Inquilab Logo

پرشانت کشور عرف پی کے

Updated: April 21, 2022, 10:15 AM IST | Mumbai

ایک ہفتے کے مختصر عرصے میں کانگریس کی عبوری صدر سونیا گاندھی سے ماہر ِ انتخابات پرشانت کشور کی دو ملاقاتیں ہوچکی ہیں اور دونوں ملاقاتیں طویل رہیں۔

Prashant Kishor.Picture:INN
پرشانت کشور ۔ تصویر: آئی این این

ایک ہفتے کے مختصر عرصے میں کانگریس کی عبوری صدر سونیا گاندھی سے ماہر ِ انتخابات پرشانت کشور کی دو ملاقاتیں ہوچکی ہیں اور دونوں ملاقاتیں طویل رہیں۔ اس طرح ہفتے بھر کی دیگر خبروں پر یہ خبر بھلے ہی حاوی نہ رہی ہو مگر اس نے اپنی جگہ بنائی۔ چونکہ اس سے کانگریس کی زبوں حالی کا قصہ وابستہ ہے اس لئے میڈیا نے بھی اسے خاصی اہمیت دی۔ سیاسی حلقوں میں بھی یہ خبر گشت کرتی رہی۔ سوال یہ ہے کہ پرشانت کشور ایسا کیا کردیں گے جو کانگریس کے لیڈران مل جل کر نہیں کرسکتے؟ کانگریس لیڈران میں کئی لوگ ایسے ہیں جن کا سیاسی تجربہ پرشانت کشور کی مجموعی عمر سے زیادہ ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے آزاد ہندوستان کی سیاسی تاریخ کے بڑے حصے کو اپنی آنکھوں کے سامنے معرض وجود میں آتے دیکھا ہے۔ کیا اتنا طویل تجربہ رکھنے والے لوگوں کو پرشانت کشور کی رہنمائی منظور ہوگی؟ کیا پرشانت ان لوگوں کو مشورہ دیں گے؟ اُن کی رہنمائی کریں گے؟ 
 اپنے نام کے مخفف ’’پی کے‘‘ سے مشہور پرشانت کشور کی ذہانت، مشاقی اور سیاسی فوائد کے حصول کی مہارت اعلیٰ پائے کی ہوسکتی ہے مگر اُن کی خوبیوں اور ممتاز لیڈروں کے تجربے میں کاغذ اور زمین کا فرق ہے۔ کاغذ سے مراد تھیوری اور زمین سے مراد پریکٹیکل ہے۔ کانگریسی لیڈران کاغذ پر نہیں زمین پر رہے۔ پرشانت کشور کی مہارت سے انکار نہیں مگر اس سے زیادہ اہمیت تین چار دہائی کے دن رات کے تجربے اور مشاہدہ کی ہے۔اتنے وسیع تجربہ کے سامنے پرشانت کشور؟ 
  مسئلہ یہ ہے کہ کانگریس کے لیڈران باہمی انتشار اور بڑی حد تک مایوسی کا شکار ہوچکے ہیں۔ ان کے بارے میں بعض مبصرین کی رائے یہ ہے کہ ان کی دلچسپی راجیہ سبھا کی سیٹ یا ایسے ہی کسی اور عہدے پر مرکوز رہتی ہے، پارٹی کی بقاء پر نہیں۔ اِس پر ہمیں یاد آیا کہ ۲۰۱۹ء کا لوک سبھا الیکشن ہارنے کے بعد کانگریس کی اعلیٰ سطحی میٹنگ میں راہل گاندھی نے پارٹی کے سینئر لیڈروں پر غیر معمولی برہمی کا اظہار کیا تھا۔ اُن کا کہنا تھا کہ ان حضرات نے پارٹی کیلئے کچھ نہیں کیا، جو کچھ کیا وہ اپنے مفادات کیلئے کیا۔ یہ وہی موقع ہے جب راہل نے کہا تھا کہ اب کوئی گاندھی کانگریس کا صدر نہیں بنے گا۔ خود انہوں نے استعفےٰ دے دیا تھا اور آج تک اُس عہدے کو قبول نہیں کیا ہے، یہ الگ بات کہ تب سے لے کر اب تک کانگریس کے تمام فیصلوں پر راہل گاندھی ہی کی مہر لگتی رہی ہے۔  پرشانت کشور نہایت قیمتی مشورے دے سکتے ہیں مگر ان مشوروں کو عمل میں کون لائے گا؟ اس کیلئے افراد کی ضرورت ہوگی۔ کیا وہ افراد بھی ’’پی کے‘‘ کے مشوروں کو عمل میں لائیں گے جو اِس وقت اُن سے ہونے والی تفصیلی بات چیت کو ناپسند کررہے ہیں مگر کچھ کہتے نہیں؟ کیا دیگر لیڈران بھی ’’پی کے‘‘ کا کہا مانیں گے جبکہ وہ خود کو بہت کچھ مانتے اور گردانتے ہیں؟ کانگریس اِن سوالات کو نظر انداز نہیں کرسکتی۔ ایک سوال یہ بھی ہے کہ ’’پی کے‘‘ کو پارٹی میں شامل کیا جائیگا یا اُن کی خدمات کا دائرہ مشوروں تک محدود رہے گا؟ ماضی میں سنا جارہا تھا کہ پی کے کانگریس کا کوئی بڑا عہدہ چاہتے ہیں۔ مذاکرات ہوئے مگر بے نتیجہ رہے۔ پی کے ناراض ناراض سے رہنے لگے۔ اُس دوران اُنہوں نے چند پارٹی مخالف بیانات بھی دیئے۔ یہ کہنا مشکل ہے کہ اُن کی ناراضگی دور ہوگئی یا اختلاف کی بنیادیں ختم ہوگئی ہیں۔ نہ ہوئی ہوں تب بھی یہ کہنا مشکل ہے کہ وہ آئندہ کسی بات پر پہلے کی طرح ناراض نہیں ہونگے۔ فی الحال دیکھتے رہئے اور انتظار کیجئے کا موقع ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK