Inquilab Logo

مراٹھی اخبارات سے : مہاراشٹر میں پنچایتی انتخابات کے نتائج اور دیہی علاقوں کا سیاسی رجحان

Updated: November 12, 2023, 2:39 PM IST | Ejaz Abdul Gani | Mumbai

سب سے زیادہ تیزی سے شہریت کی جانب گامزن ریاست مہاراشٹر میں ہنوز نصف آبادی دیہی علاقوں میں سکونت پذیر ہے لہٰذا یہاں گرام پنچایتوں کے انتخابات کو ایک خاص اہمیت حاصل ہے۔

BJP leader Parveen Drakar expressed his happiness with the party workers after the success in the panchayat elections. Photo: INN
پنچایتی انتخابات میں کامیابی کے بعدبی جے پی لیڈر پروین دریکر کا پارٹی کارکنان کے ساتھ اظہار مسرت۔ تصویر : آئی این این

سب سے زیادہ تیزی سے شہریت کی جانب گامزن ریاست مہاراشٹر میں ہنوز نصف آبادی دیہی علاقوں میں سکونت پذیر ہے لہٰذا یہاں گرام پنچایتوں کے انتخابات کو ایک خاص اہمیت حاصل ہے۔ یہ انتخابات پارٹی مفاد سے بالاتر ہوکر ذاتی تعلقات کی بنیاد پر لڑے جاتے ہیں ۔ووٹنگ کا فیصد اس میں عوام کی شرکت کو ظاہر کرتا ہے۔ذات پات، بالا دستی اور عزت نفس کا رجحان ان انتخابات میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔پھر بھی پڑھے لکھے نوجوانوں کی شرکت اور ریزرویشن کے بعد خواتین کا کثیر تعداد میں حصہ لینا ایک خوش آئندہ قدم ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ مراٹھی اخبارات نے اس رجحان پرکیا کچھ لکھا ہے؟
لوک ستہ (۸؍نومبر)
 اخبار اپنے اداریے میں لکھتا ہے کہ ’’کسی بھی مسابقتی امتحانات کے نتائج ظاہر ہونے پر میرٹ لسٹ میں پہلے آنے والے چند طلبہ کا تعلق ہمارے انسٹی ٹیوٹ سے ہونے کا دعویٰ کوچنگ کلاسیز والے کرتے ہیں لہٰذا یہ معمہ حل نہیں ہو پاتا ہے کہ ہونہار طلبہ حقیقت میں کس ادارے سے تعلق رکھتے ہیں ۔کچھ ایسا ہی ریاست کے گرام پنچایت کے نتائج ظاہر ہونے کے بعد ہوا۔ ریاست کی ۲؍ہزار ۳۵۰؍ گرام پنچایتوں کے نتائج سامنے آنے کے بعد تمام سیاسی پارٹیوں نے دعویٰ کرنا شروع کردیا کہ یہ ہماری کامیابی ہے۔بی جے پی اور کانگریس دونوں نے ۷۰۰؍سے زائد سیٹیں جیتنے کے اعداد و شمار پیش کردیئے۔ حکمراں محاذ نے ۱۴۰۰؍ سے زائد سیٹیں جبکہ مہا وِکاس اگھاڑی نے ۱۳۰۰؍ گرام پنچایتیں جیتنے کا دعویٰ کیا ہے۔ یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ گرام پنچایت کی۲؍ ہزار۳۵۰؍ نشستوں پر الیکشن ہوا اور دونوں پارٹیوں کے دعوؤں کے مطابق ۲۷۰۰؍ سیٹیں حاصل ہوئیں۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ دونوں اتحاد گمراہ کن بیان بازی کررہے ہیں۔ گرام پنچایت الیکشن انتخابی نشانوں پر نہیں لڑے جاتے ہیں۔ سیاسی جماعتیں مقامی سطح پر پینل کے ذریعہ میدان میں اُترتی ہیں ۔سیاسی لیڈران اپنے اثر رسوخ کا استعمال کرکے اپنے حامیوں کی جیت کی راہ ہموار کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔بی جے پی یا کانگریس یا دیگر پارٹیوں کے پینل اگر جیت بھی گئے تو ان شمار کسی سیاسی جماعت میں نہیں ہوتا ہے کیونکہ نامزدگی کا فارم بھرتے وقت کوئی بھی امیدوار کسی بھی سیاسی پارٹی کا اندراج نہیں کرتا ہے۔ اس کے نتیجے میں منتخب ہونے والے سبھی امیدوار آزاد خیال کئے جاتے ہیں ۔پھر بھی بی جے پی ٬کانگریس ٬اجیت پوار گروپ اور شندے گروپ نے دعویٰ کیا ہے کہ انہیں کامیابی ملی ہے۔سیاسی پارٹیوں کا جیت کا دعویٰ کرنا سمجھ میں آتا ہے لیکن مختلف نیوز چینلوں نے لوک سبھا اور اسمبلی انتخابات کے نتائج کی طرز پر کون سی پارٹی نے کتنی گرام پنچایت کی سیٹیں جیتی ہیں ، کے اعداد و شمار دکھا کر خبروں سے زیادہ تفریح فراہم کرنے کا سامان کیا ہے۔پی وی نر سمہا راو کے دور حکومت میں پنچایتوں کو ۷۳؍ ویں آئینی ترمیم کے تحت اضافی اختیارات دیئے گئے تھے۔مقصد تھاکہ گاؤں کی ترقی مقامی سطح پر ہوں۔ اسلئے پورے ملک میں گرام پنچایت کے انتخابات پارٹی کے نشان پر نہیں لڑے جاتے ہیں لیکن نتائج ظاہر ہونے کے بعد حکمراں پارٹی اور حزب اختلاف دونوں دعویٰ کرتے ہیں کہ انہوں نے سب سے زیادہ سیٹیں جیتی ہیں ٬یہ رجحان ملک کی سبھی ریاستوں میں پایا جاتا ہے۔‘‘
لوک مت(۷؍نومبر)
 اخبار نے اداریہ لکھا ہے کہ ’’ریاست میں ۲؍ ہزار ۳۵۰؍ گرام پنچایتوں کے انتخابی نتائج میں بی جے پی ٬ شیوسینا(شندے) اور این سی پی(اجیت پوار) کے حکمراں اتحاد نے کامیابی حاصل کی ہے، اس کے مقابلے مہاوکاس اگھاڑی پیچھے دکھائی دے رہی ہے۔شیوسینا اور این سی پی میں پھوٹ پڑنے کے بعد سوشل میڈیا پر مسلسل حکمراں جماعت کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا لیکن حیرت انگیز طو پر دیہی علاقوں کے ووٹرس نے حکمراں محاذ کے حامی امیدواروں کو کامیابی سے ہمکنار کیا۔ یہ تصویر کا ایک رخ ہے۔ مجموعی طور پر اس رجحان کو حکمراں طبقے کی کامیابی اور اپوزیشن کی ناکامی سے تعبیر نہیں کیا جاسکتا ۔مہاراشٹر میں کل ۲۷۹۲۰؍ گرام پنچایتیں ہیں ۔ان میں سے محض ۱۰؍ فیصد گرام پنچایتوں میں انتخابات عمل میں آئے تھے۔ بنیادی طور پر یہ انتخابات پارٹی نشان پر نہیں لڑے جاتے ہیں لہٰذا نتائج کے اعداد و شمار کے حوالے سے ہمیشہ دعوے اور جوابی دعوے کئے جاتے ہیں ۔مہاراشٹر کی نصف آبادی شہروں میں رہتی ہے، اسلئے حکمراں طبقے کو زیادہ پُر جوش اور اپوزیشن کو مایوس ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔یقیناً یہ نتائج حزب اقتدار اور حزب اختلاف کو خود احتسابی کا موقع فراہم کریں گے۔ گرام پنچایت کے حالیہ نتائج کے مطابق زیادہ تر بااثر لیڈروں نے اپنے اپنے علاقوں میں اپنا تسلط برقرار رکھا ہے لیکن شرد پوار جو ایک زیرک سیاست داں ہیں ، ٬بارامتی کے اپنے قلعہ کو نہیں نہیں پائے۔اجیت پوار گروپ نے بارامتی پر اپنا تسلط قائم کرلیا ہے۔ یہ صورتحال شرد پوار کیلئے احتساب کا ہے۔‘‘
پڈھاری(۸؍نومبر)
 پنچایتی راج میں گرام پنچایت،پنچایت سمیتی اور ضلع پریشد تین مرحلوں میں انتخابات ہوتے ہیں ۔نگر پنچایت، ٬نگر پالیکا ،مہانگر پالیکا ٬اسمبلی اور لوک سبھا کے انتخابات سے جمہوریت مضبوط ہوتی ہے۔ سیاسی پارٹیوں کو انتخابات سے الگ نہیں کیا جاسکتا۔اس کے باوجود سبھی الیکشن سیاسی جماعتوں کے نشان پر نہیں لڑے جاتے ہیں ۔ودھان سبھا سے لے کر ضلع پریشد اور پنچایت سمیتی کے انتخابات میں سیاسی پارٹیاں پورا دم خم ٹھونک کر میدان میں اترتی ہیں ۔نگر پالیکا اور مہانگر پالیکا الیکشن میں مختلف پارٹیوں کے نمائندے اکٹھے ہوکر اپنا الگ اتحاد بھی قائم کرتے ہیں لیکن گرام پنچایت کے انتخابات پر نظر ڈالیں تو ۹۹؍ فیصد الیکشن مقامی سطح پر لڑے جاتے ہیں ان کا سیاسی پارٹیوں سے تعلق برائے نام ہوتا ہے۔اسلئے گرام پنچایتوں کے انتخابات کے نتائج ظاہر ہونے کے بعد سیاسی جماعتوں کی جیت کے دعوے محض دل بہلانے سے زیادہ کی اہمیت نہیں رکھتے ہیں۔‘‘

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK