Inquilab Logo

پرگیہ ٹھاکور کی زہر افشانی

Updated: December 28, 2022, 10:31 AM IST | Mumbai

سادھوی پرگیہ سنگھ ٹھاکور نے گزشتہ دنوں جو زہر افشانی کی ہے وہ نئی نہیں ہے۔ وہ اس ہرزہ سرائی کی نہ تو اولین مرتکب ہیں نہ ہی اُن کی جانب سے ایسی حرکت پہلی بار ہوئی ہے

photo;INN
تصویر :آئی این این

سادھوی پرگیہ سنگھ ٹھاکور نے گزشتہ دنوں جو زہر افشانی کی ہے وہ نئی نہیں ہے۔ وہ اس ہرزہ سرائی کی نہ تو اولین مرتکب ہیں نہ ہی اُن کی جانب سے ایسی حرکت پہلی بار ہوئی ہے۔ بعض لوگ عادت سے مجبور ہوتے ہیں اور بعض ایک خاص مقصد کے تحت ایسا کرتے ہیں۔ پرگیہ ٹھاکور کی عادت بھی ہے اور اُن کے سامنے مقصد بھی ہے۔ جس تقریر کے دوران اُنہوں نے زہر افشانی کی ہے وہ کرناٹک کے مشہور شہر شموگہ میں کی گئی ہے چنانچہ اس کا پہلا اور بہت واضح سبب یہ ہے کہ کرناٹک کے اکثریتی طبقے کے ووٹوں کو متحد کیا جائے یعنی پولرائزیشن۔ یہ اس لئے ہے کہ کرناٹک کے اسمبلی انتخابات اب زیادہ دور نہیں ہیں۔ ریاست میں بی جے پی کی حالت بھی خستہ ہے۔ اقتدار مخالف لہر تو موجود ہے ہی، کافی عرصہ سے یہاں اندرونی چپقلش اور خیمہ بازی یا گروپ بندی بھی پارٹی کو پریشان کئے ہوئے ہے۔ یدی یورپا گروپ ناراض چل رہا ہے۔ حال ہی میں ایک اہم لیڈر جناردھن ریڈی نے پارٹی سے علاحدگی بھی اختیار کی ہے۔ حکومت اور پارٹی پر وزیر اعلیٰ بسو راج بومئی کی گرفت کمزور ہے۔ اسی بنیاد پر حالیہ دنوں میں یہ قیاس آرائی بھی جاری تھی کہ بومئی کو وزارت اعلیٰ سے ہٹا دیا جائیگا تاکہ اقتدار مخالف لہر کو بے اثر کیا جاسکے (گجرات پیٹرن)۔ قارئین جانتے ہیں کہ گجرات میں وزیر اعلیٰ روپانی اور اُن کی پوری کابینہ کو بے دخل کرکے بھوپیندر پٹیل کو وزیر اعلیٰ بنایا گیا تھا۔ 
 سادھوی پرگیہ کی زہر افشانی کا دوسرا سبب کانگریس کی بھارت جوڑو یاترا کے اثرات کو زائل کرنا بھی ہوسکتا ہے کہ اگر کانگریس محبت کی دُکان کھولنا چاہتی ہے تو کچھ ایسا کیا جائے کہ محبت کی دُکان کی چمک دمک معدوم ہوجائے۔ اس ضمن میں یاترا کی اب تک کی کامیابی کو پیش نظر رکھنا چاہئے۔ کیرالا اور تمل ناڈو میں یاترا کی جو شہرت ہوئی اور اسے جو مقبولیت ملی اُس کے پیش نظر کہا جارہا تھا کہ ان ریاستوں میں کانگریس کی ساکھ مضبوط ہے اس لئے غیرمعمولی رِسپانس مل گیا، کرناٹک میں اس کی اصل آزمائش ہوگی۔ مگر کرناٹک میں بھی یاترا کا غیر معمولی استقبال اور خیرمقدم کیا گیا۔ لاکھوں لوگ راہل گاندھی کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کو کیرالا اور تمل ناڈو میں یاترا  کی کامیابی نے بے چین نہیں کیا ہوگا مگر کرناٹک کے رِسپانس نے یقیناً اس کی بے چینی میں اضافہ کیا ہوگا۔ اسی پس منظر میں، ہو نہ ہو، پرگیہ ٹھاکور کو مامور کیا گیا ہوگا۔ 
 قارئین جانتے ہیں مگر یاددَہانی کیلئے عرض کردیں کہ یہ وہی پرگیہ ٹھاکور ہیں جو مالیگاؤں بم دھماکوں کے کلیدی ملزمین میں سے ایک ہیں۔ اُنہوں  نے جب مہاتما گاندھی کے قاتل ناتھو رام گوڈسے کو محب وطن قرار دیا تھا تب بھی ملک میں بڑی ناراضگی پائی جارہی تھی۔ اس کا نوٹس لیتے ہوئے وزیراعظم نریندر مودی نے پرگیہ کے بیان کی سخت مذمت کی اور کہا تھا کہ وہ اُنہیں کبھی معاف نہیں کریںگے۔ پرگیہ کی مذمت درست تھی، وزیراعظم کا بیان بھی قابل قدر تھا مگر پھر ہوا کیا؟ بھوپال کی رکن پارلیمان پرگیہ کو پارلیمانی کمیٹی برائے دفاع اور بی جے پی پارلیمانی پارٹی میٹنگوں سے بے دخل کرکے بہت معمولی سزا دی گئی۔ شموگہ میں اُنہوں نے واضح الفاظ میں تشدد پر اُکسایا ہے مگر جب اس پر سیاسی ردعمل سامنے آیا تو بی جے پی نے یہ کہہ کر پرگیہ کا دفاع کیا کہ اُنہوں نے خواتین کے تحفظ پر بیان دیا ہے۔ بی جے پی یہی کرتی ہے۔ مذمت کے باوجود دفاع اور ضرورت ہوئی تو معمولی سزا۔ نپور شرما کو بھی معمولی سزا ہی دی گئی۔ اسی لئے تو زبانیں رُکتی نہیں ہیں

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK