Inquilab Logo Happiest Places to Work

ہماری خلائی پیش رفت اور زمینی حقائق

Updated: August 25, 2023, 6:52 AM IST | Mumbai

چندریان ۳؍ کی کامیابی بلاشبہ قابل فخر ہے۔ جس وقت ہمارا خلائی جہاز چاند کی دُنیا میں قطب جنوبی پر اُترا، ملک کے ایک ایک شہری کا جوش اور مسرت دیدنی تھی۔ یہ بدھ کی بات ہے۔

Chandrayaan 3
چندریان ۳

چندریان ۳؍ کی کامیابی بلاشبہ قابل فخر ہے۔ جس وقت ہمارا خلائی جہاز چاند کی دُنیا میں قطب جنوبی پر اُترا، ملک کے ایک ایک شہری کا جوش اور مسرت دیدنی تھی۔ یہ بدھ کی بات ہے۔ جمعرات کو بھی ملک میں خوشی اور شادمانی ہی کا ماحول تھا۔ اب  ایسا لگتا ہے کہ آئندہ کئی دن یہ خوشی ہم پر طاری رہے گی جو بجا  اور فطری ہے۔ مگر، یہی وہ وقت ہے  جب ملک کے تمام شہری اور ہمارے حکمراں اس نکتے پر غور کریں کہ اگر اِسرو کے سائنسدانوں کی ایک ٹیم جس میں شامل ارکان کی تعداد گنی جاسکتی ہے، اتنا بڑا کارنامہ انجام دے سکتی ہے اور اُس ٹیم کی مجموعی طاقت و صلاحیت جدید تر اور ترقی یافتہ ملکوں کو چونکا سکتی ہے (آپ نے دیکھا امریکہ نے بھی ستائش کی) تو ملک کے ایک سو چالیس کروڑ عوام کی مجموعی طاقت و صلاحیت کیا گل کھلائے گی۔ کیا اس طاقت کے آگے کوئی مسئلہ ہوگا جو حل نہیں ہوسکے گا؟ کیا اس طاقت کا مقابلہ دُنیا کی کوئی دوسری طاقت کرسکے گی؟ کیا اس طاقت کو دیکھ کر اقوام عالم ہماری جانب بطور خاص ملتفت نہیں ہونگی؟ کیا اس طاقت سے ہم اپنے ملک کیلئے خیر ہی خیر نہیں لکھیں گے اور عالم انسانیت کو گرانقدر فیض نہیں پہنچائینگے؟ 
 آگے بڑھنے سے قبل ہم اپنا موقف بیان کردیں کہ ہمارے نزدیک آبادی کی کثرت وطن عزیز کی کمزوری نہیں، طاقت ہے۔ اسی آبادی سے اِسرو کو افراد میسر آتے ہیں اور یہی آبادی وہ اعلیٰ اذہان فراہم کرتی ہے جن کی محنت شاقہ سافٹ ویئر انڈسٹری کو قابل فخر بناتی ہے، جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ترقی یافتہ ممالک سافٹ ویئر انجینئروں کی کمی کو پورا کرنے کیلئے ہندوستان کی طرف دیکھتے ہیں۔ مگر ٹھہریئے، سائنسداں، انجینئر، ٹیکنوکریٹ،  ڈاکٹرس اور دیگر ماہرین، آبادی کے جن طبقات سے آتے ہیں وہ عام طور پر متمول اور خوش حال گھرانوں کے چشم و چراغ ہوتے ہیں۔ متوسط، نچلے متوسط  اور غریب طبقات کے لوگوں کو بڑے مناصب پر پہنچنے کا موقع کم کم ہی ملتا ہے کیونکہ وہ اعلیٰ تعلیم کے مراکز تک رسائی اور اپنی صلاحیتوں کی نشوونما میں کامیاب نہیں ہوپاتے۔ اگر ملک کی تمام ایک سو چالیس کروڑ کی آبادی کو اعلیٰ اور پیشہ جاتی تعلیم کی یکساں سہولت میسر ہو، اس نوع کی تعلیم غیر معمولی طور پر مہنگی نہ ہو، نت نئے داخلہ امتحانات کے ذریعہ محکمۂ تعلیم طلبہ کو آزمانے پر تُلا نہ رہے تو سماج کے کمزور طبقات میں پیدا ہونے والی ذہانتیں اور صلاحیتیں بھی ملک کو عالمی نقشے پر اہم مقام دلانے میں اپنا کردار ادا کرسکتی ہیں۔ 
 یہ ہوئی ایک بات۔ دوسری بات یہ ہے کہ تمام ایک سو چالیس کروڑ کی آبادی کو  ایسا ماحول فراہم کیا جائے جس میں سب مل جل کر رہیں اور نئی نسل اپنی صلاحیتوں کو جِلا بخشنے میں متحرک رہ سکے، نہ بے امنی ہو نہ تشدد، نہ منافرت ہو نہ تعصب، نہ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوشش ہو نہ ہی کسی طبقے کو دوسرے درجے کا شہری بنانے کا جتن، تو سوچئے ہم کس مقام پر ہونگے اور ہماری صلاحیتوں سے ملک کا نام کتنا روشن ہوگا۔ اِس نکتے پر ملک کی سیاست کو غور کرنا چاہئے کہ لوگوں کو آپس میں لڑا کر سیاسی اقتدار حاصل کرنا اہم اور قابل قدر ہے یا سب کو متحد کرکے اُن کی صلاحیتوں کو نکھارنے کا عمل جو علمی، سائنسی، معاشی اور تکنیکی پیش رفتوں پر منتج ہوگا اور جس کے ذریعہ عالمی اقتدار حاصل کرنا ممکن ہوگا؟ کاش ہماری سیاست یہ سمجھ سکے کہ ہماری طاقت کہاں ہے؟ سیاسی اقتدار یا اس سے کہیں ارفع عالمی اقتدار ؟       n

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK