Inquilab Logo

غلام بنائے رکھنے کے جدید ہتھکنڈے

Updated: December 12, 2019, 10:11 PM IST | Jamal Rizvi

یہ ایک بڑی سچائی ہے کہ اقتدار خواہ وہ ماضی کا ہو یا کہ اس زمانے کا ، عوام کو بعض ایسی پابندیوں میں رکھنے کا خوگر ہوتا ہے جو انھیں اقتدار کی مرضی کا تابع بنائے رکھے۔ ماضی کے دور غلامی میں اقتدار اور عوام کے مابین تعلق کی جو نوعیت تھی وہ اس زمانے میں ناممکن ہے تاہم ارباب اقتدار بڑی عیاری کے ساتھ بعض ایسے طریقے ایجاد کر لیتے ہیں کہ عوام کے اندر اپنے آزاد ہونے کا احساس بھی باقی رہے اور وہ اقتدار کی مرضی کو تسلیم کرنے پر مجبور بھی ر ہیں

(سیاسی ریلی ( تصویر: جاگرن
(سیاسی ریلی ( تصویر: جاگرن

عوام اور اقتدار کے مابین تعلقات کے ضمن میں اس وقت یہ سوچنا بھی بڑا عجیب سا معلوم ہوتا ہے کہ کسی بھی ملک کا سیاسی نظام عوام کو غلام بنائے رکھنے کا خواہاں ہوگا۔ عالمی معاشرتی صورتحال میں عوام کے حقوق و اختیارات کے تناظر میں اگر اس باہمی تعلق کا تجزیہ کیا جائے تویہ کہا جا سکتا ہے کہ دنیا کے مختلف ملکوںکے انسانی سماج کو اس وقت جو حقوق و اختیارات حاصل ہیں، وہ ان کو ایک خوشحال اور متمول زندگی گزارنے کی ضمانت دیتے ہیں۔ اس ضمانت کو یقینی بنانے کی خاطر ایسے ادارے بھی قائم کئے گئے ہیں جن کا مقصد حقوق انسانی کو تحفظ فراہم کرنا ہے۔ سیاسی افکار و نظریہ کے اختلاف کے باوصف اس معاملے میں دنیا کے ہر ملک میں صا حبان اقتدار کے ذریعہ مسلسل یہ باور کرانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ وہ اپنے شہریوں کیلئے زندگی کی بنیادی ضرورتوں کی حصول یابی کو آسان بنانے میں سرگرم ہیں۔ عوام کیلئے زندگی کی بنیادی ضرورتوں کی فراہمی سے متعلق ارباب اقتدار کے ایسے دعوؤں کو اگر تسلیم کر بھی لیا جائے تو یہ سوال بہرحال باقی رہتا ہے کہ اقتدار کے نزدیک عوام کی خوشحالی اور تمول کا تصور کیا ہے؟ کیا عوام کے روزگار، تعلیم، صحت اور رہائش سے وابستہ مسائل کو حل کردینا ہی کافی ہے یا کہ انھیں ایک ایسا خوشگوار آزادانہ ماحول بھی فراہم کرنا ضروری ہے جو واقعی انھیں ایک خوشحال اور ترقی یافتہ زندگی جینے کا احساس عطا کر سکے؟
 اس سوال پر غور کرنا اسلئے بھی ضروری ہے کہ عہد حاضر کا انسانی سماج جن حوالوں کی بنیاد پر ماضی کے مقابلے زیادہ ترقی یافتہ تسلیم کیا جاتا ہے، ان میں ایک اہم اور بنیادی حوالہ انسان کوحاصل وہ آزادی ہے جس نے اسے سماجی و معاشی اعتبار سے مؤقر اور معزز زندگی گزارنے کی نعمت عطا کی ہے۔ آزادی کی یہ نعمت اسے سماجی و معاشی سطح پر ایک پروقار مرتبہ کا حامل بناتی ہے اور ساتھ ہی اس کے افکار و افعال کو وہ کشادگی اور بلندی عطا کرتی ہے جو عہد حاضر کے انسانی سماج کے ترقی یافتہ ہونے کے تصورکو اعتبار عطا کرتی ہے۔ جہاں تک عوام کی خوشحالی اور ترقی کا سوال ہے تو ارباب اقتدار کی جانب سے اس ضمن میں جو بھی کوششیں جاری ہیں وہ بھی مکمل طور پر باریاب نہیں ہوتیں۔  ان کوششوں کی ناکامی ہی کا نتیجہ ہے کہ اس ترقی یافتہ دور میں بھی مختلف ملکوں کے عوام بھوک و افلاس اور تعلیم و صحت کے مسائل سے نبرد آزما ہیں۔ عوام کو سہولت فراہم کرنے کے سلسلے میں اقتدار کی ان کوششوں کی ناکامی کے کئی اسباب ہیں، تاہم یہ کہا جا سکتا ہے کہ عوام کا ایک بڑا طبقہ جو کل تک زندگی گزارنے کے وسائل سے بڑی حد تک محروم تھا ،آج زندگی کی نعمتوں سے فیضیاب ہور ہا ہے ۔ اس حقیقت کے باوجود یہ سوال بہرحال باقی رہتا ہے کہ عوام کی آزادی کے متعلق ارباب اقتدار کے ذریعہ جو شہرہ کیا جاتا ہے کیا واقعی اس کی وہی حقیقت ہے جو ارباب اقتدار کی تشہیر میں نظر آتی ہے ؟ یا کہ اس تشہیری عمل اور زمینی حقائق میں کوئی فرق ہے؟
  اگر اس حوالے سے عالمی انسانی معاشرہ کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات بڑی آسانی سے سمجھ میں آجاتی ہے کہ مقتدر طبقہ اس سلسلے میں جو تشہیری اقدامات کرتا ہے، اس میں اپنے تحفظات اور مفادات کو بیشتر پیش نظر رکھتا ہے۔ یہ طبقہ اپنے تحفظات اور مفادات کو بہر طور ترجیح دینے کا خو گر ہوتا ہے اسی لئے انسانی آزادی کے سلسلے میں بعض ایسے مفروضات بھی وضع کر لئے جاتے ہیں جنھیں قوم پرستی اور وطن سے محبت کے نام پر جائز ٹھہرانے کی کوشش کی جاتی ہے۔چونکہ ان مفروضات کی تشکیل میں قوم اور وطن جیسے اہم اور حساس حوالوں کا استعمال کیا جاتا ہے لہٰذا اکثر و بیشتر عوام بھی یہ تسلیم کر لیتے ہیں کہ اقتدار کی جانب سے جو کچھ کیا یا کہا جا رہا ہے وہ ملک و قوم اور خود ان کی فلاح و بہبود کیلئے ناگزیر ہے۔عوام کی اسی نفسیات کا فائدہ اٹھاکر اقتدار انھیں اپنے بنا کردہ تصورات کے دائرے میں زندگی گزارنے کی تلقین کرتا ہے۔ ایسی صورت میں یہ بھی ہوتا ہے کہ مقتدر طبقہ جس خاص طرز حیات یا آئیڈیالوجی پریقین رکھتا ہے اسے ہی واحد حقیقت کے طور پر پیش کرتا ہے اور عوام سے اس کی تصدیق چاہتا ہے۔        
 عوامی زندگی میں اس صورتحال کا مشاہدہ وطن عزیز میں گزشتہ پانچ چھ برسوں سے مسلسل کیا جا رہا ہے۔افسوس کی بات یہ ہے کہ انسانی آزادی کے نام پر ملک کے ایک خاص طبقے کو جو آسانیاں اور سہولتیں حاصل ہیں، دوسرے کئی طبقات ان سے محروم ہیں ۔ اس کے علاوہ حقوق انسانی کے تحفظ اور سماج کے ہر فرد کیلئے ان حقوق کی حصول یابی کو یقینی بنانے کی کوششوں کے باوجود انسانی معاشرہ میں یہ امتیاز بہت آسانی سے دیکھا جا سکتا ہے۔اس ضمن میں ایک دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ عوام جن سہولتوں کو اپنی آزادی کی علامت تصور کرتے ہیں اب ان وسائل اور ذرائع کو بھی ارباب اقتدار اپنی مرضی کا تابع بنانے کی کوششوں میں سرگرم ہیں۔ اس ضمن میں عہد حاضر کی اس تکنیکی ترقی کا حوالہ دیا جا سکتا ہے جس نے انسانوں کو اپنے افکار و خیالات کے اظہار کی وہ سہولت اور آزادی فراہم کی ہے کہ وہ انفرادی اور اجتماعی زندگی سے وابستہ معاملات و مسائل پر اپنا موقف بغیر کسی دباؤ کے پیش کر سکتا ہے۔ اگر ماضی کے انسانی معاشرے کے حوالے سے انسانوں کو حاصل اس آزادی پر نظر ڈالی جائے تو بلاشبہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ ایک ایسی سہولت ہے جس سے ماضی کا انسانی معاشرہ محروم تھا۔ سابقہ زمانے میں اقتدار کے ذریعہ عوام کے استحصال میں اس محرومی کا بھی بڑا کردار ہوا کرتا تھا۔ اب جبکہ یہ صورتحال تبدیل ہو چکی ہے توبھی پورے وثوق کے ساتھ یہ نہیں کیا جا سکتا کہ عوام کے استحصال کا سلسلہ ختم ہو گیا ہے۔
 زمانے کی تبدیلی کے ساتھ جس طرح ہر شے میں تبدیلی فطری عمل کی حیثیت رکھتی ہے، اسی طرح انسانی رویہ اور افکار میں بھی تبدیلی کا ہونا ناگزیر ہے۔ اس کے باوجود یہ ایک بڑی سچائی ہے کہ اقتدار خواہ وہ ماضی کا ہو یا کہ اس زمانے کا ، عوام کو بعض ایسی پابندیوں میں رکھنے کا خوگر ہوتا ہے جو انھیں اقتدار کی مرضی کا تابع بنائے رکھے۔ ماضی کے دور غلامی میں اقتدار اور عوام کے مابین تعلق کی جو نوعیت تھی وہ اس زمانے میں ناممکن ہے تاہم ارباب اقتدار بڑی عیاری  کے ساتھ بعض ایسے طریقے ایجاد کر لیتے ہیں کہ عوام کے اندر اپنے آزاد ہونے کا احساس بھی باقی رہے اور وہ اقتدار کی مرضی کو تسلیم کرنے پربھی مجبور رہیں۔ 
 اس سلسلے میں ان وسائل اور ذرائع کا حوالہ دیا جاسکتا ہے جوسائنس و تکنیک کی حیرت انگیز اختراعات ہیں اور جن کے استعمال سے انسان کے اندر اپنے آزاد ہونے کاتصور قدرے مستحکم ہو جاتا ہے ۔اب اقتدار نے ان ذرائع اور وسائل کو ایسے ضابطوں کا پابند بنا دیا ہے کہ ان کی پیروی کئے بغیر عوام کے پاس کو ئی چارہ نہیں۔ ملک اور معاشرہ کی سالمیت اور خوشحالی کیلئے بعض ضابطوں اور اصولوں کی پابندی کوئی غلط بات نہیں اور ایک ذمہ دار شہری ان پابندیوں کو بخوشی قبول بھی کر لیتا ہے لیکن جب اقتدار خود ان ضابطوں اور اصولوں میں اپنے مفاد کی خاطر سیندھ ماری کرتی ہے تو بات کچھ سمجھ میں نہیں آتی۔ اور ایسے موقع پر بالآخر یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ اقتدار اور عوام کے مابین تعلق میں اقتدار بہر صورت اپنی بالادستی کو قائم رکھنا چاہتا ہے ۔ قدیم زمانے میں یہ بالادستی باقاعدہ فکر و عمل کی غلامی کی صورت میں ظاہر ہوتی تھی اور اب جبکہ حق جمہور کے نام پر عوام کو فکر و عمل کی کسی حد تک آزادی میسر ہے تو یہ بالادستی دوسری صورتوں میں ظاہرہورہی ہے۔اس بالادستی کے مظاہر وطن عزیز میں گزشتہ کچھ برسوں میں اس طور سے ظاہر ہو ئے ہیں کہ عوام کے کھانے پینے، پہننے،بولنے کو ایک خاص طرز کا حامل بنانے کی کوشش کی جاتی رہی ہے۔ بہ ظاہر اقتدار اگر چہ ان کوششوں میں براہ راست ملوث نہ رہا ہو تو بھی اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ اس نوعیت کی جو کوششیں ہوتی رہی ہیں ان میں کسی نہ کسی سطح پر اقتدار کی رضا مندی بھی شامل رہی ہے۔
 ان حالات کے پیش نظر یہ کہنا کچھ غلط نہ ہوگا کہ طرز حکومت کوئی بھی ہو، اقتدار عوام پر اپنی بالادستی کے تصور کو زائل نہیں ہونے دینا چاہتا۔ اسے اقتدار کی سائیکی سے بھی تعبیر کیا جا سکتا ہے ۔ ورنہ کیا سبب ہے کہ ایک جمہوری طرز حکومت میں عوام کا ایک خاص طبقہ یا بعض طبقات عدم تحفظ کی کیفیت میں مسلسل مبتلا رہیں ۔ یہ کیفیت بہرحال انسان کے سماجی اور معاشی ارتقا میں رخنہ اندازی کرتی ہے اور اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ انسانی مساوات کا وہ تصور ہی ناقص ٹھہرتا ہے جو عہد حاضر کے انسانی معاشرہ کی شناخت کا نمایاں حوالہ ہے۔اس معاملے میں اقتدار ان ذرائع اور وسائل کا استعمال بھی اپنی منشا کے مطابق کرتا ہے جن ذرائع اور وسائل کے استعمال سے عہد حاضر کا انسان خود کو آزاد تصور کرتا ہے ۔ ان حالات کے پیش نظر یہ کہا جا سکتا ہے کہ اقتدار نے عوام کو غلام بنائے رکھنے کے وہ جدیدطریقے ایجاد کر لئے ہیں جو انھیں آزاد ہونے کا احساس دیتے رہیں اور ساتھ ہی اقتدار کی خواہشوں اور توقعات کی تکمیل کی راہ بھی ہموار کرتے رہیں۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK