Inquilab Logo

بہت مشہور ہوں پھر بھی مَیں محتاج تعارف ہوں!

Updated: March 16, 2024, 12:37 PM IST | Shahid Latif | Mumbai

رمضان کے مذہبی پہلو سے ہر خاص و عام واقف ہے مگر اس کا معاشی پہلو؟ اس کا سماجی پہلو؟ مختلف مذاہب کے ماننے والوں کے درمیان اس کا سماجی پہلو بہت اہمیت کا حامل ہے۔

Photo: INN
تصویر : آئی این این

برادران وطن کو مسلمانوں کی چند خصوصیات غیر معمولی طور پر متاثر کرتی ہیں۔ اِن میں سے ایک ہے روزہ۔ جب وہ روزہ کی تفصیل سنتے ہیں تو سن کر رہ نہیں جاتے، مختلف سوالات کرتے ہیں اور جب جوابات کے ذریعہ اُنہیں مزید معلومات ملتی ہے تو اُن پر گہرا تاثر قائم ہوتا ہے جس میں حیرت بھی ہوتی ہے اور جذبۂ احترام بھی۔ یہی وجہ ہے کہ جب برادران وطن میں سے کسی کو یہ علم ہوتا ہے کہ آپ روزہ سے ہیں تب اُس کی کیفیت بدل جاتی ہے، وہ آپ کا ہمدرد، بہی خواہ اور دوست بن جاتا ہے۔ روزہ کی مذہبی اہمیت تو مسلّم ہے مگر  اس کے طبی فوائد بھی ہیں اور سماجی فوائد بھی۔ یہ الگ بات کہ اس پر بہت کم لوگوں کی توجہ ہوتی ہے اور روزہ داروں کی اکثریت، برادران وطن سے روزہ کے سبب ہونے والی دوستی کو کوئی خاص اہمیت نہیں دیتی۔ 
 روزہ رکھ کر فرض ادا کرنا تو اہم ہے ہی، روزہ کا بھرپور تعارف پیش کرنا بھی کچھ کم اہم نہیں ہے۔ اس تعارف کو زیادہ تقویت ملے گی اگر مسلمان روزہ کو اپنی پہچان بنائیں اور افطار کیلئے سجنے والی دکانوں کو نہیں۔ شام کی دکانوں اور پھر رات بھر جاری رہنے والی دکانوں سے روزہ کا اچھا خاصا تاثر زائل ہوجاتا ہے اور لوگ باگ یہ سمجھنے لگتے ہیں کہ رمضان یعنی عام دنوں سے زیادہ کھانا پینا۔ اکثر ان دکانوں پر وہ لوگ پائے جاتے ہیں جو نہ تو روزہ رکھتے ہیں نہ ہی روزہ کی حکمت اور فلسفے سے واقف ہیں۔ یہ کہنا مشکل ہے کہ کیسے اور کب ان لوگوں کے ذہن نشین کرایا جاسکے گا کہ جب رمضان یا روزہ تیس روزہ فوڈ فیسٹیول نہیں ہے تو آپ رات بھر سجی رہنے والی دکانوں پر جوق در جوق حاضری دے کر جو تاثر قائم کرتے ہیں اس سے قوم مسلم کا بڑا نقصان ہوتا ہے۔ اُن کی شبیہ خراب ہوتی ہے۔ رمضان اور روزہ کے بارے میں غلط پیغام عام ہوتا ہے۔ بے شک ان باتوں کو ذہن نشین کرانا مشکل ہے مگر اس کی کوشش بہرحال جاری رہنی چاہئے۔ کم از کم اپنے گھر اور خاندان کے افراد کی ذہن سازی تو کی ہی جاسکتی ہے کہ رمضان اور روزہ کے تقدس کو پامال کرکے آپ کسی اور کا نہیں اپنا ہی نقصان کرتے ہیں۔ او ریہ بڑا نقصان ہے۔ 
 دوسری خصوصیت جو برادران وطن کو بہت متاثر کرتی ہے وہ بینک کھاتوں میں جمع ہونے والے سود سے پرہیز ہے۔ جب انہیں یہ علم ہوتا ہے کہ سود کی رقم (ثواب کی نیت کے بغیر) مفلسوں اور ناداروں میں تقسیم کردی جاتی ہے تو اُن پر بہت خو شگوار تاثر قائم ہوتا ہے۔ اس پر بھی جتنی محنت ہونی چاہئے تھی نہیں ہوئی ہے۔ دست ِ  تعاون دراز کرتے وقت اکثر لوگ بھول جاتے ہیں کہ مفلس اور ناداروں کی بڑی تعداد برادران وطن میں بھی ہے اور وہ بھی آپ کی مدد کے مستحق ہیں۔ ان کا بھی حق ہے اور اس حق کو ادا کرکے خیرسگالی کا قابل قدر رشتہ استوار کیا جاسکتا ہے۔ مَیں نہیں جانتا کہ کتنے لوگ اس حق کو محسوس کرکے اسے ادا کرتے ہیں مگر جب بھی کسی سماجی تنظیم کے عطیہ دہندگان کی فہرست نظر سے گزرتی ہے تب میری کوشش یہ جاننے کی ہوتی ہے کہ اس میں مسلم عطیہ دہندگان کتنے ہیں۔ معاف کیجئے، اکثر اوقات مایوسی ہوتی ہے۔ اکا دکا نام ہی نظر نواز ہوتے ہیں۔ سو میں بیس نام بھی نظر آجائیں تو خوشی ہو کہ یہ آبادی کے متناسب ہوگا مگر عموماً ایسا نہیں ہوتا۔ 
  رمضان غوروفکر کا مہینہ ہے اور اگر یہ غوروفکر کے بغیر گزر جائے تو اس کا معنی یہ ہوگا کہ ہم نے اس ماہ کو جس طرح گزارنا چاہئے تھا، نہیں گزارا۔ اس ماہ میں غوروفکر اس بات پر بھی ہونا چاہئے کہ وہ کون سی تدابیر ہیں جن پر عمل کرکے قوم مسلم برادران وطن سے اپنے رشتوں کو استوار کرسکتی ہے اور وہ اچھی خاصی شبیہ جو پروپیگنڈہ کے ذریعہ بگاڑ دی گئی اُسے بہتر کیسے بنایا جاسکتا ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ ایک مضبوط پروپیگنڈہ کے ذریعہ مسلمانوں کی شبیہ خراب کی گئی اور اُنہیں مشتعل مزاج، خراب رہن سہن والا، کم پڑھا لکھا، چھوٹے موٹے کاروبار کرنے والا، اپنی بستیوں اور محلو ّں سے پہچانا جانے والا وغیرہ باور کرایا گیا۔ اِس پروپیگنڈہ کو مات دینے کا کون سا طریقہ ہم نے وضع کیا، کب اُسے پیش نگاہ رکھا اور کس طرح اُسے عملی جامہ پہنا رہے ہیں؟ ان سوالوں کا جواب نہیں ملتا۔ اس ضمن میں مسلمانوں کی کوششیں اگر ہیں بھی تو انفرادی ہیں، اجتماعی نہیں۔
 سال گزشتہ کے رمضان میں اس کالم میں زکوٰۃ سے متعلق کئی باتیں سجھائی گئی تھیں۔ برادران وطن جب فلسفہ ٔ زکوٰۃ سے متعارف ہوتے ہیں تب بھی اُن پر نہایت خوشگوار تاثر قائم ہوتا ہے مگر اکثر لوگ دفتروں، دکانوں اور دیگر جگہوں پر جب برادران وطن سے ملتے ہیں تو اس موضوع سے بحث نہیں کرتے جبکہ یہ کام ترجیحاً کیا جانا چاہئے۔ نظام زکوٰۃ یا فلسفہ ٔ زکوٰۃ بہت توانا معاشی فلسفہ ہے۔ یہ امیروں سے لے کر غریبوں کو دینے کا فلسفہ ہے۔ اس سے ہر وہ شخص متاثر ہوگا جو ملکی اور عالمی حالات کا بغور مشاہدہ کررہا ہے اور اس حقیقت سے ناخوش ہے کہ دُنیا میں امیروں کی امارت اور غریبوں کی غربت بڑھ رہی ہے اور پوری دُنیا ایسے غیر تحریر شدہ معاشی نظام کے شکنجے میں پھنستی جارہی ہے جس میں آگے بھی یہی ہونا ہے۔ مٹھی بھر لوگوں کے ہاتھوں میں دُنیا کے تمام وسائل۔ چند کے ہاتھوں میں سب کی قسمت۔اس کی توڑ اور اس کا جواب ہے فلسفہ ٔ زکوٰۃ (اور فلسفہ ٔ صدقات و خیرات)۔ مگر اس موضوع پر جتنی گفتگو ہوتی ہے اُس سے کئی گنا زیادہ بحثیں اور تگ و دَو زکوٰۃ کے حصول کیلئے ہوتی ہے جبکہ اس کے مصارف طے شدہ ہیں۔ افسوس کہ ایک عام مسلمان تو مصارفِ زکوٰۃ سے بھی واقف نہیں ہے اور اُسے واقف کرانے کی کوشش بھی کم کم ہی دکھائی دیتی ہے۔ 
 مسئلہ زکوٰۃ دینے والوں کا بھی ہے جو تقسیم کے وقت پیداواری  اور غیر پیداواری تقسیم کو پیش نظر نہیں رکھتے۔ پیداواری تقسیم کا معنی ہے لازماً کچھ فیصد ایسے لوگوں کو دینا جو حاصل شدہ رقم کا پیداواری استعمال کرتے ہوئے اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کی سعی کریں۔ غیر پیداواری تقسیم کا معنی ایسے لوگوں کو دینا ہے جو آئندہ بھی زکوٰۃ کے منتظر ہی رہیں گے، اُن میں اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کی سکت نہیں ہے۔ عام مشاہدہ یہ ہے کہ افراد کو دی جانے والی زکوٰۃ کا بیشتر حصہ ہر سال غیر پیداواری لوگوں میں تقسیم ہو جاتا ہے جس سے ’’لینے والا دینے والا بن جائے‘‘ کے اعلیٰ و ارفع نظریہ کو ٹھیس لگتی ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK