عام الفیل سے ۳۰؍برس بعد یعنی ۱۳؍رجب المرجب کو حضرت سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کی ولادت با سعادت ہوئی تھی
EPAPER
Updated: May 15, 2020, 12:36 PM IST
|
Peer Mohammed Tabassum Bashir Owaisi
عام الفیل سے ۳۰؍برس بعد یعنی ۱۳؍رجب المرجب کو حضرت سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کی ولادت با سعادت ہوئی تھی عام الفیل سے ۳۰؍برس بعد یعنی ۱۳؍رجب المرجب کو حضرت سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کی ولادت با سعادت ہوئی تھی۔ ہاشمی النسل ابو طالب کے نورِ نظراور فاطمہ بنت اسد کے لختِ جگر نے رسول اللہ ﷺ کی آغوش شفقت و مودت میں پرورش پائی اور اسی فیض رسول ﷺ کی بدولت اپنی بے داغ سیرت و کردار کی عظمت کے نورانی چراغوں سے قصر انسانیت اور ایوان آدمیت کے در و بام روشن و تاباں کر دئیے۔ آپ رضی اللہ عنہ کی ہمہ جہت اور جملہ صفات شخصیت، میدان شجاعت میں چمکتی تلواروں کی جھنکار میں اللہ کا شیر اور محراب و منبر کے درمیان مشغول عبادت تصویر مصطفیٰ ﷺ دکھائی دیتی ہے ۔
شہادت سے پہلے شدید زخمی حالت میں جب آپ رضی اللہ عنہ کے سانسوں کی ڈوری ٹوٹ رہی تھی تو زبان پر یہ الفاظ تھے :’’ پروردگار ِکعبہ کی قسم میں کامیاب ہو گیا ۔‘‘
گویا یہ ادا ہونے والا جملہ اس بات کا مبینہ اعلان تھا کہ آپؓ نے زندگی کے ہر پہلو اور حیات کے ہر مرحلہ میں فوز عظیم اور نصرت و کامرانی کے نقطۂ کمال کو پالیا تھا ۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے بچپن میں ہی اسلام قبول کر لیا تھا۔ بعض تاریخ دانوں کے مطابق اس وقت آپؓ کی عمر شریف صرف ۸؍ برس تھی۔ جب حضور اکرم ﷺ نے اپنے قرابت داروں اور اعزاء اقرباء کو دعو ت اسلام پیش فرمائی تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے وہاں بھی پیغمبر اسلام ﷺ کی نصرت و معاونت کا اعلان کیا۔ گویا اسلام کی عالمگیر تحریک حق کو ہر ممکن کامیاب بنانے کی خاطر اوائل عمری سے ہی آپؓ حضور ﷺ کے معاون و مددگار بن کر دشمنان دین کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے تھے۔ حضور ﷺ نے جب لات وہبل اور عزیٰ و منات کے خلاف نعرۂ حق بلند کیا تو حضرت علیؓ نے ذوالفقار حیدری سے ان مصنوعی اور بے جان خدائوں کو ریزہ ریزہ کر دیا ۔
سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ وہ عظیم الصفات شخصیت ہیں جن کو مواخات مدینہ میں نبی اکرم ﷺ نے اپنا برادر قرار دیا ۔ آپ کی علمی بصیرت اور فہم و ادراک کے حوالے سے نبی مکرم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے:’’میں علم کا شہر ہوں اور علیؓ اس کا دروازہ۔‘‘ وہ تاریخ اسلام کا ایک ایسا جلی اور روشن عنوان ہیں جن کی اصابت رائے اور نافع مشاورت پر جماعت صحابہ کو مکمل اعتماد اور اتفاق تھا ۔
معلم انسانیت ﷺ کی شب و روز قربت و نسبت کی وجہ سے حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ ایک ایسا عظیم الشان شاہکار بن گئے جس نے اپنے علم و فضل اور حکمت و صداقت کے چراغ روشن کر کے ہر طرف علم و عرفان کا اجالا بکھیر دیا۔ تحفظ دین، ناموسِ رسالت ﷺ اور اشاعت اسلام کی خاطر حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے وہ گرانقدر اور ناقابل فراموش خدمات انجام دیں جو تاریخ اسلام کا قیمتی اثاثہ اور یادگار کارنامہ سمجھی جاتی ہیں۔ یہ بات دیکھنے میں آئی ہے کہ ہر نازک ترین مرحلہ پر جب بھی مخالف سمتوں کی ہوائوں نے کاشانہ ٔرسالت کا رخ کیا تو حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے شمع ہدایت کو روشن و فروزاں رکھنے کی خاطر اپنی جان دائو پر لگا کر ان تیز و تند ہوائوں کا رخ موڑ دیا۔ اس کی ایک روشن مثال وہ تاریخی واقعہ ہے جب ہجرت کی شب حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ نے آپؓ کو اپنے بستر پر لٹا دیا حالانکہ یہ جگہ اس وقت کسی مقتل سے کم نہ تھی۔حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کے علاوہ کون اتنے حوصلے اور جرأت کا مالک ہو سکتا تھا جو ان تمام خدشات و خطرات سے یکسر بیگانہ اور بے نیاز ہو کر دشمنوں کے سخت محاصرہ اور گھیرائو کے باوجود بستر رسالت ﷺ پر گہری نیند سو جاتا۔ عقیدہ توحید کی پختگی اور توکلت علی اللہ کا اس سے بڑا اور زندہ ثبوت بھلا اور کیا ہو سکتا ہے۔ حضور اکرم ﷺ کی حیات طیبہ میں حضرت علی ؓنے اپنی تمام تر خدمات (خالصتاً ) اپنے آقا ﷺ کی ذات گرامی کے لئے وقف کر رکھی تھیں۔ انہی صفات قدسیہ اور جانثار ا نہ خدمات کے بھر پور اعتراف میں حضورؐ ، حضرت علیؓ کی بے حد عزت کرتے ہوئے صحابہ رضی اللہ عنہم کے مجمع میں برملا فرماتے: ’’علی دُنیا و آخرت میں میرا بھائی ہے اور میرے خاندان میں میرا خلیفہ ہے اور میری امت میں میرا وصی ہے اور میرے علم کا وارث ہے ۔‘‘
سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کی طبیعت میں انتہادرجہ کی سادگی و عاجزی پائی جاتی تھی۔ آپؓ کا مکان ،لباس اور کھانا مفلس ترین اشخاص سے اچھا نہیں تھا۔ ضروریات زندگی کی فراہمی کیلئے خود کام کرتے، انتہائی کریم النفس اور سخی و فیاض تھے۔ سواری کم استعمال کرتے، اکثرپیدل سفر فرماتے اور کوفہ کے گلی کوچوں میں جا کر رعا یا کو تقویٰ و پرہیزگاری اختیار کرنے کی ہدایت فرماتے۔
ماہ رمضان کی ۱۹؍تاریخ کو صبح صادق مسجد کوفہ تشریف لے گئے۔ چند رکعتیں ادا فرمائیں اور کچھ توقف کے بعد فجر کی اذان دی۔ خلیفۃ المسلمین کی کوفہ میں یہ آخری اذان تھی اور اس صدائے حق کی بازگشت صحن مسجد سے بلند ہو کر ہر طرف پھیل گئی۔ اذان سے فراغت کے بعد آپ محراب کی طرف تشریف لائے جہاں ایک شقی القلب بد بخت خارجی عبد الرحمن ابن ملجم نے زہر میں بجھی ہوئی تلوار آپ ؓ کے سر اقدس پر اس وقت ماری جس وقت آپ رضی اللہ عنہ فجر کی پہلی رکعت کے سجدہ سے سر اٹھا نے والے تھے۔ وار شدید تھا۔ تلوار اندر تک دھنس گئی تھی۔ دفعتاً آپ رضی اللہ عنہ کی زبان سے نکلا: ’’رب کعبہ کی قسم میں کامیاب ہو گیا!‘‘ بعد ازاں یہ افسوس ناک خبر سن کر اہل شہر مسجد میں جمع ہو کر زار و قطار رونے لگے۔ آپ رضی اللہ عنہ شدید زخمی حالت میں تھے یہاں تک کہ ۲۱؍ ویں رمضان المبارک کی شب کا دو تہائی گزرنے پر مزید حالت خراب ہو گئی اور اسی اثناء کلمۂ شہادت کا ورد کرتے ہوئے اپنی جان خالق حقیقی کے سپرد کر دی