Inquilab Logo

احتجاج بھی درست، اس کا طریقۂ کار بھی درست

Updated: January 26, 2020, 12:03 PM IST | Aakar Patel

سیاسی جماعتوں کے دور رہنے یا مدعو نہ کئے جانے کے سبب ملک بھر کے مظاہروں کو غیر معمولی اعتبار حاصل ہوا ہے۔ قابل ذکر ہے کہ لوگ ازخود شریک ہورہے ہیں اور اپنا پیسہ خرچ کررہے ہیں۔

شہریت ترمیمی قانون اور این آر سی کیخلاف احتجاج جاری ہے
شہریت ترمیمی قانون اور این آر سی کیخلاف احتجاج جاری ہے

آج سنیچر، ۲۵؍ جنوری تک ۲۴؍ گھنٹے اور ساتوں دن جاری رہنے والے احتجاجی مظاہروں کی تعداد ۵۰؍ سے زائد ہوچکی ہے جو سی اے اے اور این سی آر کے خلاف پورے ملک میں جاری ہیں۔ احمد آباد، علی گڑھ، الہ آباد، اورنگ آباد، بنگلور، بریلی، بھاگلپور، بھوپال، کوچین، دربھنگہ، دیوبند، دیواس، گیا، گوپال گنج۔سیوان، اندور، جبلپور، کلیان، کشن گنج، کولکاتا، کوٹہ، لکھنؤ، ممبرا، مظفرپور، ناندیڑ، نالندہ، پربھنی، پٹنہ، پونے، رانچی، سمبھل، سمستی پور، ٹونک اور وجے واڑہ میں ہزاروں ہندوستانیوں کا مجمع مظاہرہ گاہوں پر موجود ہے۔ ان میں سے کئی شہروں میں ایک سے زائد مظاہرے جاری ہیں۔ دہلی میں ان کی تعداد ایک درجن سے زائد ہے۔
 یہ ایسی عوامی تحریک ہے جس کا مشاہدہ ہمارے ملک نے اس سے پہلے کبھی نہیں کیا تھا۔ اس میں شریک ہونے والے لوگ مصمم ارادہ و عزم کے مالک ہیں جو پُرامن تحریک میں شریک ہیں۔ اس سے زیادہ اہم اور قابل ذکر بات یہ ہے کہ ان شہروں میں مجمع تو ہے مگر کوئی لیڈر نہیں ہے۔ اس کے باوجود، یہ تحریک بے اثر نہیں ہے۔ عوام کے عزم اور مظاہرین کے اُصولوں نے نریندر مودی حکومت کو اگر اپنے قدم پیچھے لینے پر مجبور نہیں کیا تب بھی اس کے تیور تو نرم پڑے ہیں۔ این آر سی کو بڑی حد تک بالائے طاق رکھ دیا گیا ہے۔ سی اے اے کا معاملہ کورٹ میں ہے اور اب تک تین وزراء، جن میں رام ولاس پاسوان اور پرکاش جاؤڈیکر شامل ہیں، این پی آر کے تقاضوں اور شرائط میں نرمی لا نے کا اشارہ دے چکے ہیں مثال کے طور پر والدین کی جائے پیدائش اور تاریخ درج کرنے کی شرط۔ 
 چاہے جس زاویئے سے اب تک کے مظاہروں کا جائزہ لیا جائے، ایک بات ماننی ہی پڑے گی کہ اس تحریک کو غیر معمولی کامیابی حاصل ہوئی ہے بالخصوص ایک ایسی حکومت کے خلاف جو اکثریتی ہے اور جسے میڈیا کا پورا پورا تعاون حاصل ہے۔ اس پس منظر میں سوال یہ ہے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ مظاہرین اب تک اپنی مرضی سے مظاہرہ کررہے ہیں اور انہیں کسی سیاسی جماعت کی پشت پناہی کیوں حاصل نہیں ہوئی؟ تیسرا سوال یہ ہے کہ کیا اپوزیشن پارٹیوں کی غیر حاضری سے سی اے اے مخالف احتجاج کا کوئی نقصان ہوا ہے؟ آئیے ان سوالوں کا جواب تلاش کریں:
 سب سے پہلے یہ ذہن میں رکھا جائے کہ درج بالا شہروں میں سے اکثر کا تعلق یوپی سے ہے۔ مظاہرین کے خلاف سب سے زیادہ تشدد اسی ریاست میں ہوا لیکن یہاں کی سیاسی جماعتیں کسی بھی مظاہرہ میں دکھائی نہیں دے رہی ہیں۔ اکھلیش یادو کی سماج وادی پارٹی بالکل ہی غائب ہے جبکہ عوام بالخصوص نوجوانوں کو مظاہرہ گاہوں تک لانے کی اس کی صلاحیت کسی سے مخفی نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اکھلیش کے خیال میں، یوپی میں سی اے اے مخالف تحریک کو ہندو بمقابلہ مسلم تنازع کے طور پر دیکھا جائیگا اور مظاہرین کے ساتھ اُن کا جُڑنا ہندو (یادَو) رائے دہندگان کو ناراض کرنا ہے۔ نتیجتاً، اُن کی پارٹی مظاہروں سے فائدہ اُٹھانے میں ناکام ہے۔ 
 مایاوتی کا مسئلہ زیادہ پیچیدہ ہے۔ اُنہوں نے سی اے اے کے خلاف اکھلیش سے زیادہ بیانات دیئے ہیں مگر ایسا لگتا ہے کہ پارٹی کارکنان سے کہا گیا ہے کہ وہ مظاہروں سے دور رہیں۔ وہ، عوام میں مقبول دلت لیڈر چندر شیکھر آزاد کو ایک بڑے مخالف کے روپ میں دیکھ رہی ہیں جنہوں نے اپنے نام کے ساتھ راون لگا کر یہ پیغام دیا ہے کہ وہ کاسٹ ہندو کلچر کے مخالف ہیں۔ چونکہ وہ مقبول نوجوان لیڈر ہیں اس لئے انہوں نے یوپی کے سیاسی منظرنامہ میں اپنے لئے جگہ بنالی ہے جو بہوجن سماج پارٹی کے دلت ووٹ بینک کیلئے خطرہ ہے۔ غلط یا صحیح، مایاوتی یہ بھی سمجھتی ہیں کہ سی اے اے، این سی آر وغیرہ ایسا تنازع نہیں ہے جو اُن کے رائے دہندگان کو ناراض کریگا، اسی لئے وہ اس تنازع میں نہیں پڑنا چاہتیں۔ آخری بات جو قیاس آرائی ہے مگر متعدد حلقوں میں کہی سنی جارہی ہے وہ یہ ہے کہ مقدمات کی وجہ سے مایاوتی پر مودی حکومت کا دباؤ ہے ۔ کون چاہے گا کہ لالو پرساد یادو کی طرح جیل میں پڑا رہے؟
 ایک ہی پارٹی ہے جو مظاہرین کا کھل کر ساتھ دے رہی ہے وہ  ترنمول کانگریس ہے جو کہ عام پارٹیوں جیسی نہیں ہے۔ یہ بات اس لئے کہی گئی کہ یہ پارٹی اقتدار میں ہو یا اپوزیشن میں، ہمیشہ انتخابی مہم کے تیور اپنائے رہتی ہے ۔ اس وقت بھی اس کا یہی انداز ہے جبکہ یہ موضوع تو ایسا ہے کہ جس سے پارٹی کافی فائدہ اُٹھا سکتی ہے۔ 
 اب آئیے اس سوال کی طرف کہ کیا اپوزیشن کی سیاسی جماعتوں کی غیر حاضری سے سی اے اے مخالف تحریک کو کوئی نقصان پہنچ رہا ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ اس سے کوئی نقصان نہیں پہنچ رہا ہے۔ اس کے کئی اسباب ہیں:
 سب سے پہلی بات: ہمیں یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ خود مظاہرین نے کسی سیاسی پارٹی سے تعاون کی توقع یا اپیل نہیں کی ہے۔ مظاہرین کوئی ایک متحد جماعت یا تنظیم کے پرچم تلے نہیں ہیں۔ اس کا ثبوت متعدد ریاستوں میں اس تحریک سے وابستہ لوگوں کا اپنے اپنے طور پر میدان عمل میں آنا ہے۔ یہ عوام کی بہت بڑی تعداد ہے جس میں شامل افراد ایک ہی مقصد کے لئے یکجا ہیں۔ دوسری بات: جمہوری دُنیا کی سب سے بڑی پارٹی بی جے پی سمیت کوئی سیاسی جماعت ایسی نہیں جو عوام کی اتنی بڑی تعداد کو اتنے لمبے عرصے کیلئے (برائے مظاہرہ) چھوڑ سکتی ہے۔ عوام کو سیاسی طور پر جوڑنے کا عمل اُس وقت شروع ہوتا ہے جب کوئی پارٹی ایسا چاہتی ہے۔ یہ کام افراد کے چاہنے سے نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ عوام کو سیاسی طور پر جوڑنے کا خرچ اُٹھانا پڑتا ہے تاکہ لوگوں کو ریلیوں کیلئے لایا اور واپس لے جایا جائے۔ اس کے برخلاف سی اے اے مخالف مظاہروں کی سچائی یہ ہے کہ ان میں لوگ خود شریک ہورہے ہیں اور اپنی جیب ِخاص سے خرچ کررہے ہیں۔ تیسری بات: سیاسی جماعتوں کے دور دور رہنے کی وجہ سے مظاہروں کو غیر معمولی اعتبار حاصل ہوا ہے۔ مظاہرین خواہ کسی شہر کے ہوں، مودی حکومت کی برخاستگی کا مطالبہ نہیں کررہے ہیں بلکہ سی اے اے کی تنسیخ چاہتے ہیں جو کہ جانبدارانہ اور غیر دستوری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پورے وثوق سے فیصلے کرنے والی مودی حکومت اس مرتبہ اندرونی اور بیرونی دباؤ میں ہے۔ میرے خیال میں مظاہرین کا مقصد اور طریقۂ احتجاج دونوں درست ہے۔ 
 آخری بات: غورطلب ہے کہ ہمارا ملک جو کہ قدیم تہذیبوں میں سے ایک ہے، اِس مقام پر آگیا ہے جہاں دُنیا اُسے ایک ایسے ملک کے طور پر دیکھ رہی ہے جو اپنے ہی عوام پر جبر کررہا ہے۔ یہ حقیقت بھی خاصی تلخ ہے کہ سیاسی جماعتیں عوامی تحریک سے اس لئے دور ہیں کہ اُنہیں اندازہ ہے کہ ہندوستانی سماج مذہبی بنیادوں پر منقسم ہے۔ اگر وہ کسی مظلوم طبقۂ آبادی کا ساتھ دیتے ہیں تو اس کا سیاسی مفہوم یہ ہے کہ وہ دوسروں کے خلاف ہیں۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK