Inquilab Logo

کام کی سیاست نفرت کی سیاست پر بھاری پڑگئی

Updated: February 20, 2020, 1:36 PM IST | Khalid Shaikh

عام آدمی پارٹی کے سربراہ اروند کیجریوال واقعی مقدر کا سکندر واقع ہوئے ہیں۔ گزشتہ دوالیکشن میں انہوں نے جس طرح بی جے پی کو پٹخنی دی وہ تاریخ کا حصہ بن چکی ہے۔ ان دونوں الیکشن میں بڑی مشابہت پائی جاتی ہے۔ ’آپ ‘ کے سیاسی اکھاڑے میں اترنے سے پہلے انتخابی دنگل کانگریس اور بی جے پی کی درمیان ہوا کرتا تھا۔ ۱۹۹۸ء میں دہلی پر بی جے پی کا راج تھا۔

اروند کیجریوال ۔ تصویر : پی ٹی آئی
اروند کیجریوال ۔ تصویر : پی ٹی آئی

 عام  آدمی پارٹی کے سربراہ اروند کیجریوال واقعی مقدر کا سکندر واقع ہوئے ہیں۔ گزشتہ دوالیکشن میں انہوںنے جس طرح بی جے پی کو پٹخنی دی وہ تاریخ کا حصہ بن چکی ہے۔ ان دونوں الیکشن میں بڑی مشابہت پائی جاتی ہے۔ ’آپ ‘ کے سیاسی اکھاڑے میں اترنے سے پہلے انتخابی دنگل کانگریس اور بی جے پی کی درمیان ہوا کرتا تھا۔ ۱۹۹۸ء میں دہلی پر بی جے پی کا راج تھا۔ اس کے بعد وہ اقتدار سے مسلسل محروم رہی ہے۔ شیلا دکشت کی قیادت میں کانگریس نے ۱۵؍ سال کرّوفر سے گزارے۔ ۲۰۱۳ء میں بی جے پی لیڈروں کو ان کا بن باس ختم ہوتا نظرآیا۔ شیلا دکشت کو حکومت مخالف رجحان کا سامنا تھا تو منموہن سنگھ حکومت پر بدعنوانی کے گہرے سائے منڈلارہے تھے۔ ۲۰۱۲ء میں انّا ہزارے کے کرپشن مخالف آندولن سے جنمی ’آپ‘ سے اسے کوئی خطرہ نہیں تھا لیکن جو نتیجہ آیا اس نے سبھوں کو چونکا دیا۔ ۷۰؍ میں سے ۲۸؍ سیٹوں پر ’آپ‘ کی کامیابی کسی کے وہم وگمان میں نہ تھی۔ اس کے بعد جو ہوا وہ بھی کسی ڈرامے سے کم نہ تھا۔ بی جے پی کو اقتدار سے دور رکھنے کے لئے کانگریس نے حکومت بنانے میں ’آپ‘ کو باہری حمایت دی جو ۴۹؍ دنوں میں اسمبلی میں لوک پال بل منظور نہ ہونے پر ڈھیر ہوگئی۔ لوک پال کی تقرری انّا آندولن کا بنیادی ایجنڈا تھا اس لئے کیجریوال نے اصولی سیاست کی بنیادپر مستعفی ہونا مناسب سمجھا جس کا دہلی باسیوں نے بُرا مانا جو ان سے بڑی امیدیں وابستہ کئے ہوئے تھے۔ اس کا اثر ۲۰۱۴ء کے لوک سبھا الیکشن پر بھی پڑا۔ بی جے پی نے دہلی کی ساتویں سیٹوں پر قبضہ کرلیا۔ یہ وہ دور تھا جب مودی کی مقبولیت عروج پرتھی اور بی جے پی یکے بعد دیگرے ریاستی انتخابات میں فتوحات کے جھنڈے گاڑ رہی تھی۔ ۲۰۱۵ء کے الیکشن میں کیجریوال نے مودی سے سبق لیتے ہوئے ڈیولپمنٹ اور فلاحی اسکیموں کا اعلان کرکے دہلی میں بی جے پی کی پیشقدمی پر بریک لگادیا اور ۷۰؍ میں سے ۶۷؍ سیٹوں پرکامیابی کاریکارڈ بنایا۔ بی جے پی کو تین سیٹوں پر اکتفا کرنا پڑا جبکہ کانگریس کھاتا کھولنے میں ناکام رہی۔ 
  حالیہ الیکشن کا منظر نامہ بھی اسی نہج پرتھا۔ ۲۰۱۹ء کے لوک سبھا الیکشن میں دہلی میں بی جے پی نے ساتویں سیٹوں پر برتری برقرار رکھی لیکن الیکشن سے پہلے اور بعد میں بالترتیب تین اور دو ریاستیں اس کے ہاتھوں سے نکل چکی تھیں اوراس کے ناقابل تسخیر ہونے کا بھرم ٹوٹ چکا تھا اس لئے حالیہ الیکشن مودی ۔شاہ کے لئے ’کرویا مرو‘ کی حیثیت رکھتا تھا۔ دہلی پر قبضے کا ایک فائدہ یہ  ہوتا کہ مرکز کو سی اے اے ، این پی آر اور این آر سی کے خلاف جامعہ اور شاہین باغ سمیت دہلی میں ہونے والے مظاہروں اور ستیہ گرہ سے مؤثر طورپر نپٹنے کا موقع ملتا۔ یہ  جیت اس لئے بھی ضروری تھا کہ سی اے اے کی پارلیمنٹ میں منظوری کے بعد یہ پہلا الیکشن تھا جسے لوگوں نے قانون پر ریفرنڈم سے تعبیر کیا۔ اگرالیکشن سے ’آپ‘ کی بقا وابستہ تھی تو اس سے مودی ۔ شاہ کا وقار بھی وابستہ تھا۔ اس کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ ان دونوں نے انتخابی مہم میں تمام وزراء ، ممبران پارلیمنٹ اور وزراء اعلیٰ کی فوج اتارنے کے بعد انہیں نفرت آمیز بیان بازی اور اشتعال انگیزی کی کھلی چھوٹ دے دی تھی چنانچہ وہ طوفان بدتمیزی برپا کیا گیا جس کی نظیر انتخابی مہم کی تاریخ پیش کرنے سے قاصر ہے ۔ الیکشن کی اہمیت کا اندازہ اس سے بھی لگایاجاسکتا ہے کہ بی جے پی لیڈروں نے ۶۵۷۷؍ پبلک میٹنگوں سے خطاب کیا اورامیت شاہ، بی جے پی چیف جے پی نّڈا اور وزیر دفاع راجناتھ سنگھ کی سرکردگی میں بالترتیب ۵۲، ۴۱؍ اور ۱۲؍ روڈ شوز کئے۔ اس کے باوجود اگر بی جے پی کو دوسری بار کیجریوال کے ہاتھوں شرمناک شکست ہوئی تو اس کی بنیادی وجہ شاہ کی حکمت عملی تھیں وہ بھول گئے کہ اسمبلی الیکشن مقامی مسائل پر لڑے جاتے ہیں اور لوک سبھا الیکشن قومی مسائل پر۔ سی اے اے ، آتنک واد اور پاکستان قومی مسائل ہیں۔ انہیں شاہین باغ سے جوڑکر جس طرح ہندو ۔ مسلم رنگ دینے کی کوشش کی گئی اورسی اے اے کو نیشنلزم کا ہتھیار بناکر سماج کو ملک دشمنوں اور غداروں سے پاک کرنے کی منصوبہ بندی کی گئی وہ لوگوں کو متاثر نہ کرسکی۔ بی جے پی کی ناکامی کیلئے امیت شاہ پورے طورپر ذمہ دار ہیں انہوںنے متعدد بار اپنی تقاریر میں لوگوں سے اپیل کی کہ وہ ای وی ایم کا بٹن اتنی زور سے دبائیں کہ کرنٹ شاہین باغ تک پہنچے۔ ووٹروں نے اپیل کی تعمیل میں اتنے زور سے بٹن دبایا کہ شارٹ سرکٹ ہوگیا جس میں بی جے پی بھسم ہوگئی۔ مودی کو بھی بری الذمہ قرار نہیں دیاجاسکتا۔ شرپسندوں کی لگام کسنے کے بجائے ان کی خاموشی نے ان کے حوصلے بڑھائے ہیں۔ اپوزیشن پر ان کےبے بنیاد حملوں اور شاہین باغ کے پرامن دھرنے کو ’انارکی ‘ پھیلانے کی ناپاک سازش کا نام دینا ان کے منصب کو زیب نہیں دیتا۔ بہتر ہوگا کہ وہ ۱۳۰؍ کروڑ ہندوستانیوں کے پردھان سیوک ہونے اور سب کا ساتھ سب کا وکاس، سب کا وشواس جیسے کھوکھلے دعوے کرنا چھوڑدیں اوراپنی زبان سے ان کے تقدس کو پامال نہ کریں۔
  بی جے پی لیڈروں کے برعکس کیجریوال کا رویہ سنجیدگی ومتانت  کی تصویر تھا۔ اپنے خلاف ہونے والی الزام تراشی ، اشتعال انگیزی اور کردار کشی کے باوجود انہوںنے تہذیب کا دامن نہیں چھوڑا ۔ انہوں نے عوام کے سامنے اپنی کارگزاریاں رکھیں۔ پانی ، تعلیم اور صحت کے شعبے میں اپنی خدمات کا ذکر کیا اور فیصلہ عوام پر چھوڑ دیا۔ عوام نے ان کا بھرپور ساتھ دیا اور ۷۰؍ میں ۶۲؍ سیٹوں پر کامیاب کرکے سماج کو بانٹنے والی سیاست کا منہ توڑ جواب دیا۔ ہماری دانست میں ۶۲؍ سیٹوں پر ’آپ‘ کی کامیابی گزشتہ کے مقابلے زیادہ اہم اور زیادہ وقیع ہے ۔ کیجریوال نے اچھے کاموں کے ذریعے ڈیولپمنٹ کا جو ماڈل پیش کیا ہے دوسری پارٹیاں بھی اس سے فیضیاب ہوسکتی ہیں۔ امیت شاہ نے اعتراف شکست کی جو وجہ بیان کی ہے ہم اس پر کوئی تبصرہ نہیں کرنا چاہتے کیونکہ کینچلی بدلنے سے سانپ کے ڈسنے کی فطرت نہیں بدلتی۔ بہار اور بنگال کے الیکشن میں ایک بار پھر وہ اور ان کے لیڈر اصلی رنگ میں نظرآئیں گے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK