Inquilab Logo

ملکی سیاست میں مسلمانوں کی حاشیائی حصہ داری؟

Updated: April 11, 2024, 5:33 PM IST | Dr Mushtaq Ahmed | Mumbai

نظر دوڑا کر دیکھ لیجئے کہ آج ملک کی کون سی ایسی جماعت ہے جو کھلےدل سے مسلمانوں کے مسائل پر لب کشائی کررہی ہے ۔

Photo: INN
تصویر : آئی این این

وطن عزیز ہندوستان میں پارلیمانی انتخابات ہوں کہ مختلف ریاستی اسمبلیوں کے انتخابات، یہ بات موضوع بحث بن جاتی ہے کہ ملک میں دن بہ دن مسلم اقلیت کی سیاسی حصہ داری کم ہوتی جا رہی ہے۔ بالخصوص پارلیمانی انتخاب میں پارلیمنٹ تک پہنچنے والے مسلمانوں کی تعداد متواتر کم ہوتی جار ہی ہے اور یہی حال مختلف ریاستوں کی اسمبلیوں کا بھی ہے۔ظاہر ہے کہ یہ بحث عین اس وقت شروع ہوتی ہے جب انتخابی موسم آتا ہے   بعد میں اس پر غور ہی نہیں ہو تا۔ 
 دراصل ملک میں اس طرح کا سیاسی ماحول دوچار برسوں میں نہیں بنا ہے بلکہ گزشتہ تین دہائیوں کے سیاسی منظر نامہ پر نگاہ ڈالئے تو خود بخود یہ حقیقت عیاں ہو جاتی ہے کہ آخر کارمسلم اقلیت کے ساتھ اس طرح کا رویہ کیوں کر اپنایا جا رہا ہے۔ میرے خیال میں سیاسی جماعتوں کے ذہنی تعصبات وتحفظات کے ساتھ ساتھ خود مسلم اقلیت کے جذباتی رویے اور غیر جمہوری طرزِ عمل نے بھی اسے اس حال تک پہنچایا ہے۔ جمہوریت کی سب سے بڑی خوبصورتی یہ ہے کہ اس میں اعداد وشمار کو غیر معمولی اہمیت حاصل ہے اور ہر فرد کورائے دہندگی کا مساوی حق ہے۔جمہوریت کا تقاضہ یہ ہے کہ رائے دہندہ اعلانیہ طورپر ووٹ نہیں کرتا بلکہ خفیہ ووٹنگ لازمی ہے۔لیکن اگر کسی طبقے کے متعلق یہ بات عام ہو جاتی ہے کہ فلاں طبقہ فلاسی سیاسی جماعت کو ہی ووٹ دیتا ہے توظاہر ہے کہ دوسری سیاسی جماعت کا اس طبقے سے نا امید ہونا  اور اس کے تئیں عدم توجہی فطری عمل ہوگا۔المیہ یہ ہے کہ گزشتہ چار دہائیوں میں ہندوستانی مسلم اقلیت نے جانے انجانے کچھ اس طرح کی اپنی سیاسی شبیہ بنالی  ہے کہ اس پر مختلف علاقائی سیاسی جماعتوں کی مہر لگ گئی ہے۔اگرچہ یہ بات صد فیصد درست نہیں  ہے کہ تمام مسلم طبقہ کسی ایک ہی جماعت کو ووٹ دیتا  ہے لیکن اس تلخ سچائی سے تو انکار نہیں کیا جاسکتا کہ مسلم طبقہ ایک خاص سیاسی جماعت کے خلاف ماحول سازی میں پیش پیش رہا ہے۔کسی بھی جمہوری ملک میں اقلیتی طبقے کا اس طرح کاسیاسی قدم ہمیشہ اس کیلئے مضر ثابت ہو تا ہے۔
  ہندوستان میں مسلمانو ں کے خود ساختہ لیڈروں نے مسلمانوں کی کچھ ایسی شبیہ بنا دی ہے کہ اس کا خمیازہ مسلم اقلیت کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔حالیہ پارلیمانی انتخاب میں ملک کی حکمراں سیاسی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی نے صرف ایک مسلم امیدوار کو ٹکٹ دیا ہے۔ اس نے کیرالا کے کالی کٹ یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر کو اپنا امیدوار بنایا ہے۔  
 بہار میں راشٹریہ جنتا دل کی طرف سے اعلانیہ طورپر مسلم اور یادو یعنی ’مائی‘مساوات کو اپنی جیت کے لئے مستحکم کرنے کی وکالت کی جاتی رہی ہے۔مگر تلخ سچائی یہ ہے کہ اس مبینہ مائی سمیکرن کی وجہ سے بہار میں مسلم اقلیت کی سیاست کو خسارہ پہنچا ہے۔ نتیجہ  یہ ہے کہ اس پارلیمانی انتخابات میں این ڈی اے نے ریاست کے چالیس پارلیمانی حلقوں میں صرف جنتا دل متحدہ کی فہرست  سے کشن گنج سے ایک مسلم امیدوار کھڑا کیاہے۔جہاں تک ’انڈیا‘ اتحاد کا سوال ہے تو اب تک کانگریس نے دو اور راشٹریہ جنتا دل نے دو مسلم امیدوار کے ناموں کا اعلان کیا ہے۔ بہار میں حالیہ ذات پر مبنی مردم شماری میں انکشاف ہو چکا ہے کہ کس برادری کی کتنی فیصد آبادی ہے لیکن  افسوسناک صورتحال  یہ ہے کہ ریاست میں تقریباً ۱۸؍فیصد آبادی والے مسلمانوں کے مقابل تین چار فیصد آبادی والی مختلف برادریوں کے امیدواروں کی تعداکہیں زیادہ ہے۔ہر پارلیمانی اور ریاستی  انتخاب کی طرح اس بار بھی مسلم اقلیت کو سیاسی جماعتوں کے ذریعہ نظر انداز کئے جانے پر ہائے توبہ ہورہی ہے لیکن اس کا حاصل مایوسیوں کے سوا کچھ بھی نہیں۔ ظاہر ہے کہ جب کوئی طبقہ خود کو  بے وزن کردیتا ہے تو پھر اکثریتی طبقہ بھی اس کی فکر چھوڑ دیتا ہے۔ ہندوستانی مسلمانوں کے ساتھ بھی اگر آج ہر بڑی سیاسی جماعت فاصلہ بنانا چاہتی ہے تو اس کی وجہ صرف اور صرف مسلمانوں کی جذباتی سیاست ہے۔
 اس تلخ سچائی سے تو انکار نہیں کیا جا سکتا کہ شمالی ہند میں خصوصی طورپر اتر پردیش میں مسلمانوں کی اکثریت اعلانیہ طورپر سماجوادی پارٹی کے ساتھ ہونے کا نعرہ بلند کرتی ہے تو بہار میں راشٹریہ جنتا دل کے لئے مر مٹنے کا مظاہرہ کرتی ہے۔ مغربی بنگال میں ممتا پر جاں نثار کرتی ہے تو کرناٹک میں کانگریس کے لئے پرچم بلند کرنے کا دعویٰ کرتی ہے جبکہ جمہوری تقاضہ یہ ہے کہ رائے دہندگی کے عمل میں پوشیدگی لازم ہے۔مگر آزادی کے ۷۷؍برسوں کے بعد بھی ہندوستانی مسلمانوں نے جمہوریت کے اس تقاضے کو بالائے طاق ہی  رکھا ہواہے۔نتیجہ یہ ہے کہ دیگر سیاسی جماعتوں نے مسلمانوں کو بھی ہندوستانی سیاست میں اچھوت بنا کر حاشیائی حصہ داری تک محدود کردیا ہے۔جہاں تک فرقہ وارانہ سیاست کا سوال ہے تو اب فرقہ واریت ہماری سیاست کا لازم وملزوم حصہ بن گئی ہے۔اس لئے اگر مسلم طبقہ اس جمہوری ملک میں اپنے آئینی حقوق اور سیاسی حصہ داری کا مطالبہ کرتا ہے تو اسے جمہوری تقاضوں کو بھی پورا کرنے کی کوشش کرنی چاہئے ورنہ آج ہم جس مقام تک پہنچے ہیں ممکن ہے کہ کل مزید پستی کے شکار ہو جائیں۔
 یہ تلخ حقیقت بھی جگ ظاہر ہے کہ ملک کی ایک بڑی سیاسی جماعت مسلم اقلیت کو طرح طرح سے نشانہ بنا کر اکثریتی طبقے کو متحد کرتی ہے اور دیگر علاقائی جماعتیں محض اس لئے خاموش ہیں کہ انہیں بھی اپنے ووٹ بینک کی فکر ہے۔مسلم  طبقے کو شاید یاد ہو کہ ۲۰۱۴ءمیں کانگریس نے اپنی شکست کی وجوہات جاننے کے لئے  انٹونی کمیٹی بنائی تھی۔ اس کمیٹی نے یہ خلاصہ کیا تھا کہ مسلمانوں کے تئیں نرم رویہ رکھنے کی وجہ سے کانگریس کی شکست ہوئی ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ رپورٹ صرف اور صرف کانگریس کو ہی نہیں بلکہ دیگر سیاسی جماعتوں کو بھی ہوشیار کرنے والی ثابت ہوئی۔ نظر دوڑا کر دیکھ لیجئے کہ آج ملک کی کون سی ایسی جماعت ہے جو کھلے دل سے مسلمانوں کے مسائل پر لب کشائی کررہی  ہے۔اس لئے مسلم طبقے کو سنجیدگی کے ساتھ اس مسئلے پر غور کرنا ہوگا کہ ایک جمہوری ملک میں ایک اقلیت کا کردار کیا ہونا چاہئے۔اب بھی وقت ہے کہ مسلم اقلیت اپنی پیشانی پر کسی خاص سیاسی جماعت کا بد نما داغ لے کر جذباتیت کے علمبردار نہ بنے بلکہ ملک کی دیگر اقلیتوں کی طرح اپنی جمہوری حیثیت تسلیم کرانے کے عمل میں مصروف رہے اور اپنے درمیان کے انتشا رپر قابو پانے کے نسخۂ کیمیا کو اپنائیں کہ کسی بھی جمہوری ملک میں اقلیتی طبقے کے ووٹوں کا منتشر ہونا،اس ملک کی سیاست میں اس  کی بے وزنی کا آلہ ثابت ہوتا ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK