Inquilab Logo

نینسی پیلوسی کی ڈائری

Updated: January 24, 2021, 8:29 PM IST | Abu Ikhlas

گاڑی پورٹیکو میں داخل ہوئی تو میرے پانچوں بچے اپنے ڈیڈی کے ساتھ باہر کھڑے نظر آئے۔ میں نے حیرانی سے پوچھا کہ آپ یہاں کیا کررہے ہیں؟’’ہم ایک ساتھ اس تاریخی سیشن کو دیکھنے آئے تھے اور اب آپ کو اپنے کندھوں پر اٹھاکر اندر لے جائیں گے۔‘‘یہ کیا بچکانہ حرکت ہے

Nancy Pelosi .Picture :INN
نینسی پیلوسی ۔ تصویر:آئی این این

ٹرمپ نے خود ہی اپنے آپ کو بےنقاب کرلیا
گاڑی پورٹیکو میں داخل ہوئی تو میرے پانچوں بچے اپنے ڈیڈی کے ساتھ باہر کھڑے نظر آئے۔ میں نے حیرانی سے پوچھا کہ آپ یہاں کیاکررہے ہیں؟’’ہم ایک ساتھ اس تاریخی سیشن کو دیکھنے آئے تھے اور اب آپ کو اپنے کندھوں پر اٹھاکر اندر لے جائیں گے۔‘‘یہ کیا بچکانہ حرکت ہے  ۔ تمہیں پتہ نہیں کہ تم سب بڑے ہوگئے ہو اور تمہاری ممّی اسّی سال کی ہوچکیں۔’’ اوہ ،  ممّا، کم آن۔ آج آپ نے امریکہ کی تاریخ مرتب کی ہے اوراس کیلئے جشن منانا ضروری ہے۔‘‘پلیز بیٹا، میں بری طرح تھک گئی ہوں اور اب فریش ہوکر  دوگھڑی سونا چاہوں گی۔ یہ بچوں کے ڈیڈی کی آواز تھی۔ میں مسکرا کر رہ گئی۔ اپنا بیگ کونے میں رکھا اوردن بھر کی تھکن اتارنے کیلئے صوفے پر گرپڑی۔ دن بھر کی ساری تقریریں ذہن سے پھسلنے لگی تھیں ۔ پتہ نہیں کیوں، دو منٹ کیلئے ہی سہی، ہر سینیٹر کچھ نہ کچھ بولنا چاہتا تھا۔ میں ان سے کہنا چاہتی تھی کہ بولنے کی کیا ضرورت ہے، جب ساری دنیا ٹرمپ کی بدمعاشیاں دیکھ چکی ہے ۔ اب اپنے ووٹ سے اسے نکال باہر کرو اور بس ۔ مواخذے  کی اس کارروائی کو جلد سے جلد اسلئے بھی نبٹانا ہے کہ موصوف تاحیات پنشن (ماہانہ۲؍ لاکھ ڈالر)، سفری الاؤنس (سالانہ ایک ملین ڈالر) سیکرٹ سروس کی خدمات اور دوبارہ الیکشن لڑنے کی سہولت سے ہمیشہ کیلئے محروم ہوجائیں ۔ ویسے بھی صدر کے غیرجمہوری اقدامات ، جھوٹ پر مبنی بیانات ، جارحانہ مزاج  اور اقتدار سے چمٹے رہنے کے جذبے نے انہیں پہلے ہی بے نقاب کردیا ہے۔ اگر سینیٹ نے ایسے نااہل کو معزول کردیا توامریکی جمہوریت کی بنیاد یںمستقبل میںمستحکم رہیں گی ورنہ اس شخص کےپیدا کردہ حالات سے  امریکہ میں زلزلہ آجائے گا۔ پتہ نہیں میں کیا سوچتی رہی تھی یا نیند میں کیا بڑبڑاتی رہی تھی کہ ان کی آواز نے مجھے بیدار کردیا۔ تشویش ناک لہجے میں کہہ رہے تھے، ’’آپ ٹھیک تو ہیں  ابھی تک سینیٹ کی اسپیکر بنی ہوئی ہیں؟‘‘
کیا اب یہاں بھی قانون کی حکمرانی نہیں رہی؟
  سینیٹ نےاس سارے ہنگامے کی تفتیش کیلئے انکوائری کمیشن قائم کردیا ہے۔ فاضل ججوں کے سامنے جو حقائق بیان ہورہے ہیں، اس سے لگتا ہے کہ یہ ہنگامہ بڑی عیاری سے پلان کئے گئے تھے۔ حیرت اس بات پر ہے کہ ریپبلکن پارٹی کے اراکین تک اس ہنگامے میں ملوث تھے.... اور تو  اور، مقامی پولیس کا عملہ بھی اس سازش میں شریک تھا۔ رہ رہ کر یہ خیال آتا ہے کہ اگریہ درندے کھڑکیاں اور دروازے توڑ کر ایوان میں داخل ہوجاتے تو اراکین پارلیمنٹ پر کیا گزرتی؟ اس پر بھی ریپبلکن پارٹی کے صرف ۱۰؍ ممبران نے اپنے صدر کے خلاف ووٹ دیا اور باقی حضرات مصلحتاً چپ رہے ۔ کچھ نے مجھ سے کہا کہ غنڈوں کے ڈر سے انہوںنے ووٹ نہیں دیا۔ انہیں ڈر تھا کہ کہیں انہیں نشانہ  نہ بنایا جائے۔  افسوس! امریکی صدر اس سطح پر پہنچ گئے ہیں کہ اپنے مخالفین کو غنڈوں کی مدد سے دھمکانے لگے ہیں۔ اب سمجھ میں آتا ہے کہ ان بدمعاشوں نے ایوان کی عمارت میں داخل ہوکر میرے خلاف کیوں نعرے لگائے تھے اور میری آفس میں کیوں توڑ پھوڑ کی تھی؟ اپنے ہاتھوں میں اسلحہ اٹھائے جنونیوں کی  اس بھیڑ نے راہداری کے مجسمے توڑے ، تصاویر تباہ کیں اور ہرچیز کو تہس نہس کرکے رکھ دیا، محافظوں کی گولیوں سے چار افراد کے ساتھ ایک پولیس اہلکار بھی جاں حق ہوا ہے جس کا خون صدر محترم کے سرجائے گا۔ پارٹی کے جھنڈے اٹھائے ایوان کی عمارت کو پھلانگتے ہوئے ان جنونیوں کو ساری دنیا نے دیکھا ہے مگر عمارت کے  اندر گھس کر جوتباہی مچائی گئی اور جس طرح کی زبان استعمال کی گئی، وہ ناقابل بیان ہے۔ کیا یہ وہی جمہوریت ہے جس کا دبدبہ کل تک ساری دنیا پر قائم تھا؟ کیا یہ وہی ملک ہے جو کل تک قانون کی حکمرانی کیلئے جانا جاتا تھا؟ مساوات اور برابری کی باتیں کرنے والے ملک نے ساری دنیا کو بتادیا کہ ہم بھی آپ ہی کی طرح ہیں۔ ہم بھی اپنے حکمرانوں کی اندھی تقلید کرتے ہیں، ہم بھی اپنے دستوری اداروں کو مسمار کرنے میں ماہر ہیں، ہم بھی پولیس کو اپنے مفادات کیلئے استعمال کرتےہیں اور قانون کی حکمرانی کو روند کر بزور طاقت اپنے اقتدار کو باقی رکھتے ہیں۔ میں تویہ سوچ کر پریشان ہوں کہ جب امریکہ کا نیا صدر حلف لینے کھڑا ہوگا تو دیگر ریاستی مراکز میں کتنےفوجی اورکتنے پولیس امریکہ کی حفاظت کریں گے اور کتنے اس کی بنیادیں اکھاڑنے میں سرگرم ہوں گے؟ آج ایوان کے آس پاس کا علاقہ فوجی چھاؤنی میں تبدیل ہوچکا ہے۔ قدم قدم پر تلاشی لی جارہی ہے۔ ایوان کے کونے کونے میں فوجی رائفلیں تانے کھڑے ہیں لیکن کسی نے اُن پاگل اسلحہ برداروں کا بھی سوچا ہے جو پولیس اور فوجیوں کی صفوں میں گھس کر جمہوریت کا خون کرنے کے درپے ہیں؟
اب میں گمنام فون سے نہیں گھبراتی
 اپنی اسٹڈی میں کچھ کتابیں دیکھ رہی تھی کہ اچانک فون کی گھنٹی بجی۔  اسکرین دیکھا تو حیران رہ گئی۔ یہ کوئی نیا نمبر تھا۔ میرے موبائل پر اجنبیوں کے فون نہیں آتے۔ مجھے گھر والے اور شناساہی فو ن کرتے ہیں اور ان کے نام کے ساتھ ان کی تصویریںبھی اسکرین پر دکھائی دیتی ہیں۔ پھر یہ  Unlisted نمبر میرے فون پر کیسے آگیا؟ میں نے احتیاطاً یہ فون نہیں اٹھایا۔ تھوڑی دیر بعد اُسی نمبر سے دوبارہ فون بجنے لگا۔ اب کی بار میں نے فون اٹھاکر صرف ریسیو کا بٹن دبایا۔ دوسری طرف سے کسی بدتمیز کی آواز سنائی دی۔ ’’نینسی ، تم نہیں بچ سکتیں‘‘ میں چپ رہی۔ اس نے بات جاری رکھی۔ ’’ہمارے راستے میں جو بھی آئے گا اسے ختم کردیاجائے گا۔ جب ہم آفس  میں گھس سکتے ہیں تو گھر میں گھسنا کون سا مشکل کام ہے‘‘ میں نے فون بند کردیا۔ خوف کی ایک لہرمیرے وجود میں ابھرنے لگی۔ کیا اب یہ شیطان میرے گھر میں گھس کر تباہی مچائیں گے؟ کیا ٹرمپ کے خلاف مواخذے کی تحریک چلانا اتنا بڑا جرم ہے کہ اس کے حامی لوگوں کی جان لینے پر تل جائیں گے؟ اگر میں نے مواخذے کا بل پاس کرنے میں پہل نہ کی ہوتی تو کوئی اور آگے آتا ۔ٹرمپ نے ملک کو ایسے گرداب میں پھنسا دیا ہے کہ اب کوئی بھی معقول آدمی انہیں صدر کی حیثیت سے دیکھنا نہیں چاہتا۔ اقتدار پاتے ہی اس شخص نے  لوگوں کو تقسیم کرنے کی ایسی سازش رچی تھی کہ ہر جمہوریت پسند سوچنے لگا تھا کہ اگلے چار برسوں میں یہ شخص کیا قیامت ڈھائے گا، اسلئے ابتدا  میں مواخذے کی تحریک چلاکر اسے نکال باہر کردیاگیا تھا مگر سینیٹ میں ریپبلکن اراکین کی اکثریت نے اسے بچا لیا مگراس نے الیکشن میں اپنی شکست کے با وجود  ایسا ماحول بنادیا کہ اب کوئی بھی اسے صدر دیکھنا نہیں چاہتا۔ یہ سب ان سفید فام نسل پرستوں کی سازش ہے جو Ku Klux  Klan کی ناجائز اولاد ہیں اور آج بھی جنوبی ریاستوںمیں کالوں، مہاجروں اور مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلاتے ہیں۔ جب ایوان میں یلغار کے دوران میں نے ’کنفیڈریشن ‘ کے جھنڈے دیکھے تو مجھے احساس ہوگیا کہ ٹرمپ نے بڑی ہوشیاری سے اپنے حامی جمع کئے ہیں۔ دوسرا گروہ ان Evangelists کا ہے  جو اس ملک میں عیسائیت کے نام پر ’ خدائی حکومت‘ قا ئم کرنا چاہتے ہیں۔ ٹرمپ نے برسوں پہلے ان سے ساز باز کررکھی تھی کیوں کہ یہی ٹرمپ کیلئے چندہ جمع کرتے رہے تھے۔ ستم ظریفی دیکھئے کہ یہ ساری باتیں ایوان کا ہررکن جانتا ہے مگر سبھوں نے اپنے ہونٹ سی رکھے ہیں۔ میں نے مقامی پولیس کو اس دھمکی آمیز فون کی اطلاع دے دی ہے اورانکوائری کمیشن کو بھی خبر کردی ہے۔ اگر سینیٹ کا اسپیکر بھی ایسے گمنام فون سے خوفزدہ ہونے لگے تو امریکی جمہوریت منٹوں میں دم توڑ دے گی۔
 اسے امریکہ کی بدنصیبی  نہ کہوں توکیا کہوں...
  جوں جوں دن گزررہے ہیں، میں بائیڈن کیلئے پریشان رہنے لگی ہوں۔ اس سلسلے میں کملاہیریس سے بھی بات کی ہے کہ ٹرمپ کو کم نہ سمجھیں، وہ اپنی ہیکڑی میں کچھ بھی کرسکتا ہے۔ آج کل اس کے دوست ساتھ چھوڑ رہے ہیں، کاروبارمیں نقصان ہونے لگا ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ساری دنیا میں اس کی خوب بدنامی ہوئی ہے۔ شاید اسی لئے دن بھر ٹیلی ویژن دیکھتا رہتا ہے۔ اسے امریکہ کی بدنصیبی  نہ کہوں توکیا کہوں کہ اسے ایسے صدور ملے جنہوں نے اپنی  حرکتوںسے ملک کے اعلیٰ ترین منصب کو ذلیل کیا۔ کوئی چھپ کر اپوزیشن کی باتیں سنتے ہوئے پکڑا گیا، تو کوئی صاحب اپنی ہی آفس میں رنگ رلیاں  مناتے ہوئے پائے گئے اور موجودہ صدر اقتدار سے چپکے رہنے کیلئے ایوان ہی پر حملہ آور ہوگئے۔ میں نے سیاسیات کی طالب علم ہونے کے ناطے اقوام عالم کی تاریخ کا مطالعہ کیا ہے، حکومتوں کے عروج وزوال کی داستانیں پڑھی ہیں اوراس نتیجے پر پہنچی ہوں کہ قیادت کے منصب پر فائز ہونے والے افراد باکردار نہ ہوں تو قومیں ترقی نہیں کرسکتیں۔ اس طرح احمقوں کی اکثریت کسی نالائق کو حکومت سونپ دے تو قوموں کے زوال میں دیر نہیں لگتی۔ تاریخ شاہد ہے کہ درد مند اور سیاسی بصیرت سے  مالا مال قیادت قدرت کی جانب سے انعام ہوتی ہے۔ ایسے قائدراتوں کو گھوم گھوم کر عوام کا حال جاننے کی کوشش کرتے ہیں ، اپنے کندھوں پر بوریاں اٹھاکر انہیں غریبوں کے گھر پہنچاتے ہیں، انصاف کے تقاضے پورے کرنے کیلئے اپنی اولاد اور عمّال کو نہیں بخشتے اور خود سادگی سے زندگی گزارکر عوام کو بہتر زندگی دیتے ہیں۔ امریکی قیادت بھی اتنی بری نہیں تھی۔ امریکی ڈالر کی ساری دنیا پر حکمرانی ہے، چاند کے سفر کے بعد ہم مریخ پر کمندیں ڈال رہے تھے، آج بھی ترقی کی خاطر لوگ امریکہ کا رخ کرتے ہیں، اٹلی کے ایک خاندان کی لڑکی نے یہیں آکر چھوٹے چھوٹے الیکشن  جیتے  اور آج اسپیکر کے عہدے تک پہنچی ہے۔ ہندوستان کے گاؤں سے ایک خاتون پڑھائی کیلئے امریکہ آتی ہے اوریہیں بس جاتی ہے۔ آج وہ اس  ملک یعنی امریکہ کی نائب صدر ہے۔ بائیڈن کی کابینہ میں کتنے ہی افریقہ اور عرب نژاد افراد امریکہ کی خدمت کرنے  کیلئے تیار ہیں۔ پھر اچانک ٹرمپ کی سازشوں کا خیال آتا ہے اور جی چاہتا ہے کہ ابراہام لنکن اور واشنگٹن کو آوازدوں کہ آیئے اورامریکہ کی عظمت رفتہ کو بحال کیجئے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK