Inquilab Logo

ہندوستان، پاکستان اور بنگلہ دیش کا اجمالی جائزہ

Updated: November 28, 2021, 7:29 AM IST | Aakar Patel | Mumbai

جنوبی ایشیاء کے یہ اہم ممالک ہیں۔ اس مضمون میں ان کی معاشی صورتحال اور عالمی جدولوں میں ان کے مقام سے بحث کی گئی ہے اور بتایا گیا ہے کہ ترقیاتی امور میں کون کہاں ہے۔

The three countries under discussion in South Asia are democratic.
جنوبی ایشیاء کے زیر بحث تینوں ممالک جمہوری ہیں جاری ہے

جنوبی ایشیاء کے تین بڑے ممالک چونکہ اپنی آزادی کی ۷۵؍ ویں سالگرہ کے قریب پہنچ چکے ہیں اس لئے یہ جاننا ضروری محسوس ہوتا ہے کہ وہ اپنے ۷۵؍ سالہ سفر میں کہاں تک پہنچے۔ جنوبی ایشیاء کے زیر بحث تینوں ممالک جمہوری ہیں۔ پاکستان گزشتہ ۱۳؍ سال سے جمہوری ہے جبکہ بنگلہ دیش تین دہائیوں سے جمہوری طرز پر جاری ہے (بجز اُس مختصر عرصے کے جب وہاں فوجی حکومت قائم ہوئی تھی)۔ تینوں میں سب سے بڑا ملک ہندوستان آزادی کے بعد ہی سے جمہوری ہے اور جمہوری ملک کی مستحکم شناخت رکھتا ہے۔
 پاکستان کے بارے میں ایسا لگتا ہے کہ اس نے فوج کے قابض ہونے کے دور کو پیچھے چھوڑ دیا ہے ۔ اب اس ملک میں شہری حکومت پر فوج کے قابض ہوجانے کے واقعات رونما نہیں ہورہے ہیں۔ یہ ملک سیاسی طور پر اس لئے مختلف ہے کہ پارلیمنٹ میں اپوزیشن کی پارٹیوں کی شراکت یا حصہ داری زیادہ ہے جبکہ ہندوستان اور بنگلہ دیش میں حکمراں جماعتوں ہی کی حصہ داری زیادہ ہوتی ہے۔  آخر الذکر کے حکمراں اپوزیشن کے تئیں سخت گیر ہوتے آئے ہیں ۔ اب سے ایک سال بعد یہاں جو قومی انتخابات ہوں گے اُن سے یہ واضح ہوسکے گا کہ حالات کس رُخ پر ہیں۔ اپوزیشن لیڈر خالدہ ضیاء کچھ عرصہ جیل میں رہیں اور سابقہ انتخابات میں حصہ نہیں لے سکیں۔ گزشہ ایک درجن برسوں سے شیخ حسینہ ملک کی باگ ڈور سنبھالے ہوئے ہیں۔ ان کی سیاست سے بحث کی جاسکتی ہے مگر معاشی اُمور پر اُن کی گرفت مضبوط ہے۔ ان کی قیادت میں بنگلہ دیش نے معاشی پیش رفتوں میں ہندوستان اور پاکستان کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ بنگلہ دیش کی معاشی شرح نمو بہتر چلی آرہی ہے، اس کی فی کس جی ڈی پی  بہتر شرح نمو ہی کی دین ہے۔ اس نے مینوفیکچرنگ کے شعبے کو کافی بہتر بنادیا ہے چنانچہ جی ڈی پی میں مینوفیکچرنگ کی حصہ داری ۱۶؍ سے ۲۰؍ فیصد ہوگئی ہے جبکہ ۲۰۱۴ء کے بعد ہندوستانی جی ڈی پی میں مینوفیکچرنگ کی حصہ داری ۱۵؍ فیصد سے گھٹ کر ۱۲؍ فیصد ہوگئی ہے۔ یہاں مینوفیکچرنگ کے شعبے کا خاص طور پر ذکر اس لئے کیا گیا ہے کہ یہ شعبہ روزگار کی فراہمی میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ بنگلہ دیش میں گارمینٹ فیکٹریوں کو مرکزیت حاصل ہے جو اس اعتبار سے بھی خاصی اہم ہیں کہ ان میں خواتین کو روزگار کے آسان مواقع دستیاب ہوتے ہیں۔ بنگلہ دیش کی ان معاشی پیش رفتوں کے برخلاف ہندوستان نے ۲۰۱۴ء کے بعد سے اپنی سمت و رفتار کھو دی ہے جس کا نتیجہ ہے کہ روزگار کے مواقع کم سے کم تر ہوتے چلے گئے، جتنے لوگوں کو روزگار دستیاب ہے اور جتنوں کو روزگار درکار ہے ان کی تعداد جنوبی ایشیاء میں سب سے کم ہندوستان ہی میں ہے۔ یہ صورتحال تبدیل ہونی چاہئے تھی مگر ایسا نہیں ہوا اور بے روزگاری ۴۵؍ سال کی سب سے اونچی سطح پر پہنچ گئی۔ 
 پاکستان کی معاشی شرح نمو مدھم ہوئی ہے مگر مستقبل قریب میں بہتر ہوسکتی ہے۔ ’’چین پاکستان معاشی کوریڈور‘‘ پر اربوں ڈالر خرچ کئے جارہے ہیں۔ یہ ایسا انفراسٹرکچر پروجیکٹ ہے جو مغربی چین کو جنوبی پاکستان سے جوڑ دے گا چنانچہ ریلوے ، سڑک اور بندر گاہوں کی سہولت چین کو دُنیا کے دیگر ملکوں تک متبادل رسائی فراہم کرے گی۔ یہ کوریڈور پاکستان کو وسطی ایشیاء سے بھی جوڑے گا اور اگر افغانستان کے سیاسی حالات بہتر ہوئے تو پاکستان کو اس سے کافی فائدہ حاصل ہوگا۔ مگر، سارا انحصار اس کوریڈور کی تکمیل پر ہے۔ اگر کسی وجہ سے اس میں کوئی رکاوٹ پیدا ہوئی تو پاکستان کس قدر قرض میں ڈوبے گا اس کا اندازہ بھی نہیں کیا جاسکتا۔
 اوپر بنگلہ دیش کی فی کس جی ڈی پی کا ذکر آیا ہے۔ یہ عجب صورتحال ہے کہ زیر بحث تینوں ملکوں کی فی کس جی ڈی پی الگ مگر ایک دوسرے سے دور نہیں یعنی سالانہ ۱۸۰۰؍ ڈالر ہے۔ اس کا معنی یہ ہے کہ ہر ماہ ۱۱؍ ہزار روپے۔ معاشی عدم مساوات تینوں ملکوں میں ہے جبکہ دولت کی تقسیم بھی غیر مساوی ہے۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ ایشیاء کے دو سب سے زیادہ مالدار افراد ہندوستانی ہیں جبکہ ۸۰۰؍ ملین لوگ (مجموعی آبادی کا ۶۰؍ فیصد) ہر ماہ چھ کلو مفت راشن کیلئے طویل قطاروں میں کھڑا رہنے پر مجبور ہیں۔
 انسانی ترقیات (ہیومن ڈیولپمنٹ) کے معاملہ میں ہندوستان کا مقام ۱۳۳؍ واں، بنگلہ دیش کا ۱۳۵؍ واں اور پاکستان کا ۱۵۴؍ واں ہے۔ مقام حیرت ہے کہ اس جدول میں ہندوستان ۲۰۱۴ء کے مقابلے میں ایک مقام پیچھے اور بنگلہ دیش چھ مقام اوپر گیا ہے۔
 غیر سرکاری تنظیموں کے شعبے میں بنگلہ دیش جنوبی ایشیاء کا سب    سے زیادہ ترقی یافتہ ملک ہے جو ہیومن ڈیولپمنٹ انڈیکس میں اس کے بہتر اسکور کی اہم وجوہات میں شامل ہے۔ وہاں کی حکومت غیر سرکاری تنظیموں کے ساتھ معاندانہ طرز عمل نہیں اپناتی بلکہ جب ضرورت ہوتی ہے تو ان کےساتھ مل کر کام کرتی ہے۔ اس کے برخلاف ہندوستان اور پاکستان نے سول سوسائٹی گروپس اور افراد کی حوصلہ شکنی کی ہے جس کا نتیجہ ہے کہ ہم عالمی درجہ بندی( بالخصوص انسانی ترقیات درجہ بندی) میں پیچھے چلے گئے ہیں۔
 موجودہ صورتحال میں تینوں ممالک تقریباً ایک جیسے ہیں جبکہ ایک دو دَہائی پہلے ہندوستان کو بہتیرے معاملات میں سبقت حاصل تھی جو اَب نہیں ہے۔ فرقہ پرستی بھی تینوں ہی ملکوں میں پائی جاتی ہے۔ پاکستان نے خراب ترین دور ۱۹۸۰ء کی دہائی میں دیکھا تھا جبکہ ہندوستان اپنی اقلیتوں سے متعلق قوانین اور پالیسیوں کے بارے میں وہی تجربہ اب کررہا ہے جس کے تحت یہ دیکھا جارہا ہے کہ کس کو کیا کھانا چاہئے، کیا پہننا چاہئے اور کس سے شادی کرنی چاہئے یا کس سے نہیں کرنی چاہئے۔
  بیرونی دُنیا کی نگاہیں جنوبی ایشیاء پر ٹکی ہوئی ہیں اور آئندہ بھی رہیں گی کہ یہ خطہ کس جانب بڑھ رہا ہے۔ میری ذاتی رائے یہ ہے کہ تینوں ملکوں کے باہمی تعلقات میں تبدیلی رونما ہوگی اور ایک دوسرے کے تئیں ان کا رویہ بھی بدلے گا۔ یہی ہونا بھی چاہئے کیونکہ تینوں ممالک کل تک ایک ہی ملک تھے، ان میں بہت سی قدریں مشترک ہیں۔ باہمی یگانگت میں انہی کا فائدہ ہے۔ n 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK