اگر بندۂ مومن ذرا ہمت سے کام لے تو اس کی پوری زندگی اسلامی تعلیمات کے سانچے میں ڈھل سکتی ہے اور دُنیا کا سفر اللہ تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی کیساتھ طے ہو سکتا ہے۔
EPAPER
Updated: April 11, 2025, 1:01 PM IST | Shamsul Haq Nadvi | Mumbai
اگر بندۂ مومن ذرا ہمت سے کام لے تو اس کی پوری زندگی اسلامی تعلیمات کے سانچے میں ڈھل سکتی ہے اور دُنیا کا سفر اللہ تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی کیساتھ طے ہو سکتا ہے۔
رمضان المبارک میں پوری دنیا کے مسلمان جس فکر و اہتمام کے ساتھ روزہ رکھتے ہیں، کھانے پینے ہی کی چیزوں سے نہیں بلکہ تمام خلاف ِشرع باتوں سے اپنے کو بچاتے اور دور رکھتے ہیں اور اس کی فکر و کوشش کرتے ہیں، وہ اصلاً ان کو یہ سبق دیتے ہیں کہ اگر بندۂ مومن ذرا ہمت سے کام لے تو اس کی پوری زندگی اسلامی تعلیمات کے سانچے میں ڈھل سکتی ہے، اور دُنیا کا سفر اللہ تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی کے ساتھ طے ہو سکتا ہے لیکن تھوڑا سا اپنے نفس کو بہلا نا پھسلانا پڑے گا جس کو علامہ ابن جوزیؒ نے بڑے اچھے اور دل میں اتر جانے والے انداز میں بیان فرمایا ہے۔ فرماتے ہیں کہ بشر حافی رحمۃ اللہ علیہ اپنے ایک ساتھی کے ساتھ کہیں جارہے تھے، ساتھی کو پیاس لگی، اس نے کہا کہ اس کنویں سے پانی پی لیں، بشر حافی نے کہا کہ اگلے کنویں سے پی لیں گے، جب وہ کنواں آیا تو بشر حافی نے دوسرے کنویں کی طرف اشارہ کیا کہ وہاں تک صبر کرو، اسی طرح تسلی دیتے ہوئے بہت دور لے آئے، پھر اس سے کہا کہ اسی طرح دنیا کا سفر طے ہو جاتا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ جس نے اس نکتہ کو سمجھ لیا، وہ اپنے نفس کو بہلائے گا اور اس سے وعدہ کرتا رہے گا تا کہ وہ اپنے بوجھ کو سنبھال سکے اور اس پر صبر کر سکے۔ بعض بزرگان سلف فرماتے تھے کہ :’’ اے نفس! میں تجھے تیری مرغوب چیزوں سے جو روکتا ہوں تو محض شفقت اور خوف کی بنا پر۔ ‘‘
حضرت بایزید بسطامیؒ کا قول ہے: ” مَیں اپنے نفس کو خدا کی طرف بڑھائے لئے جاتا تھا، پہلے پہل وہ رویا، پھر ہنستا کھیلتا اللہ تعالیٰ کی طرف بڑھنے لگا، یاد رکھنا چاہئے کہ نفس کی خاطر داری اور ملاطفت (الطاف، عنایت، مہربانی) ضروری ہے اور راستہ اسی طرح طے ہوتا ہے۔ ‘‘
مزید فرماتے ہیں : ایک مرتبہ ایک ایسے معاملہ میں جو شرعاً مکروہ تھا، مجھے کچھ کشمکش در پیش تھی، نفس کچھ تاویلیں لاتا تھا اور کراہت کو نظر سے ہٹاتا تھا، در حقیقت اس کی تاویلات فاسد تھیں اور کراہت کی کھلی ہوئی دلیل موجود تھی، میں نے اللہ کی طرف رجوع کیا اور دُعا کی کہ اس کیفیت کو دور فرمادے، قرآن مجید کی تلاوت شروع کر دی، میرے درس کے سلسلہ میں سورۂ یوسف شروع ہو رہی تھی، میں نے وہیں سے شروع کیا، وہ خیال دل پر مستولی تھا، مجھے کچھ خبر نہ ہوئی کہ میں نے کیا پڑھا، جب اس آیت پر پہنچا:(ترجمہ) ’’یوسفؑ نے کہا:خدا کی پناہ، میرے رب نے تو مجھے اچھی منزلت بخشی ‘‘ (سورہ یوسف:۲۳) تو میں چونکا اور آنکھوں سے غفلت کا پردہ دور ہوا، میں نے (تاویل کرنے والے) اپنے نفس سے کہا: تو نے خیال کیا کہ حضرت یوسف علیہ السلام غلام نہ تھے، وہ زبردستی اور ظلم سے غلام بنا کر بیچے گئے تھے، انہوں نے اس شخص کا اتنا حق مانا جس نے ان کے ساتھ سلوک کیا تھا اور اس کو اپنا آقا کہا حالانکہ وہ غلام نہ تھے، مجھے اچھی طرح رکھا، ( میں نے نفس سے کہا) اب ذرا غور کر، تو حقیقتاً غلام ہے ایسے آقا کا جو تیرے وجود کے وقت سے برابر تیرے ساتھ احسانات کرتا رہا، اور اتنی بار اس نے تیری پردہ پوشی کی جس کا کوئی شمار نہیں، تجھے یاد نہیں کہ اس نے کس طرح تیری پرورش کی، تجھے سکھایا، پڑھایا، تجھے روزی دی، تیری حفاظت کی، خیر کے اسباب مہیا کئے، بہترین راستہ پر تجھے ڈالا اور مکر اور دشمنی سے تجھے بچایا اور حسن صورت ظاہری کے ساتھ باطنی ذکاوت وجودتِ طبع عنایت فرمائی حتیٰ کہ علوم کو تیرے لئے سہل بنا دیا۔ ‘‘
پورا رمضان بھوک پیاس کی تختی پر روزہ دار کس طرح اپنے نفس کو بہلا کر مکمل کرتا ہے کہ دیکھو ا بھی ظہر کا وقت آنے والا ہے، آدھے سے زیادہ وقت کٹ گیا، عصر کا وقت آگیا، تسلی دیتا ہے کہ اب افطار کا وقت قریب آرہا ہے، تھوڑی ہی دیر میں افطار کا وقت آجائے گا، اس سہارے روزہ کا پورا مہینہ گزر جاتا ہے۔ ذکر و تلاوت میں بھی دل لگتا ہے، روزہ کے ادب میں دوسری غلط باتوں جھوٹ، غیبت، وعدہ خلافی، چوری، ظلم و زیادتی غرض یہ کہ ان تمام باتوں سے، جو اللہ تعالیٰ کو ناراض کرنے والی ہیں، اپنے کو ان سے بچاتا ہے، گویا یہ پورا مہینہ اس کی تربیت اور شریعت پر چلنے کی عادت ڈالنے کا مہینہ ہوتا ہے۔
مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ نے فرمایا کہ : ’’رمضان کا روزہ چھوٹا روزہ ہے جو صبح صادق سے لے کر غروب آفتاب پر اور رمضان المبارک کی پہلی تاریخ سے لے کر ۲۹، یا ۳۰ ؍تاریخ پر ختم ہو جاتا ہے، بڑا روزہ تو وہ ہے جو بلوغ سے لے کرموت پر جا کر ختم ہوتا ہے۔ یہ چھوٹا روزہ اسی بڑے روزہ کو درست کرنے کے لئے فرض کیا گیا ہے لیکن جب ہم بڑے روزہ کا جائزہ لیتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ہم اس بڑے روزہ کو توڑنے کا کام برابر کرتے رہتے ہیں، اور اس کا احساس تک نہیں ہوتا۔ عید کے چاند کے ساتھ چھوٹا روزہ اپنی پوری خصوصیات کے ساتھ چلا گیا اور اب ہم آزاد ہو گئے جو چاہیں کریں، وعدہ خلافی کریں، کمزور کا حق مارلیں ، پڑوسیوں کو ستائیں، رشتوں کو توڑ دیں، محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا دعویٰ تو کریں لیکن آپؐ کی سنتوں پر عمل نہ کریں، اس عارضی اور فانی دنیا کو بنانے اور اس کے کمانے میں اس طرح لگ جائیں کہ حرام و حلال کا خیال دل سے جاتا رہے اور سوائے کمانے کھانے، مال جمع کرنے کے اور کوئی فکر ہی نہ رہے، اور جب بارگاہِ خداوندی میں حاضری کا وقت آئے تو بڑی حسرت کے ساتھ زبان اس طرح کھلے : (ترجمہ) ’’کاش میری وہی موت (جو دنیا میں آئی تھی) فیصلہ کن ہوتی، آج میرا مال میرے کچھ کام نہ آیا میرا سارا اقتدار ختم ہو گیا۔ ‘‘ (سورہ الحاقہ: ۲۷؍تا۲۹)
اللہ تعالیٰ محض اپنے فضل و کرم سے اس افسوس و حسرت کی گھڑی سے بچا کر اپنی پناہ میں رکھے اور ان سب کاموں سے بچائے جو آفت و حسرت کا سبب ہوں گے۔