Inquilab Logo

ہماری پہلی ترجیح ،وبا کو بلا بننے نہیں دینا ہے

Updated: January 24, 2021, 8:03 PM IST | Mubarak Kapdi

وبائیں آتی رہتی ہیں، سائنس، طب اور ٹیکنالوجی سے اُن کا مقابلہ ممکن بھی ہے البتہ کسی بھی وبا کوبلا بن کر ہمارے ذہن پر طاری ہونے سے بچاناہے کیوںکہ کوئی وبا اگر کسی معاشی و معاشرتی نظام پر اثر انداز ہوتو علاج ممکن ہے البتہ وہ انسانی اذہان پر حاوی ہوجائے تو اُس سے نجات شاید صدیوں تک نہیں مل پاتی

Picture.Picture :INN
علامتی تصویر ۔ تصویر:آئی این این

حافظے کی کمزوری کا اندیشہ
 کووِڈ ۱۹؍کی وبا اور دس ماہ تک لاک ڈائون سے صرف طلبہ نہیں بلکہ اکثر بڑے بھی یہ شکایت کرتے نظر آنے لگے ہیں کہ نامعلوم وجوہات کی بنا پروہ اپنے حافظے کی کمزوری محسوس کر رہے ہیں۔کچھ لوگ یہ سمجھ رہے ہیںکہ یہ کورونا وائرس کا نتیجہ ہے اور یہ کہ یہ وائرس کی اپنی شدّت ختم ہونے کے بعد بھی ذہنی بیماریوںو انتشار کے اپنے اثرات چھوڑ سکتا ہے۔ آئیے جائزہ لیں کہ یہ اندیشے حقائق سے کتنے قریب ہیں؟ 
 بھولنا انسانی فطرت سے وابستہ ہے۔ جب خطوط کا زمانہ تھا تو کچھ لوگ کئی دِنوں تک کوئی خط اپنی جیب میںلئے پھرتے ، ڈاک گھر کے قریب سے بھی گزرتے مگر پوسٹ کرنا بھول جاتے۔ بجلی  اور فون وغیرہ کا بِل ادا کرنے کی آخری تاریخ اکثر نکل جایاکرتی ہے وغیرہ۔ نمازمیں رکعتیں بھولنے کی شکایت پہلے ہی لوگ کیا کرتے تھے البتہ لاک ڈائون میں بہت زیادہ مصروفیت نہ ہونے کے باوجود کچھ لوگ یہ بھی شکایت کرنے لگے ہیں کہ نماز اداکی یا نہیں اس کیلئے بھی ذہن پر زور دینا پڑ رہا ہے۔ پورے دن کا ٹائم ٹیبل کاغذ پر لکھا جا رہا ہے مگر پھر بھی بھول رہے ہیں کہ کیا کرنا ہے اور کیا باقی ہے؟ایک ہی علاقے میں ایک دن میں دو تین بار جارہے ہیں کہ ہر بار کچھ بھول گئے ہیں۔ باتیں ہو رہی ہیں، بحث بھی ہورہی ہے مگر سلسلہ بار بار ٹوٹ رہا ہے۔ربط نہیںہے، اساتذہ پڑھارہے ہیںمگر آن لائن تدریس میںمجال نہیں کہ وہ نصاب کی لکشمن ریکھا کو پار کریں۔ طلبہ اور کلاس کا معائنہ کرنے والے باشعور والدین شکایت کررہے ہیں کہ چند اساتذہ مثالیں دینا بھول رہے ہیں۔ یہ نہیں کہ وہ نہیں جانتے مگر بھول رہے ہیں۔ اب تک کے سب سے بڑے وائرس نے ہر سُو تباہی مچائی ہے اور ممکن ہے اُسی کا اثر ہے کہ بچّوں سے بڑے تک سبھی حافظہ و یادداشت کے متاثر ہونے کی شکایت کر رہے ہیں۔جس طرح کسی جسمانی بیماری کے زیرِ اثر پڑے رہنا کوئی پسند نہیں کرتا، اُسی طرح انسان کے قیمتی ترین جُز یعنی دماغ کومتاثر کرنے والی کسی بیماری سے چھٹکارہ بھی ضروری ہے، اُس کیلئے کوئی ویکسین نہیں آئے گی۔اُس کا علاج خالقِ کائنات نے ہر دل اور ہر ذہن میں نصب کردیا ہے۔ نوجوانو! آپ کے ذہن کو قدرت نے جس قدر باتیں محفوظ رکھ لینے کا ملکہ عطا کیا ہے، آپ اُس کا تصوّر بھی نہیں کرسکتے۔ 
 سائنس دانوں کی جدید معلومات کے مطابق دماغ کی دونمایاں سطحیں ہیں۔ (۱) شعور (۲) تحت الشعور۔اوّل الذّکر حالت میں آپ کا حافظہ صرف دو باتیں اپنے اسٹور روم میں جمع رکھتا ہے۔ جن کی آپ کو فوری ضرورت ہوتی ہے اور جو ایک لمحے کے اندر اندر برآمد کی جاسکتی ہیں۔ مثلاً آپ کے والد یا بچّے کا نام۔ثانی الذّکر حالت میں آپ کے حافظے کیلئے قدرت نے بہت بڑا اسٹور روم بنایا ہے۔ جہاں وہ سب باتیں جمع ہوتی رہتی ہیں۔ جن سے آپ کو واسطہ نہیں پڑتا اور نہ اُن کی اچانک ضرورت پیش آتی ہے۔یعنی،ایسی چیزیں جو وقتی طور پر آپ بھول جاتے ہیں لیکن اگر آپ کی توجّہ اُن کی طرف دلائی جائے یا آپ خود دماغ پر زور ڈالیں تو وہ فوراً آپ کے ذہنی سمندر کی سطح پر اُبھرآتے ہیں۔ 
 اگر آپ اپنا حافظہ بہتر بنانا چاہتے ہیں تو آپ کو اپنی قوّتِ حافظہ کی ان دونوں حالتوں سے فائدہ اُٹھانا چاہئے، کوشش کیجئے کہ صرف وہی باتیں آپ کے شعورکی لوح پر محفوظ ہوں جن کی آپ کو اشد ضرورت ہو۔ باقی چیزوں کو تحت الشعور کے تہہ خانے میں ڈال دیجئے۔البتہ اُنھیں ایسی باتوں کے ساتھ منسلک کر دیجئے جنھیں ہر وقت یادرکھنے کی آپ کو چنداں ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔ اس طرح وہ ہمیشہ کیلئے اس سمندر میں غرق ہونے سے بچ جائیں گے اور جب آپ کو ضرورت ہوگی، ذراسی کوشش سے آپ اُنھیں اپنی زبان پر لا سکیں گے۔ چیزوں کو یاد رکھتے وقت یہ بات دل میں بِٹھالیجئے کہ آپ کو دوبارہ یقیناً اُن کی ضرورت پیش آئے گی، شعوری کوشش کرکے جزئیات پر توجّہ دیجئے۔ مطالعہ کرتے وقت اُن چیزوں کو بار بار دہرائیے جو آپ کے خیال میں بعد میں آپ کے کام آئیں گے۔ چاہے آپ کو وہ باتیں کتنی ہی اچھی طرح یاد کیوں نہ ہوں۔ اگر آپ کا شمار اُن اشخاص میں سے ہے جو کسی چیز کو محض سُن کر زیادہ آسانی سے یاد رکھ سکتے ہیں تو آپ خود باآواز بلند اُسے دہرائیں۔
 طلبہ کیلئے سب سے بڑا مسئلہ اپنے اسباق یاد رکھنا ہے۔ بار بار رَٹی ہوئی چیزیں بھی اُنھیں بھول جاتی ہیں۔ ایسے طلبہ اکثر دیکھے گئے ہیں جو اِدھر کمرئہ امتحان سے باہر نکلے اور اُدھر اُنھیںکچھ بھی یاد نہ رہا، ظاہر ہے کہ وہ اپنی سب معلومات پرچے پر اُگل آئے تھے۔ امتحان کے بعد طلبہ کو درسی اسباق کیوں یاد نہیں رہتے۔ اس کی وجہ بھی وہی حافظے کا غلط استعمال ہے۔ کہا جاسکتا ہے کہ خشک موضوعات کا حافظہ کہاں تک ساتھ دے؟ ٹھیک ہے! لیکن اگر آپ کوشش کریں تو یہ خشک موضوعات بھی آپ کے ذہن کا حصّہ بن سکتے ہیں۔ اُن موضوعات کو ذرا معانی اور تشخص بخشیں۔ پھر دیکھیں کہ وہ آپ کے پاس یاد کرنے کیلئے بہت سارا موادہے۔ تو پھر اُسے مناسب حصّوں میں تقسیم کرکے ترتیب واریادکیجئے۔ ہر حصّہ یاد رکھنے کے بعد اپنے دماغ کو تھوڑی دیر کیلئے سوچنے کی مہلت دیجئے تاکہ معلوم ہوسکے کہ جو کچھ آپ نے پڑھایاسُنا ہے وہ آپ کے ذہن نشین ہو چکا ہے یا نہیں۔ تجربات نے ثابت کردیا ہے کہ رٹائی کے بجائے مناسب وقفہ بندی سے اسباق زیادہ بہتر طور پر یاد رہتے ہیں۔رٹی ہوئی چیزیں اتنی تیزی سے نقش و نگار طاقِ نسیاں بنتی ہیں کہ آپ حیران رہ جاتے ہیں۔ اس وقت یا تو آپ حافظے کو کوستے ہیں یازیادتی عمر کا رونا روتے ہیں حالانکہ سیدھی سی بات ہے کہ آپ نے اپنے حافظے سے صحیح کام نہیں لیا۔ مناسب وقفے وہ لنگر ہیں جو آپ کے معلومات کے جہاز کو جلد بھولنے کی تند و تیز طوفانی لہروں سے بچائے رکھتے ہیں۔
 ہاں اگر یاد رکھنے والی چیزیں بہت ہی زیادہ ہوںاور آپ کو خدشہ ہو کہ وہ سب آپ کے حافظے میں نہیںسماسکیں گی۔ تو سب سے پہلے اپنے پورے موادکا جائزہ لیں تاکہ اس کا ایک اجمالی خاکہ آپ کا جزو ذہن بن سکے۔ پھر اُسے مناسب حصّوں میں تقسیم کرلیں اور ایک ایک کرکے یاد کرتے جائیں۔ خیال رہے کہ یہ اجزاء منتشرطور پرآپ کے ذہن میں نہ بیٹھیں بلکہ ہر حصّے کی کڑیاں دوسرے حصّے کی کڑیوں کے ساتھ مکمل طور پر پیوست ہوں۔ وہ طلبہ جو سارا سال آوارگی میںگزاردیتے ہیں اور امتحان کی رات جاگ کر اور کتاب ختم کر کے گویا سمجھتے ہیںکہ اب بیڑا پار ہوجائے گا، سخت غلط فہمی میںمبتلا رہتے ہیں۔ پرچہ حل کرتے وقت ان کا رَٹاہوا سب مواد گڈ مڈ ہوکر رہ جائے گا اور وہ سر پکڑ کر بیٹھ جائیں گے۔ پوری کتاب کو جزبہ جزیاد کرنا اُتنا ہی آسان ہے جتنا کسی نظم کے بند یاد کرنا۔ 
 ہمارے اسکول اور کالج کے طلبہ کی سب سے بڑی شکایت یہ رہتی ہے کہ وہ خوب خوب محنت کرتے ہیں، سال بھربھی کرتے ہیں مگر پڑھا ہوا یاد نہیں رکھ پاتے،سب بھول جاتے ہیں۔ حافظہ کمزور ہوچکا ہے؟ نہ جانے کتنے اندیشے اُنھیں گھیر لیتے ہیں۔ پھر عجب ٹوٹکے بھی اپنانے لگتے ہیں۔ البتہ بنیادی باتیں وہ  بھول جاتے ہیںکہ کسی بھی چیز کو یاد رکھنے کیلئے اُنھوںنے کیا طریقے اپنائے تھے؟ اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ کہیں وہ یہ تو نہیں سمجھ رہے تھے کہ کسی بھی بات کو یاد رکھنا اُن کی مجبوری ہے ؟اور اُس مجبوری کا نام امتحان تو نہیں۔ اگر محض امتحان کیلئے آپ کسی بات کو یاد رکھنے کیلئے مجبور ہیں تو اُسے آپ صرف اور صرف امتحان تک ہی یاد رکھ پائیں گے اور آپ کی یادداشت و حافظہ کو چیلنج کرنے والا شخص جس کا نام ممتحن ہے اگر آپ کو تھوڑا سا کنفیوژ کردے تو پھر امتحان تک بھی وہ باتیں آپ کو یاد نہیںرہیں گی۔ (بہر حال حافظے کو مضبوط بنائے رکھنے کے گُر آئندہ ہفتے ملاحظہ کریں

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK