ابھی رمضان کا پہلا عشرہ جاری ہے، بلکہ پہلا ہفتہ ہی ہے۔ لاک ڈاؤن میں ایک مشکل یہ بھی ہوتی ہے کہ وقت، دن، کچھ سمجھ میں نہیں آتا۔ میراروڈکا علاقہ ’’شٹ ڈاؤن‘‘ سے گزر رہا ہے۔ لوگوں کو بڑی امید تھی کہ رمضان میں ’’چھوٹ‘‘ مل جائے گی، لیکن ایسا نہیں ہوا۔ البتہ کبھی کبھار پولیس والوں کی ’’چوک‘‘ کی وجہ سے لوگوں کو آنے جانے کا موقع مل جاتا ہے ۔
رمضان ڈائری ۔ تصویر : آئی این این
ابھی رمضان کا پہلا عشرہ جاری ہے، بلکہ پہلا ہفتہ ہی ہے۔ لاک ڈاؤن میں ایک مشکل یہ بھی ہوتی ہے کہ وقت، دن، کچھ سمجھ میں نہیں آتا۔ میراروڈکا علاقہ ’’شٹ ڈاؤن‘‘ سے گزر رہا ہے۔ لوگوں کو بڑی امید تھی کہ رمضان میں ’’چھوٹ‘‘ مل جائے گی، لیکن ایسا نہیں ہوا۔ البتہ کبھی کبھار پولیس والوں کی ’’چوک‘‘ کی وجہ سے لوگوں کو آنے جانے کا موقع مل جاتا ہے ۔
آج بھی پولیس والوں کے تیور کچھ نرم ہیں۔ بلڈنگ کے گیٹ پر چند نوجوان کھڑے ہیں۔ لاک ڈاؤن اور رمضان کے علاوہ کوئی اور موضوع ان کے درمیان نہیں ہے۔ مَیں قریب پہنچی تو انہوں نے سلام کیا۔ جواب دیتے ہوئے مَیں پوچھ بیٹھی، یہ نیا نگر ہے اور اتنا سناٹا… کیا محسوس کررہے ہیں آپ لوگ؟
ایک نوجوان کہنے لگا : ’’آپ کو کیا بتائیں ؟ سال بھر میں ایک موقع تو ایسا آتا تھا جب رات میں جم کر کھاتے تھے، روزانہ الگ الگ چیزیں ہوتی تھیں…‘‘ ’’اور مالپوہ…‘‘ دوسرے نے بیچ میں ٹوک دیا ۔ ’’ ہاں ہاں ، مالپوہ ، فیرنی ، کھیری ، کلیجی اور چکن رول ، جو میرا فیوریٹ ہے۔ بس میں تو دعا کررہا ہوں کہ ۳؍ مئی کو کم از کم اتنی چھوٹ مل جائے کہ یہ دکانیں، ایک ہفتے کے لئے ہی سہی ، کھل جائیں۔‘‘ اس نے کچھ اس انداز سے یہ باتیں کہیں کہ سب کو ہنسی آگئی ، میں نے کہا ، تم تو ایسے بتا رہے ہو گویا ابھی ابھی کھا کر آرہے ہو۔ کہنے لگا کہ کھایا تو ہوں، لیکن گھر کے کھانے میں اور یہاں کے کھانے میں فرق تو ہوتا ہے نا۔ آج چکن رول بنا تھا، لیکن …‘‘ شاید اسے کچھ یاد آگیا، چپ ہوگیا ۔
مضافات کا یہ علاقہ ، آتا تو ہے تھانہ ضلع میں، مگر اس کا شمار ’’ممبئی‘‘ میں کیا جاتا ہے۔ میراروڈ میں آبادی تو ویسے کاسموپولیٹن ہے لیکن دو تین علاقے ایسے ہیں جو مسلم اکثریتی ہیں اس لئے مسلم تہواروں پر یہاں کی چہل پہل ویسی ہی ہوتی ہے جیسی بھنڈی بازار، محمد علی روڈ یا ناخدا محلہ وغیرہ کی ہوتی ہے۔ دوپہر سے دکانوں کے شٹر اٹھنے لگتے ہیں، بڑے بڑے برتنوں کی آواز سنائی دینے لگتی ہے اور شام ہوتے ہوتے محسوس نہیں ہوتا کہ آپ ممبئی کے بھنڈی بازار میں کھڑے ہیں یا میراروڈ کے نیانگر میں۔ لیکن اس سال …
’’ مجھے تو فالودہ کی یاد آرہی ہے۔ بارہ ایک بجے مَیں لینے کے لئے آجاتا تھا، اس وقت فریش مل جاتا تھا اور رش سے بھی بچ جاتا تھا ۔ ‘‘ ایک نے کہا ۔ اس کی بات کو پھر بیچ میں ٹوکتے ہوئے ایک چوتھے نوجوان نے، جو اِن سب میں تھوڑا چھوٹا تھا، کہنے لگا ’’میرا گھر اُس (اس نے ہاتھ سے اشارہ کیا) ایریا میں ہے لیکن میں یہ سوچ کر اپنی نانی کے گھر آگیا تھا کہ شاید یہاں دکانیں کھل جائیں گی ۔‘‘
’’باجی، ہمارا کھیلنا بھی بند ہوگیا ہے‘‘ اُن میں سے ایک نے اپنا غم بیان کرنا شروع کیا: ’’صبح میں ہم لوگ کھیلتے تھے، سحری کے بعد نماز پڑھتے اور پھر پیچھے گراؤنڈ میں چلے جاتے، خوب کھیلتے تھے اور ۹؍بجے آکر سوجاتے تھے ۔‘‘
تو آپ کو ابھی کیسا لگ رہا ہے؟ یہ پوچھنے پر سب کے چہرے اُتر گئے ۔ ’’ابھی تو معلوم ہی نہیں ہوتا کہ رمضان کا مہینہ ہے ، بس سحری میں اٹھے ، اور افطار کا وقت ہوا تو محسوس ہوتا ہے۔ پتہ نہیں کب لاک ڈاؤن کھلے گا اور جب کھلے گا تب بھی ویسا رہے گا جیسا پہلے (پچھلے) سال تھا ۔‘‘ ایک نوجوان دھیرے سے کہنے لگا۔ پھر ان کی آپس میں کھسر پھسر شروع ہوگئی ۔
لاک ڈاؤن نے مختلف لوگوں کو مختلف طریقوں سے متاثر کیا ہے۔ گزشتہ دنوں قریب کی ایک بلڈنگ کے گیٹ کے پاس دو تین خواتین باتیں کررہی تھیں جو اسی بلڈنگ کی رہنے والی تھیں ۔ ان میں سے ایک سے سلام کلام پہلے سے ہے ۔ موضوع گفتگو شاپنگ تھا ۔ ایک خاتون نے کہا مجھے سلائی آتی ہے، لیکن بٹن اور دھاگے والے کی دکان بند ہے، اس لئے مشین پر بھی نہیں بیٹھ رہی ہوں۔ ’’امی میرا کپڑا کب تک سلے گا؟‘‘ ان کی ۶؍سالہ بیٹی پوچھ بیٹھی۔ ہم ایک دوسرے کا منہ دیکھنے لگے۔ تب ہی ایک خاتون جو اَب تک خاموش تھیں کہنے لگیں: ’’کوئی ایک مسئلہ ہو تو بیان کیا جائے، لاک ڈاؤن میں سب لاک ڈاؤن ہے۔ ایک دُکان کھلتی ہے تو دوسری بند رہتی ہے۔ پتہ نہیں کب کھلے گا !‘‘ اُن کے لہجے میں اُمید کم مایوسی زیادہ دیکھ کر مَیں نے کہا: ’’وَباء بھی تو اتنی تیزی سے پھیلی ہے کہ کچھ سمجھ میں نہیں آتا، اس سے بچنے کیلئے یہ احتیاط تو ضروری تھی۔‘‘
یہ سن کر وہ سر ہلاکر رہ گئیں جیسے میری بات اُن کیلئے قابل قبول نہ ہو۔ راستوں پر سناٹا ہے، کپڑے کی دکانوں میں جہاں ہزار ہزار واٹ کے بلب لگے ہوتے تھے، تاریکی ہے۔ کھیری کلیجی، کباب، چکن رول، حلیم، کھچڑا، نہ کوئی شعلہ نہ چنگاری… تمام چولھے ٹھنڈے ہیں۔ صبر کے اس مہینے میں اس سال کچھ زیادہ ہی صبر کرنا پڑرہا ہے تو لوگ ملول ہیں اور دُعا کررہے ہیں کہ کورونا دفع ہو، تاکہ لاک ڈاؤن سے نجات ملے۔n