Inquilab Logo

ناانصافی کے خلاف احتجاج

Updated: January 24, 2021, 7:20 PM IST | Sayyed Iqbal

آج کوئی ملک یہ دعویٰ نہیں کرسکتا کہ وہ اسکینڈل سے پاک ہے یا اس کے یہاں ناانصافیاں نہیں ہوتی ہیں۔ ہم جو ہزار ہاسال پرانی تہذیب کے پروردہ ہیں اور گاندھی کے دیش کے باسی کہلاتے ہیں ، وہ بھی شیئرز گھوٹالا، چارہ گھوٹالا ، اسٹمپ گھوٹالا، ستیم گھوٹالا، کامن ویلتھ گیم گھوٹالا، پنجاب نیشنل بینک گھوٹالا، پی ایم کیئر فنڈ گھوٹالا اورایسے کتنے ہی اسکینڈل اپنی جیب میں چھپائے گھومتے ہیں اورپتہ نہیں اورکتنے گھپلے ہمیں دیکھنے ہوں گے؟اسی طرح ہمارے یہاں ناانصافیوں کی بھی ایک تاریخ ہے......

Picture.Picture :INN
علامتی تصویر ۔ تصویر:آئی این این

’ کون بنے گا کروڑپتی‘کے لاکھوں ناظرین کو اگر یہ خبر لگ جائے کہ ایک کروڑ روپے کا انعام پانے والے حضرات نے ریئلٹی شو کے انتظامیہ سے ساز باز کررکھی تھی اوراس سودے میں انہیں سوالات کے جواب پہلے ہی بتادیئے گئے تھے تو شاید ملک بھر میں کہرام مچ جائے، سارے معاملے کی  انکوائری ہو گی اور ہوسکتا ہے ٹیلی ویژن کا یہ مقبول ترین شو بند کردیاجائے... لیکن  اس طرح کا پہلا شو (Twenty One) جب ۱۹۵۶ء میں امریکہ میں دکھایا گیا اور ایک لاکھ ڈالر کا انعام ایک ہی صاحب کو تین بار ملا تو ناظرین کو شک ہونے لگا کہ ہونہ ہو، کہیں کوئی گڑبڑضرور ہے ۔ اخبارات اور ٹیلی ویژن پربحثیں ہونے لگیں اور یہ امریکہ کا نمبروَن اسکینڈل بن گیا۔ عوام کے دباؤ میں امریکی پارلیمنٹ نے اس کی باقاعدہ انکوائری کی اور انتظامیہ کے ساتھ انعام پانے والے صاحب  Von.Doren  کو بھی  انکوائری کمیٹی کے سامنے پیش ہونا پڑا۔ کمیٹی نے ان کی ایسی خبرلی کہ وان ڈورین رونے لگا اور ساری دنیا کے سامنے اسے اعتراف کرنا پڑا کہ پروگرام سے قبل اسے سارے جوابات بتادیئے گئے تھے۔ سارے امریکہ کو ٹیلی ویژن سے چپکائے رکھنے والا یہ اسکینڈل اتنا دلچسپ تھا کہ اس کے بارے میں معمولی سی معمولی بات جاننے کیلئے ہر کوئی بیقرار نظر آتا۔ ہراسکینڈل کی یہی خاصیت ہوتی ہے۔
  بوفورس معاملے میں ہمارے ہاں بھی اتنی ہی دلچسپی پیدا ہوگئی تھی۔ سب حیران تھے کہ ایک صاف ستھرے کردار کا مالک جسے اولاً تو وزیراعظم بننے کی خواہش نہیں تھی، جب اپنی پارٹی کے اصرار پر یہ منصب قبول کرتا ہے تواس حمام میں دوسرے سیاستدانوں کی طرح عریاں بھی ہوجاتا ہے۔ ٹھیک یہی حال ٹوجی اسپیکٹرم گھپلے کے بے نقاب ہونے پر ہوا تھا۔ ان دنوں بھی اپوزیشن نے ایسا شور مچایا تھا کہ منموہن سنگھ اپنی ساری علمیت اور شرافت کے باوجود اپنی حکومت نہیں بچا سکے تھے۔ اس طرح کے انکشافات میں اکثر ایسے موڑ آتے ہیں کہ دیکھتے دیکھتے ہماری محبوب اورقدآور شخصیتیں اچانک گرپڑتی ہیں اور عام آدمی کو یقین نہیں آتا کہ اب تک جو اس نے سوچ رکھا تھا وہ صحیح تھا یا جواَب دیکھ رہا ہے ، وہ درست ہے۔ کیا کل تک کوئی سوچ سکتا تھا کہ امریکہ ایسے ملک کا صدر الیکشن میں اپنی شکست تسلیم کرنے کے بجائے اپنے حامیوں کو تشدد پراکسائے گا اوراس اقدام سے امریکی جمہوریت ساری دنیا میں بدنام ہوگی۔ تاریخ نے امریکی صدر نکسن کی بدمعاشی بھی دیکھی ہے جب اپوزیشن پارٹی کے آفس میں مائیکرو فون لگا کر وہ وہاں ہونے والی گفتگو سناکرتا تھا۔ جب ’واشنگٹن پوسٹ‘ نے اس واقعہ  پر تفتیشی رپورٹ شائع کی اور ساری حقیقت بے نقاب ہوگئی تو ساری دنیا ششدررہ گئی کہ بے خوف صحافت اپنے ملک کے صدر کو بھی معزول کرسکتی ہے۔ یہ اور بات ہے کہ نکسن نے استعفیٰ دے کر اپنی رہی سہی عزت بچالی تھی۔ نکسن کے بعد امریکی صدر بل کلنٹن اور ان کی ایک اہلکار ( مونیکا لیونسکی ) کے آپسی تعلقات کے انکشاف پر بھی زلزلہ آگیا تھا۔ مونیکا نے اپنی داستان عشق ایک دوست کو چٹخارے لے لے کر سنائی تھی اور وہ گفتگو انٹرنیٹ پر ساری دنیا نے سن لی تھی ۔ جس حقیقت کو صدر اور ان کی معشوقہ چھپا رہے تھے عوام کی عدالت میں انہیں اقرار کرنا ہی پڑا۔ قبل اس کے کہ پارلیمنٹ کلنٹن کو معزول کرتی، انہوںنے استعفیٰ دینے میں عافیت سمجھی اور وہائٹ ہاؤس سے چپ چاپ نکل آئے۔ پھر بھی جھو ٹ بولنے پر انہیں ۹۰؍ ہزار ڈالر کا جرمانہ ادا کرنا پڑا اوران کا وکالت کا لائسنس ضبط کرلیا گیا۔ امریکہ کی سپریم کورٹ کے ایک سیاہ فام جج (کلیرنس تھامس ) کی تقرری سے قبل ایک  اسکینڈل سامنے آگیا جب ایک خاتون نے ان پر جنسی ہراسانی کا الزام لگایا۔ ساری دنیا ان کے خلاف ہوگئی اورانہیں پارلیمانی انکوائری کا سامنا کرنا پڑا۔ محترم جج بمشکل چھوٹی سی Marginسے اپنی کھال بچاکر اس اسکینڈل سے بچ پائے البتہ اس واقعہ کے بعد خواتین ایسے معاملات پر کھل کر بولنے لگیں۔ ساتھ ہی اعلیٰ مناصب پر تقرری سے قبل لوگوں کے اخلاقی کردار کی چھان بین بھی لازمی قراردی گئی۔ 
  روڈنی کنگ نامی سیاہ فام شہری کا واقعہ بھی امریکی سماج کا  ناقابل فراموش سانحہ بن گیا تھا۔ جب گورے پولیس والوں نے اسے کار سے گھسیٹ کر زدوکوب کیا تھا۔  پولیس والوں کو اندازہ نہیں تھا کہ کوئی ان کی اس غیرقانونی حرکت کی فلم بھی بنارہا ہے۔ یہ فلم عدالت میں پیش کی گئی مگر خاطی پولیس والے رہا کردیئے گئے۔ اب کیا تھا۔ اس ناانصافی کے خلاف لاس اینجلس کی سیاہ فام آبادی نے توڑ پھوڑ شروع کردی اوراس فساد میں۵۰؍ سے زائد افراد مارے گئے۔ سفید فاموں کی کروڑہا کی جائیدادں بھی تلف ہوئیں لیکن  وہاں کی انصاف پسند میئر نے اپنے طورپر انکوائری کروائی تو ۲؍پولیس والوں کو جیل کی ہوا کھانی پڑی اور باقی ۲؍کو ملازمت سے برطرف کردیا گیا۔ تب کہیں جاکر شہر کا امن بحال ہوسکا۔ اس واقعہ سے قبل ۱۹۶۸ء کے اولمپک میں سیاہ فام ایتھلیٹ نے نسل پرستی کے خلاف انوکھے انداز میں احتجاج درج کرایاتھا۔ انہوںنے سونے اورکانسہ کا تمغہ لینے کے دوران اپنے ہاتھوں میں  چھپے موزے بلند  کئے تو ساری دنیا نے دیکھا کہ امریکہ میں سیاہ فام آبادی پرکس قدر ظلم ہوتا ہے۔ اولمپک کمیٹی کھلاڑیوں کے اس اقدام سے اتنی ناراض ہوئی کہ اس نے انہیں اسٹیڈیم سے باہر کردیا۔ جوابی کارروائی کے طورپر امریکہ نے روس کی افغانستان میں جنگ کو جواز بناکر روسی اولمپک کا بائیکاٹ کیا اور بعد میں جواباً روس نے امریکی اولمپک کا بائیکاٹ کیا۔
  اس طرح کے اسکینڈل صرف سیاست تک محدود نہیں رہتے بلکہ زندگی کے ہرشعبے میں نظرآتے ہیں۔ فرق صرف یہ ہوتا ہے کہ کہیں یہ منظر  عام پر آجاتے ہیں اورکبھی انہیں اس خوبصورتی سے چھپالیا جاتا ہے کہ کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہوتی۔ چارلی چپلن ایسے شہرۂ آفاق اداکاربھی ایک اسکینڈل کا موضوع بن گئے تھے جب ایک کم عمر اداکارہ ان کے عشق میں گرفتار ہوکر دیوانگی پر اُترآئی۔ وہ کسی بھی وقت ان کے گھر پہنچ جاتی، کبھی رات کے کسی پہر میں ان کے مکان کے شیشے توڑکر اندر داخل ہوجاتی، کبھی پستول لے کر ان کی خوابگاہ میں گھس جاتی۔ چپلن ہر باہر اسے پولیس کے حوالے کر دیتے مگر ایک بار اس اداکارہ نے دعویٰ کیا کہ وہ ان کے بچے کی  ماں  بننے والی ہے ۔ حالانکہ تفتیش کے دوران یہ دعویٰ جھوٹا ثابت ہوا پھر بھی چپلن نے اس بچے کی کفالت کا ذمہ اپنے سرلے لیا۔ ویسے چپلن نے اونا نامی جس خاتون سے شادی کی تھی وہ ان سے تیس سال چھوٹی تھیں۔
  ۵۰ء اور ۶۰ء کی دہائی میں Elvis Presley اپنے وقت کے مقبول ترین  پاپ اسٹار تھے جن کے تنگ لباس، رقص کے انداز اور رومانٹک گیتوں نے نوجوانوں کو دیوانہ بنا رکھا تھا اور جن کے Live شوز کو امریکہ کی۹۰؍ فیصد آبادی نے دیکھا تھا۔ افسوس! صرف ۴۲؍ سال کی عمر میں منشیات کا عادی یہ گلوکاراپنے غسل خانے میں مردہ پایا گیا لیکن آج بھی اس کی مقبولیت کا یہ عالم ہے کہ سالانہ ۶؍ لاکھ سے زائد افراد اس کے گھر کی زیارت کرنے پہنچتے ہیں۔ ۹۰ء کی دہائی میں میڈونا نامی گلوکارہ نے بھی اپنے شوکچھ اس طرح کئے کہ مذہبی قیادت نے اس کی پروگراموں پر پابندی لگادی تھی۔ محترمہ گلے میں تسبیح ڈالے ، اسٹیج پر جلتی ہوئی صلیب رکھے، ہیجان انگیز لباس پہن کر گانے کے دوران ایسی نازیبا حرکتیں کرتیں کہ کچھ شائقین پاگل ہوجاتے۔ جب پوپ نے اٹلی میں ان کے شوز کے بائیکاٹ کا حکم دیا تو محترمہ کی شہرت کم ہونے کے بجائے کچھ زیادہ ہی بڑھ گئی ۔ یہ رجحان اتنا عام ہوا کہ آج ہر گلوکار چاہے وہ برٹینی  اسپیر ہویا لیڈی گاگا، سبھی ان کی تقلید کرتی نظرآتی ہیں۔
 اس طرح کے گھپلوں سے مذہبی قیادت بھی پاک نہیں۔ جمی سواگارٹ نامی مبلغ ایک طوائف کے ساتھ رنگ رلیاں مناتے ہوئے پائے گئے تھے۔ بل ہانیگر کے خلاف بھی ان کے Choir کی لڑکیوں نے الزام لگایا تھا کہ موصوف دست درازی سے باز نہیں آتے جبکہ اس کیلئے انہوں نے اپنے مخالفین ’ شیطان اورکمیونسٹوں‘ کو مورد الزام ٹھہرایا تھا۔ جم بیکرنامی پادری بھی بیس سال تک اپنے عقیدت مندوں کو بیوقوف بناکر لاکھوں ڈالر کا غبن کرتے رہے اور جب اپنی ہی سیکریٹری کے ساتھ ایک ہوٹل میں قابل اعتراض حالت میں پائے گئے تب جاکر لوگوں کی آنکھیں کھلیںلیکن تب تک ان پارساؤں کی داستانیں ساری دنیا میں مشہور ہوچکی تھیں۔ جن مالی گھپلوں کو ہم ’پونزی‘  اسکیم کے نام سے پکارتے ہیں، وہ دراصل چارلس پونزی  سے موسوم ہے۔ اس کے شیطانی دماغ نے اندازہ لگایا کہ امریکی اسٹامپس کو غیر ممالک سے خریدکر دوبارہ امریکہ میں بیچا جائے تو خاصا منافع ہوسکتا ہے کیونکہ یہ اسٹامپس غیر ممالک میں سستے ملتے ہیں۔ اس کیلئے اس نے اپنی کمپنی کا اشتہار دیا اور دعویٰ کیا کہ صرف دوماہ میں سرمایہ لگانے والوں کو دُگنا فائدہ ہوگا۔ یہ آخر اتنی پرکشش تھی کہ دھڑادھڑلوگ پیسہ لگانے لگے اوریہ راتوں رات مالا مال ہوگیا۔ لوگوں کوکچھ مہینوں تک تو منافع ملتا رہا پھر اچانک اس کے سوتے خشک ہوگئے۔ وہ تواچھا ہوا جو اس کی کمپنی کے ایک کارکن نے بھانڈا پھوڑدیا اور  پونزی گرفتار کرلیا گیا ورنہ بلین ڈالر کا یہ آسامی  نہ جانے مزید کتنے گھپلے کرتا، کچھ کہا نہیں جاسکتا لیکن  یہ فریبی جیل سے بھی فرار ہوگیا۔ آخر کئی ریاستوں میں ڈھونڈنے کے بعد اسے دوبارہ گرفتار کیا گیا اوراس کے وطن اٹلی بھیج دیا گیا۔ کہتے ہیں کہ یہ وہاں کے کسی خیراتی اسپتال میں بے سروسامانی کی حالت میں فوت ہوا۔
 لیکن پولٹزز پرائز کا گھپلا تو حیران کن ہے ۔ واشنگٹن پوسٹ کی ایک خاتون صحافی نے جب واشنگٹن شہرمیں منشیات کے عادی افراد کی رپورٹ لکھی تواس میں ایک ۱۱؍ سالہ لڑکے کی دردناک کہانی بھی تھی۔ رپور ٹ پڑھ کر  اس لڑکے کیلئے چاروں سمتوں سے پیغامات آنے شروع ہوگئے یہاں تک کہ اس وقت کے صدر ریگن کی بیوی نینسی ریگن نے بھی اپنے تعاون کا یقین دلایا۔ رپورٹ کچھ اتنی موثر تھی کہ۱۹۸۰ء کا پولٹززپرائز Janet Cooke کے نام کردیا گیا لیکن مقامی پولیس کو کچھ شبہ ہوا اوراس نے تحقیق کی تواس لڑکے کا کہیں بھی سراغ نہیں ملا۔ پولیس جنیٹ سے پوچھ تاچھ کی تواس نے بتایا کہ مذکورہ لڑکا اوراس کا خاندان کسی دوسری ریاست میں ہجرت کرچکا ہے۔ یہ سب دیکھ کر ایڈیٹر کا ماتھا ٹھنکا ۔ اس نے بھی جنیٹ کو بلا کر تفتیش شروع کی۔ پتہ چلا کہ ساری رپورٹ من گھڑت تھی اور جنیٹ نے صفحہ اول پر اپنا نام دیکھنے کیلئے یہ کہانی لکھی تھی۔ اخبار نے وہ انعام پولٹزر کمپنی کو واپس کردیا۔ آج کوئی ملک یہ دعویٰ نہیں کرسکتا کہ وہ اسکینڈل سے پاک ہے۔ ہم جو ہزار ہاسال پرانی تہذیب کے  پروردہ ہیں اور گاندھی کی دیش کے باسی کہلاتے ہیں ، وہ بھی شیئرز گھوٹالا، چارہ گھوٹالا، اسٹمپ گھوٹالا، ستیم گھوٹالا، کامن ویلتھ گیم گھوٹالا، پنجاب نیشنل بینک گھوٹالا، پی ایم کیئر فنڈ گھوٹالا اور  نہ جانےایسے کتنے ہی اسکینڈل اپنی جیب میں چھپائے مست رام بنے گھومتے ہیں.... اور پتہ نہیں کتنے اور گھپلے ہمیں دیکھنے ہوں گے۔ n

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK