مدھیہ پردیش(ایم پی) اسمبلی انتخابات کیلئے، جن کا اعلان ابھی نہیں ہوا ہے، بی جے پی نے مرکزی وزراء اور اراکین پارلیمان تک کو اسمبلی الیکشن لڑنے کی زحمت دے کر ہر خاص و عام کو حیران کردیا ہے۔ کیا اس میں کوئی پیغام ہے یا بزعم خود یہ شکست کو فتح میں بدلنے کی کوشش ہے؟
شیوراج سنگھ چوہان۔تصویر:آئی این این
مدھیہ پردیش(ایم پی) اسمبلی انتخابات کیلئے، جن کا اعلان ابھی نہیں ہوا ہے، بی جے پی نے مرکزی وزراء اور اراکین پارلیمان تک کو اسمبلی الیکشن لڑنے کی زحمت دے کر ہر خاص و عام کو حیران کردیا ہے۔ کیا اس میں کوئی پیغام ہے یا بزعم خود یہ شکست کو فتح میں بدلنے کی کوشش ہے؟ ان دونوں ہی سوالوں کا جواب اثبات میں ہے۔ حکمراں جماعت کا مقصد یہ ہے کہ ریاست کے وزیر اعلیٰ اور پارٹی کے سینئر لیڈر شیو راج سنگھ چوہان کے خلاف عوام کے ہر طبقے میں پائی جانے والی بے دلی اور بے اطمینانی سے نمٹا جائے۔ ا س کیلئے ضروری سمجھا گیا کہ مختلف طریقوں سے عوام کو یقین دلایا جائے کہ فکر مت کیجئے، اب شیو راج سنگھ چوہان کو وزیر اعلیٰ نہیں بنایا جائیگا۔ اسی لئے نریندر سنگھ تومر اور کیلاش وجیہ ورگیہ جیسے پارٹی کے بڑے ریاستی لیڈروں کو ٹکٹ دیا گیا۔ یہ لیڈران وزارت اعلیٰ کے اُمیدوار ہونے کی اہلیت رکھتے ہیں اور اگر پارٹی کو غیر متوقع طور پر کامیابی مل گئی تو مرکز انہی میں سے کسی کو وزیر اعلیٰ بنانا چاہے گا۔کیا یہ فیصلہ عوام کو احمق سمجھنے کی کوشش نہیں ہے؟ کیا عوام اتنا بھی نہیں جانتے کہ ریاست کی جس حکومت کا چہرا شیو راج سنگھ چوہان تھے، وہ کسی اور کی نہیں بی جے پی کی تھی یعنی اگر ریاست کے عوام ناراض ہیں تو یہ صرف شیو راج سنگھ کا قصور نہیں اُس بی جے پی کا بھی ہے جس سے شیو راج سنگھ کا تعلق ہے۔ پارٹی نے کیوں نہیں دیکھا کہ ریاست کا وزیر اعلیٰ مبینہ طور پر بدعنوانی کی سرپرستی کررہا تھا، عوام کی توقعات پر پورا نہیں اُتر رہا تھا اور پارٹی کی ساکھ کو کمزور کررہا تھا؟ بی جے پی کی اعلیٰ قیادت تو اَب سے پہلے تک اُن کی خدمات کا اعتراف کررہی تھی، اس نے اب سے پہلے شیو راج کی غیر فعالیت کا نوٹس کیوں نہیں لیا؟ گجرات میں پوری روپانی سرکار کو بے دخل کردیا گیا تھا تاکہ عوام میں پائی جانے والی بے دلی اور بے کیفی سے نمٹا جائے۔ بجا یا بے جا، یہ کام ایم پی میں کیوں نہیں کیا گیا؟
کم و بیش دو دہائیو ں سے جاری شیو راج حکومت کے خلاف عوام کی بے دلی اور ناراضگی کم کرنے کے مقصد سے پیر کو جب وزیر اعظم نے ہندوستان کا دل کہلانے والی ریاست میں رَیلی سے خطاب کیا تب شیو راج سنگھ کا نام لینا گوارا کیا نہ ہی ’’لاڈلی بہنا‘‘ جیسی اُن کی اسکیموں کا تذکرہ کیا۔ یہ اپنے ہی ایک سینئر لیڈر کی توہین ہے جس نے پارٹی کے ساتھ کئی دہائیاں گزاری ہیں ۔ آپ سوچیں گے کہ شیو راج سنگھ چوہان نے اس ’’اَپمان‘‘ کا بُرا کیوں نہیں مانا جسے ’’گھور اپمان‘‘ بھی کہا جاسکتا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ’’ماما‘‘ کہلانے والے شیوراج سنگھ میں اب بُرا ماننے کی جرأت بھی نہیں ہے۔ وہ سراسر پارٹی کے رحم و کرم پر ہیں ۔
ویسے، سیاسی نقطۂ نظر سے ’’بُرا کیوں نہیں مانا؟‘‘ سے بڑا سوال یہ ہے کہ کیا شیو راج سنگھ کو ٹکٹ ہی سے محروم رکھا جائیگا؟ کیا پارٹی کا ارادہ اُنہیں ’’مارگ درشن منڈل‘‘ میں بھیجنے کا ہے؟ اس سوال کا جواب عنقریب مل جائیگاجب باقیماندہ انتخابی حلقوں کے اُمیدواروں کا اعلان ہوگا البتہ آثار بتا رہے ہیں کہ بالفرض محال بی جے پی الیکشن جیت جائے تب بھی شیو راج سنگھ کو وزیر اعلیٰ نہیں بنائے گی، اس لئے اُنہیں وزارت سے مستعفی یا سیاست سے سبکدوش ہوجانا چاہئے۔ اُن کے پاس یہی ایک طریقہ اپنی بچی کھچی عزت اور ساکھ کے تحفظ کا ہے مگر طے ہے کہ یہ نہیں ہوگا۔ وہ اقتدار سے علاحدگی کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ ویاپم جیسی پُرانی فائلیں کھل گئیں تو؟