے وہ تمام چیزیں محدودوقت کے لئے بلاعوض اسے عطاکردیں جن کا نظم و نسق کرنا اس کی قدرت سے باہرتھا۔ جب مالک ِارض وسمانے انسان کو یہ تمام سہولیات فراہم کردیں ، تب اسے اپنا یہ پیغام سنایا:
’’میں نے انسان و جن کو صرف اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا ہے ۔ ‘‘( الذاریات:۵۶)
 اس آیت سے معلوم ہوا کہ اس کا مقصد ِاصلی اظہار ِعبدیت ہے، یعنی خودکومالک حقیقی کا غلام بنا دینا۔ لہٰذا اس کا جو بھی حکم ہے اس کی بجاآوری ضروری اور ہر حال میں ضروری ہے۔
اگرانسان ایک لمحہ کے لئے غورکرے تواسے معلوم ہوگاکہ وہ اپنی مرضی سے پیدانہیں ہوا، ورنہ وہ اس دارالامتحان میں آنے سے انکارکردیتا، اس لئے کہ وہ سمجھ جاتاکہ ابتلا و آزمائش کی ان خار دار وادیوں سے دامن بچاکر نکل جانا اورخواہشات و مرضیات کی مسلح فوج سے ٹکر اکر اپنی کامیابی و کامرانی کا جھنڈا لہرا دینا نہایت ہی مشکل ہے۔ کیوں کہ پیدائش کے بعد اگرچہ متعینہ مدت تک والدین پرورش کی ذمہ داری نبھاتے ہیں، مگراس کے بعد خوداپنی اور آنے والی نسل کی کفالت کابار اسے ہی اٹھانا پڑے گا ۔ 
اب انسان کے سامنے دو ہی راستے ہیں : ایک تویہ کہ وہ اپنے مالک حقیقی کا صحیح انتخاب کرکے اس کی اطاعت وفرماں برداری میں لگ جائے، یا اپنی مرضیات کو خدا بنا کر اللہ کے تمام احکام کو بالائے طاق رکھ دے اور من مانی زندگی گزارے۔ ان دونوں باتوں میں کسی ایک کو اپنانے کا اللہ تعالیٰ نے اس کو اختیاردیاہے۔ ارشاد الٰہی ہے:’’پس جو چاہے ایمان لے آئے اور جو چاہے انکار کردے۔‘‘   ۙ     (الکہف: ۲۹)
اس لئے انسان کو مجبورِ محض قرارنہیں دیاجاسکتا، کیوں کہ اسی اختیارپراس کا حساب وکتاب، پھر سزا و جزا کا اعلان ہوگا۔ بعض مقامات ایسے بھی ہیں جہاں پر انسانی قوت جواب دے دیتی ہے یاکوئی کام اس کی قدرت سے باہر ہوتا ہے تو ایسے مرحلے میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی گرفت نہیں ہوتی، خواہ اس کی حرام کردہ اشیاء ہی کیوں نہ ہوں ۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
’’پھر جو شخص سخت مجبور ہو جائے، نہ تو نافرمانی کرنے والا ہو اور نہ حد سے بڑھنے والا تو اس پر (زندگی بچانے کی حد تک کھا لینے میں) کوئی گناہ نہیں۔‘‘  ۭ   (البقرۃ: ۱۷۳)
اسی طرح اگراللہ تعالیٰ چاہتا توانبیاء و رسل کودنیامیں نہ بھیجتا، بلکہ اپنی کتاب پہاڑ یا کسی پاک جگہ نازل کردیتا یا فرشتہ بھیج کر رہنمائی کرتا، مگراس نے ایسا نہیں کیا، کیوں کہ ایسی صورت میں بندہ یاتوعملی طور پر مجبورِ محض بن جاتا، یاپھرفرشتے اوربندے کے درمیان مماثلت نہ ہونے کے سبب اس کے لئے احکام ِ الٰہی پرعمل کرنا ممکن نہ ہوتا۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے ابنیاء و رسل کا انتخاب کیا جنہوں نے لوگوں کے درمیان  آکرعملی طورپر ان احکام کی تفصیل واضح اندازمیں پیش کر دی۔ ان کی آخری کڑی محمد عربی ﷺ ہیں اورآخری کتاب قرآن کریم ہے، جو ایک مکمل نظام ِ حیات ہے۔ اسی قرآن اور حدیث (آپؐ کی قولی وعملی زندگی) میں قیامت تک کے لئے تمام مسائل کا حل پیش کردیاگیاہے۔
ایسے مقام پر پہنچ کر بندے کے لئے کسی قسم کی معـذرت کی گنجائش باقی نہیں رہ جاتی۔یہی وہ فلسفہ ٔ حیات ہے جس کوصحابہ کرامؓ نے سمجھا۔ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت اختیارکی اور اپنی زندگی اللہ اور اس کے رسولؐ کی اطاعت میں گزاری، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ انسانوں کی بہترین جماعت بن گئے۔ ان کے لئے تمام مشکلات کا سامناکرنا اور جلاوطنی کی زندگی بسرکرنا آسان ہوگیا۔  اس پر اللہ نے انہیں دونوں جہاں میں فلاح و کامرانی عطا کی اور ’رضی اللہ عنہم و رضواعنہ‘ کے اعزازسے نوازا گیا۔ یہ الگ بات ہے کہ انسان کے لئے اس راہ ِ ہدایت سے گزرنا مشکل ہے کیوں کہ یہ دشوار گزارراستہ ہے جس میں انسانی مسائل نشیب وفرازکی طرح ہوتے ہیں۔ اس سے تسلیم  و اطاعت کے ساتھ گزرجانادشوارترین ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
’’ دنیا مؤمن کے لئے قیدخانہ (کے مثل) ہے۔ ‘‘(مسلم)
 ا س کے برعکس من چاہی زندگی بہ ظاہر نہایت ہی خوشگوار اور آسان معلوم ہوتی ہے جو (عارضی اور) پرلطف توہوتی ہے، مگراس کا انجام دائمی سزا ہے: ’’ہم نے کافروں (نافرمانوں ) کیلئے دردناک عذاب تیارکررکھا ہے۔ ‘‘(الکہف: ۱۰۲)
اب فیصلہ انسان کے ہاتھ ہے کہ وہ اپنی تخلیق کے فلسفے کو سمجھے اورراہ ہدایت کا انتخاب کرتے ہوئے اپنے بے نیازخالق ِ حقیقی کے سامنے سرتسلیم خم کرے۔ ایسا کرنے پر اس کو فرشتوں سے اعلیٰ مقام عطاکیاجائے گا۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK