Inquilab Logo

پٹھان کی کامیابی:نفرت پر محبت کی فتح

Updated: February 01, 2023, 7:19 AM IST | Parvez Hafeez | Mumbai

ہندوستانی شہریوں نے جس والہانہ انداز میں پٹھان کا خیر مقدم کیا ہے، جس جوش و خروش سے وہ سنیماگھروں میں جارہے ہیں اور فلم کی نمائش کے دوران وہ جس شادمانی اورسرشاری کا مظاہرہ کررہے ہیں اس کا تجزیہ آسان نہیں ہے۔

Pathan movie
پٹھان فلم

عوام نے اپنافیصلہ سنادیا ہے۔ شاہ رخ خان کا کرشمہ بھی برقرار ہے اور ان کی مقبولیت بھی۔ ان کی پچھلی چند فلمیں باکس آفس پر ناکام کیا ہوئیں، ان کے مخالفین کہنے لگے کہ کنگ خان کا زمانہ لد گیا ہے لیکن پٹھان کی تاریخی کامیابی کے ذریعہ شاہ رخ نے دنیا کواپنی ہی ایک پرانی فلم کا مکالمہ پھر سے یاد دلادیا: پکچر ابھی باقی ہے میرے دوست۔
  پیر کے دن جب میں یہ کالم لکھ رہا ہوں فلم ۵۰۰؍کروڑ کا بزنس کرچکی ہے اور دنیا بھر میں اس کی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے لگ رہا ہے کہ فلم باکس آفس کے تمام ریکارڈ توڑ کر نئی تاریخ رقم کرنے جارہی ہے۔ویسے شاہ رخ کا دعویٰ ہے کہ عوام کی محبت ان کے نزدیک ان کروڑوں روپے سے زیادہ اہم اور قیمتی ہے۔یہ پہلی ہندی فلم ہے جو امریکہ، برطانیہ اورسعودی عرب سمیت دنیا کے ایک سو ممالک میں کامیابی کے نئے جھنڈے گاڑ رہی ہے۔معروف روزنامہ دی گارجین نے پٹھان کو جیمز بانڈ کی فلموں سے زیادہ دلچسپ اور تفریحی قرار دیا ہے۔سوال یہ ہے کہ آخر اس فلم میں ایسی کیا خاص بات ہے جو نہ صرف ہندوستان میں بلکہ دنیا بھر میں لاکھوں لوگوں کوتھیٹروں میں جانے پر مجبور کررہی ہے؟کیا یہ صرف شاہ رخ کی شخصیت کا کرشمہ ہے؟کیا یہ ان کے اسٹارڈم کا کمال ہے؟ اگر ان کا اسٹارڈم ہی فلم کی کامیابی کا ضامن ہوتا تو فین، جب ہیری میٹ سجل اور زیرو جیسی فلمیں فلاپ کیوں ہوتیں؟
  ہندوستانی شہریوں نے جس والہانہ انداز میں پٹھان کا خیر مقدم کیا ہے، جس جوش و خروش سے وہ سنیماگھروں میں جارہے ہیں اور فلم کی نمائش کے دوران وہ جس شادمانی اورسرشاری کا مظاہرہ کررہے ہیں اس کا تجزیہ آسان نہیں ہے۔ ملٹی پلیکس ہوں یا سنگل اسکرین سنیماگھر ہر جگہ لوگوں کا ردعمل ایک جیسا ہے۔ ہال کے اندر فرط جذبات سے انہیں ناچتے گاتے، دھوم مچاتے اور ہال سے باہر آتے وقت ان کے چہروں پر جھلکتے مسرت و انبساط کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے جیسے وہ کسی جیت کا جشن منارہے ہوں۔ کیا آپ جانتے ہیں وہ کس جیت کا جشن منارہے ہیں؟
 یہ بڑے اسکرین پر چار برسوں کے بعد شاہ رخ خان کی واپسی کا جشن تو ہے ہی اور فلم کے مرکزی کردار پٹھان کی فتح یابی کا جشن بھی ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ پچھلے ایک ہفتے سے سنیماگھروں کے اندر اور باہر نفرت پر محبت کی جیت کا اور تمام بندشوں کے ٹوٹنے کا جشن بھی منایا جارہا ہے۔یہ جشن بے حد اہمیت کا حامل ہے کیونکہ بہت دنوں بعد ہندوستانی عوام بلاتفریق مذہب و ملت متحد ہوکر کوئی جشن منارہے ہیں۔ نفرت کے سوداگروں نے پچھلے چند برسوں میں ملک کے مختلف اداروں کے ساتھ ساتھ ہندی فلم انڈسٹری کو بھی تقریباً تباہ کرکے رکھ دیا۔آج لاکھوں عام ہندوستانی پٹھان کی کامیابی کے ذریعہ اس عظیم انڈسٹری کے احیاء کا جشن منارہے ہیں۔
 پچھلے کئی ہفتوں سے پٹھان کی مخالفت میں صرف بجرنگ دل جیسی شرپسند تنظیمیں ہی نہیں ریاستی وزیر بھی کھل کر مہم چلارہے تھے۔ پٹھان کو ناکام کرنے کی اس مہم میں گودی میڈیا بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہا تھا۔فلم کے ایک گانے پرہندوؤں کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچنانے کا الزام لگاکر عوام کو مشتعل کرنے کی سازش کی گئی۔ لیکن لاکھوں کی تعداد میں سنیماگھروں میں پہنچ کر انہوں نے بائیکاٹ گینگ کو یہ پیغام دے دیا کہ انہیں اندھ بھکتوں سے یہ پوچھنے کی ضرورت نہیں ہے کہ وہ کیا کھائیں، کیاپہنیں، کس سے محبت کریں یا کون سی فلم دیکھیں اور کون سی فلم نہ دیکھیں۔
 پٹھان پر کھڑے کئے گئے غیر ضروری تنازعے اور اس کی شاندار کامیابی کو سمجھنے کے لئے ہمیں ملک کے موجودہ معاشرتی اور سیاسی تناظر کو سمجھنا ضروری ہے۔ پچھلے آٹھ برسوں میں جمہوریت اور سیکولرزم دونوں اس قدر ناتواں ہوگئے بلکہ کردئے گئے ہیں کہ اب وطن عزیز میں نہتنوع (Diversity)  کے لئے جگہ بچی اور نہ ہی اختلاف  رائے (Dissent)  کے لئے۔ لوگوں کے اذہان میں جارح قوم پرستی کا زہر اس قدر بھردیا گیا کہ اب ہر ایرا غیرا شخص دیش دروہی اور دیش پریمی کے سرٹیفکیٹ تقسیم کرتا پھر رہا ہے۔ سربراہ مملکت ہی نے جب لوگوں کو ان کے کپڑوں سے پہچاننے کی صلاح دے ڈالی تو پھر ٹیچر ہو یا بینک کا اہلکار، ٹیکسی ڈرائیور ہویا سبزی فروش اب لوگ ان کی اہلیت کے بجائے ان کی مذہبی شناخت پوچھ کر ان سے کام لینے لگے۔تقریباً ایک صدی تک ہندی فلم انڈسٹری سیکولرزم اور بھائی چارے کا مثالی گہوارہ رہی۔ لیکن جب پورے ملک کی فضا ہی مسموم ہوگئی تو بھلا بالی ووڈ اس لعنت سے کیسے بچ سکتاتھا؟ شاہ رخ خان جیسے اداکار جن کی اہلیہ ہندو ہیں اور جن کے گھر میں دیوالی اور عید دونوں تہوار منائے جاتے ہیں،بھی نیو انڈیا میں تیزی سے پھیلتی شدت پسندی اور تنگ نظری کا شکار ہوگئے۔ ۲۰۱۵ء  میں انہوں نے معاشرے میں بڑھتی عدم رواداری پر تشویش کا اظہار کیا کردیا گویا بھڑ کے چھتے کو چھیڑدیا۔ انہیں اینٹی نیشنل کا لقب بھی دیا گیا اور ان کا موازنہ حافظ سعید سے بھی کیا گیا۔کسی نے یہ بھی یاد کرنے کی زحمت نہیں کی کہ شاہ رخ کے والد تاج محمد خان ہندوستان کی جنگ آزادی کے مجاہد تھے۔پٹھان کے بائیکاٹ کی اپیل تو سنگھیوں نے چند ماہ پہلے کی تھی لیکن اس کا  بیج آٹھ سال پہلے بویا گیا تھا۔ شاہ رخ کے اس بے ضرر سے بیان سے یوگی آدتیہ ناتھ(اس وقت وہ بی جے پی کے رکن پارلیمنٹ تھے) اس قدر برہم ہوگئے کہ انہوں نے ۲۰۱۵ء  میں یہ وارننگ دے دی تھی کہ اگر ہندوؤں نے شاہ رخ کی فلموں کا بائیکاٹ کردیا تو وہ کسی قلاش مسلمان کی طرح سڑکوں پرمارے مارے چلیں گے۔  اس کے بعد سے شاہ رخ مسلسل فرقہ پرستوں کے نشانے پر ہیں۔ ۲۰۲۱ء  میں ان کے بیٹے آرین کو منشیات کے جعلی کیس میں پھنسانے کا مقصد بھی شاہ رخ کو سبق سکھانا تھا۔ ایسی اذیت ناکی سے گزرنے کے باوجود شاہ رخ نے جبر کے سامنے خود سپردگی نہیں کی۔ پٹھان کی یہ عدیم المثال کامیابی شاید شاہ رخ کے صبر و استقلال کا پھل بھی ہے۔ ویسے بھی شاہ رخ خان اسم بامسمیٰ ہیں۔ یہ وہ بادشاہ ہے جو پچھلے تیس سالوں سے کروڑوں ہندوستانیوں کے دلوں پر راج کررہا ہے۔ 
  پس نوشت: Desperately Seeking Shahrukh  نامی کتاب کی مصنفہ شرایانا بھٹاچاریہ نے فلم پٹھان کی بے پناہ کامیابی پر شادمانی کا اظہار کرتے ہوئے لکھا ہے: ’’  ہم لوگ واقعی خوش قسمت ہیں کیونکہ ہم شاہ رخ خان کے عہد میں جی رہے ہیں۔‘‘ 
  میرے خیال میں شاہ رخ کے لئے اس سے بڑا اور بہتر خراج تحسین نہیں ہو سکتا۔ (گارجین)n

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK