Inquilab Logo

عرب دنیا میں ہندوستان کا بڑھتا اثرو رسوخ

Updated: February 21, 2024, 1:11 PM IST | Parvez Hafeez | Mumbai

مسلم دنیاخصو صاً عرب ممالک کے ساتھ سفارتی، اقتصادی، تجارتی، ثقافتی اور دفاعی رشتوں کی مضبوطی مودی حکومت کی خارجہ پالیسی کی اہم ترین ترجیحات میں شامل ہے۔

Photo: INN
تصویر:آئی این این

 وزیر اعظم نریندر مودی نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ بین الاقوامی برادری کو ان کے تیسری بار بھی اقتدار میں  آنے کا اتنا بھروسہ ہے کہ متعدد سربراہان نے جولائی،اگست اور ستمبر مہینوں  میں  انہیں  اپنے ممالک کا دورہ کرنے کی دعوت بھیج رکھی ہے۔ وزیر اعظم کے مطابق ان بیرونی دعوت ناموں  کی آمد اس بات کا واضح اشارہ ہے کہ اقوام عالم کو بھی یہ یقین ہے کہ ’’آئے گا تو مودی ہی ۔‘‘ انتخابی موسم کے آتے ہی حکمراں  اور اپوزیشن پارٹیوں  کے پیڑوں  پر وعدوں  اور دعوؤں  کے رنگے برنگے پھول کھل اٹھتے ہیں ۔اس بات کا قوی امکان ہے کہ مودی جی نے یہ بیان اپنے سیاسی حریفوں  پر نفسیاتی دباؤ ڈالنے اور بی جے پی کے لیڈروں  اور کارکنوں  میں  جوش و ولولہ جگانے کے مقصد سے دیاہو۔ اس شک کو اس بات سے بھی تقویت ملتی ہے کہ وزیر اعظم نے یہ دعویٰ دلی میں  بھارتیہ جنتا پارٹی کی قومی کونسل کے اختتامی اجلاس میں  کیاجس کے دوران ’’اب کی بار ۴۰۰؍پار‘‘ اور’’بھاجپا ضروری ہے‘‘جیسے انتخابی نعرے بھی گونجتے رہے۔ لیکن اس کے بعد وزیر اعظم نے جو بات کہی اس میں  صداقت نظر آتی ہے۔ مود ی جی نے کہا کہ’’ آج دنیامیں  ہندوستان کا رتبہ اور اثرو رسوخ بڑھا ہے۔ دنیا بھر کے ممالک ہمارے ملک کے ساتھ اپنے رشتے بہتر بنانے کے خواہاں  ہیں ۔ ‘‘
مودی جی نے یہ بھی کہا کہ مغربی ایشیا اور خصوصاً خلیجی ممالک کے ساتھ ہندوستان کے رشتے آج نئی بلندیاں  چھو رہے ہیں ۔ان کے اس دعوے میں  بھی کوئی مبالغہ آرائی نہیں  لگتی ۔ پچھلے دس دنوں  میں  رونما ہونے والے دو واقعات اس حقیقت کی نشاندہی کرتے ہیں  کہ مودی جی کے دس سالہ دور حکومت میں  ہندوستان اور عرب دنیاکی دوستی کس قدر مضبوط اور گہری ہوچکی ہے۔ قطر میں  اٹھارہ ماہ سے سزائے موت کے منتظرانڈین نیوی کے آٹھ افسران کی ڈرامائی رہائی اور ہندوستان واپسی اور متحدہ عرب امارات میں  عظیم الشان مندر کا افتتاح بلاشبہ دو سنگ میل واقعات ہیں ۔ یہ دونوں  واقعات ہندوستان کی خارجہ پالیسی کی کامیابی کا بھی ثبوت ہیں  اور نریندر مودی کی ذاتی سفارت کاری کی کامیابی کابھی۔
بیرون ملک مقیم ہندوستانی باشندے ہر سال تقریباً۱۰۰؍بلین ڈالر کی ترسیلات زر وطن بھیجتے ہیں ۔ اس میں  ۳۰؍ فیصد حصہ خلیج تعاون کونسل(جی سی سی) کے ممالک یعنی سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، بحرین، قطر، کویت اور اومان میں  روزی روٹی کمانے والے ۹۰؍لاکھ سے زیادہ ہندوستانی باشندوں  کی آمدنی کا ہےاور اس ۳۰؍ فیصد میں  ۱۸؍ فیصد صرف متحدہ عرب امارات سے آتا ہے۔ ہندوستان اپنی ضرورت کا ۳۵؍ فیصدتیل اور ۷۰؍ فیصد گیس ان چھ خلیجی ممالک سے ہی امپورٹ کرتا ہے۔
یواے ای ہمارا تیسرا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار، ہندوستانی مصنوعات کا دوسرا سب سے بڑا امپورٹراور غیرملکی سرمایہ کاری (FDI) کا چوتھا بڑا ذریعہ ہے۔ اس کے باوجوداس اہم ملک کے ساتھ ہمارے سفارتی رشتے کس سردمہری کا شکار تھے یہ سمجھنے کیلئے یہ جاننا کافی ہوگا کہ جب مودی جی نے ۲۰۱۵ء میں  ابوظہبی کا اپناپہلا دورہ کیا تو وہ ۳۴؍ سال بعد وہاں  جانے والے پہلے بھارتی وزیر اعظم تھے۔ یو اے ای کا ان کا حالیہ دورہ ان کا ساتواں  دورہ تھا۔ ہندوستان اور یو اے ای کے درمیان دو سال قبل اقتصادی شراکت داری کا ایک کلیدی معاہدہ (CEPA) کیا گیا تھا اور پچھلے ہفتے مودی جی کی موجودگی میں  ایک اور اہم باہمی سرمایہ کاری معاہد ہ (BIT) پر بھی دستخط کئے گئے۔ متحدہ عرب امارات وہ واحد ملک ہے جس کے ساتھ ہندوستان نے تجارت اور سرمایہ کاری دونوں  کے معاہدے کرلئے ہیں ۔ 
مسلم دنیاخصو صاً عرب ممالک کے ساتھ سفارتی، اقتصادی، تجارتی، ثقافتی اور دفاعی رشتوں  کی مضبوطی مودی حکومت کی خارجہ پالیسی کی اہم ترین ترجیحات میں  شامل ہے۔ اس سمت میں  کی گئی مودی جی کی انتھک کوششوں  کے بے حد مثبت نتائج بھی سامنے آئے ہیں ۔عرب ممالک کے حکمرانوں  کے ساتھ خواہ وہ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان ہوں  یا یواے ای کے صدر شیخ محمد بن زائد النہیان یا قطر کے امیر شیخ تمیم بن حماد الثانی، مودی جی کے اچھے ذاتی مراسم بھی کافی سود مند ثابت ہوئے ہیں ۔ انہی ذاتی مراسم کی وجہ سے مودی جی کی ابو ظہبی میں  ایک عالیشان مندر کی تعمیر کی تجویز نہ صرف قبول کرلی گئی بلکہ حکومت نے ۲۷؍ایکڑ بیش قیمت زمین بھی ہندو عبادت گاہ کے لئے بلا قیمت دے دی۔ یہ مودی جی کی ذاتی پیش رفت کا ہی نتیجہ ہے کہ متحدہ عرب امارات نے ہندوستان کو تیل کی قیمت کی ادائیگی ڈالر کے بجائے ہندوستانی کرنسی میں  کرنے کی اجازت دے دی ہے۔ عرب دنیا میں  مودی جی کی بڑھتی قدر ومنزلت کا اندازہ تو ساری دنیا کو اگست ۲۰۱۹ء میں  ہی ہوگیا ہوگا جب ان کی حکومت نے بہ یک جنبش قلم کشمیر کی خود مختاری ختم کردی تھی اور عرب دنیا میں  نئی دہلی کے خلاف پاکستان کے زبردست پروپیگنڈہ کے باوجود کسی عرب لیڈر نے اس کی مذمت نہیں  کی۔ حد تو یہ ہوگئی کہ یو اے ای اور بحرین نے آرٹیکل ۳۷۰؍ کی تنسیخ کے چند دنوں  بعد ہی مودی جی کو اپنے اعلیٰ ترین شہری اعزازات سے نواز ا۔گویا انہوں  نے ایک طرح سے مودی کے اقدام کی توثیق اور حمایت کردی۔
 بحریہ کے آٹھ سابق افسروں  کو یقینی موت کے منہ سے کامیابی سے نکال لانا مودی جی کی سفارت کاری کا بہت بڑا کارنامہ ہے۔ معاملہ بے حد حساس اور سنگین تھا لیکن حکومت ہند نے نہایت دانشمندی اور صبر و تحمل سے اسے ہینڈل کیا۔ قیاس کیا جارہا ہے کہ دسمبر میں  دبئی میں  منعقد کئے گئے COP28 کے اجلاس کے موقع پر مودی جی اور قطر کے امیرکے درمیان ہوئی غیر رسمی ملاقات کے بعد برف پگھلی اور ہندوستانیوں  کی رہائی اور وطن واپسی کی راہ ہموار ہوئی۔قطر کے امیر کا ذاتی طور پر شکریہ ادا کرنے کے لئے مودی جی نے دوحہ کا دورہ کرنا ضروری سمجھا یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ آٹھ ہندوستانیوں  کی جاں  بخشی سے نئی دہلی کو کتنی راحت ملی ہے۔ 
 ایک زمانہ تھا جب ہمارا ہمسایہ ملک پاکستان عرب دنیا کی آنکھوں  کا تارا ہوا کرتا تھا لیکن اب صورتحال یکسر بدل چکی ہے اب پورے خطے میں  ہندوستان کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے جو دنیا کی سب سے بڑی آبادی والا ملک اور پانچویں  سب سے بڑی معیشت ہے۔بین الاقوامی رشتے اب سیاسی یا مذہبی نظریات کی بنیاد پر نہیں  بلکہ باہمی اقتصادی مفادات کو مدنظر رکھ کرقائم کئے جاتے ہیں ۔ دوستیاں  قائم کرتے اور تجارتی اور تزویراتی تعلقات مستحکم کرتے وقت اب قومیں  ایک دوسرے کی جیو پالیٹکل حیثیت، معاشی صلاحیت اور عسکری طاقت کو سامنے رکھتی ہیں ۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK