Inquilab Logo

پاکستان اب فوج کے چنگل سے نکلنے کی کوشش کررہا ہے

Updated: September 27, 2022, 1:58 PM IST | Hassan Kamal | Mumbai

پاکستان میں مسلسل فوجی انقلابات آتے رہے اور ان تمام فوجی جنرلوں میں صرف دو ایسے جنرل تھے جن کا تعلق ہندوستان سے تھا۔

Picture .Picture:INN
علامتی تصویر ۔ تصویر:آئی این این

پاکستان میں گزشتہ ۳۰؍برس سے فوج کا راج تھا۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے کہ جس سے نکلنے کو کسی کا جی نہیں چاہتا کیونکہ پاکستان اپنی آزادی کے ۷۵؍ سال بعدتک مسلسل پاکستانی فوج کے چنگل میں رہا ہے۔ دنیا کا کوئی بھی ملک لے لیجئے جس سے کسی بھی دوسرے ملک سے لڑائی یا اس طرح کے دوسرے معاملات کا تعلق رہا ہو، اس کی یہ مجال نہیں کہ اپنی خارجہ پالیسی کو فوج سے غیرمتعلق رکھ سکے۔ پھر چاہے وہ امریکہ ہو، روس ہو، چین ہو، ہندوستان ہو، پاکستان ہو یا دنیا کا اور کوئی ملک، لیکن پاکستان سے ہمارے تعلقات کی داستان بہت پرانی ہے۔  یہ داستان  اتنی پرانی ہے جب پاکستان میں ایک لطیفہ عام تھا کہ ایک آدمی اپنی ملازمت کے لئے کسی سرکاری انٹرویو میں پہنچا اور اس سے طرح طرح کے سوالات کئے گئے اور وہ ہرسوال کا تشفی بخش جواب دیتا چلا گیا۔ آخر میں جب دیکھا گیاکہ وہ کسی سوال میں نہیں الجھ رہا ہے تو ایک انٹرویولینے والے نے اس سے پوچھا کہ اچھا یہ بتاؤ کہ پاکستان کا پرائم منسٹر کون ہے؟ تو اس نے ایک منٹ کے توقف کے بعد جواب دیا کہ حضور جب میں گھرسے نکلا تھا تو آئی آئی چندریگر تھے، اب معلوم نہیں کون ہے۔  یہ لطیفہ اس لئے مشہور ہوا تھا کہ پاکستان میں ، اس کے قیام کے چند سال بعد ہی سے حالات بدلنے لگے تھے۔ چند ہی سال میں  وہاں زبردست سیاسی خلفشار پیدا ہوا چنانچہ ہم نے دیکھا کہ محمدناظم علی، محمد علی بوگرا، آئی آئی چندریگر، چودھری محمد علی، سردار عبدالرب نشتر، نواب ممدوٹ علی خان، چودھری محمد علی نون، حسین سہروردی اور پتہ نہیں کتنے پرائم منسٹر بنتے گئے اور پانچ چھ ماہ بعد اترتے چلے گئے۔ پھرایک وقت ایسا آگیا کہ پاکستان میں لیڈرشپ کا فقدان پیدا ہوگیا۔ ایسے میں ہمیشہ پاکستان کے مسلم ووٹ بینک نے کسی نہ کسی طرح کسی فوجی کو اپنا کپتان بنالیا۔ ہمیں اس کی اطلاع اس وقت ہوئی جب ہماری نانی مرحومہ نے ہم سے بتایا کہ بیٹا کمال تمہیں معلوم ہے، پاکستان میں ایوب خان نے مارشل لاء لگا دیا ہے۔   اس کے بعد پاکستان میں مسلسل فوجی انقلابات آتے رہے اور ان تمام فوجی جنرلوں میں صرف دو ایسے جنرل تھے جن کا تعلق ہندوستان سے تھا۔ ایک جنرل محمداعظم ذکی اوردوسرے جنرل پرویز مشرف خان۔ اتفاق سے یہی جنرل پرویز مشرف تھے جنہوں نے پاکستان میں پہلی مرتبہ فوجی جنرلس کے بجائے پاکستانی جمہوریت کی بنیاد رکھی تھی۔ اس کے بعد پاکستان میں ایک جمہوری راج شروع ہوا۔ پہلے نواز شریف اس کے بعد بی بی بے نظیر بھٹو، اس کے بعد پھر نواز شریف اور ۲۰۱۸ء  میں پاکستانی کرکٹ کپتان نے وزارت عظمیٰ کو سنبھالا۔  پا کستان میں عمران خان کے آنے کے بعد حالات بالکل تبدیل ہوگئے۔سب سے پہلے تو پاکستان کی افواج اور خود پاکستان کے سیاسی حالات اس پر قائم نہیں تھے کہ عمران خان کی حکومت چل بھی سکتی ہے۔ کیونکہ یہ حکومت بہت تھوڑے وقفے کے ساتھ معرضِ وجود میںآئی تھی۔ فوجی جنرل بھی یہی سمجھتے تھے کہ یہ حکومت چل نہیں پائے گی۔ اس کے بعد انہوں نے کسی طریقے سے دوسری چند سیاسی پارٹیوں کو یکجاکرکے پاکستان کی امارت کو ایک مستقل شکل دی۔ 
 شروع شروع میں عمران خان کے معاملات بہت خراب تھے۔ اس وقت ہندوستان تک میںیہ مشہور تھا کہ پاکستان کی عمران حکومت فوج کے سہارے سے چل رہی ہے لیکن عمران خان کی اپنی کچھ ذاتی پسند اور کچھ دوسری خصوصیات ، مثلاً ان کا انگلینڈ میں بڑھا ہوا کیریکٹر بھی تھا، بہت کام آیا تھا اور دوسال کے اندرہی اندر عمران خان نے وہاں کچھ ایسا کردکھایاکہ یہ لگنے لگا کہ پاکستان کے حالات بدسے بدتر ہوتے ہوئے سنبھلنے لگے ہیں۔ اس کے بعد کورونا آگیا۔ کورونا میں عمران خان کی سرکردگی نے ساری دنیا میں پاکستان کو ان تین ممالک کی صف میں لاکھڑا کیا جن میں کووِڈکے باوجودصنعتی حالات قابو میں تھے۔ اس کے بعد عمران نے پاکستان کی انٹرنیشنل ایکسپورٹ برادری اور اپنی سیاسی بصیرت سے دنیا میں ایک اچھا مقام پیدا کرلیا۔ اب عمران خان کی فوج کو بھی یہ خطرہ لگنے لگا کہ کہیں عمران خان فوج کو سیاست سے الگ نہ کردیں۔ اس وقت پاکستان میں صورتحال یہ ہے کہ جنرل باجوا ۲۹؍نومبر کو ریٹائرہونے والے ہیں۔ اس سے پہلے ایک اور بھی جنرل ریٹائر ہونے والا ہے۔ اس کے بعد جو جنرل ہیں ان میں جنرل اعظم خان، جنرل نوید انجم افسر ، جنرل اعظم شیخی اور جنرل آصف غفور کے نام شامل  ہیں۔ان میں سے تمام حکومت کے معاملات میں فوج کے عمل دخل کے بالکل خلاف ہیں۔ سب سے پہلے تو یہ معلوم ہوا کہ عمران خان کے ہٹنے کے بعدعمران خان کی مقبولیت نئی بلندیوں کی پرواز پر نکل گئی۔ اُن کا بالخصوص نوجوانوں میں مقبول ہونا کسی سے مخفی نہیں ہے مگر اس وقت پاکستان میں بیرونی قرضہ اپنی انتہاء پر پہنچا ہوا ہے۔ مہنگائی اپنے عروج پر ہے۔ بے روزگاری نے بھی کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا ہے۔ اس کے علاوہ سندھ اوربلوچستان پوری طرح سے سیلاب میں غرق ہورہا ہے۔ ڈالر پاکستان اور ہندوستان دونوں جگہ اوپرجارہا ہے۔  ہندوستان میں بھی کسان آندولن اپنے عروج پر رہا،  پاکستان میں بھی کسانوں کا آندولن سب سے اوپر ہے اور عمران خان اس کی قیادت کررہے ہیں۔ ہندوستان میں بھی بے روزگاری اور مہنگائی اپنے عروج پر ہے اور پاکستان میں بھی یہ عفریت روز اپنا منہ مزید بڑا کرتا جارہا ہے۔ تین چار مہینے کے بعد پاکستان میں الیکشن ہونے والا ہے۔ پہلے بھی ان کالموں میں لکھا جاچکا ہے کہ پاکستان کے بڑے ووٹ بینک میں، مسلم مڈل کلاس میں اور پاکستان سے باہر بسے ہوئے لاکھوں پاکستانیوں سے یہ پتہ چل رہا ہے کہ عمران خان واپس آنے والے ہیں اور تین چوتھائی اکثریت کے ساتھ واپس آنے والے ہیں۔ اگر ایسا ہوا تو کیا ہوگا، کیا پاکستان کے حالات بدلیں گے اور کیا معیشت کو سنبھالا مل سکے گا، یہ ہم آگے کسی کالم میں بتائیں گے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK