• Sat, 13 December, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

سگڑی کے دہکتے انگاروں پر توا ہے نہ کفگیر کی کھنک نہ کھچڑے کی دیگ

Updated: May 17, 2020, 4:35 AM IST | Kazim Shaikh

گلیاں سنسان اور مسجدوں کے محراب ومنبر خاموش ہیں۔ محلوں اورگلیوں میں بچوں کی چہل پہل اور ان کی شرارتوں و ہنگامہ آرائیوں پر کورونا کا پہرہ ہے

Ramadan - Pic : INN
رمضان ڈائری ۔ تصویر : آئی این این

گلیاں سنسان اور مسجدوں کے محراب ومنبر خاموش ہیں۔ محلوں  اورگلیوں میں بچوں کی چہل پہل اور ان کی شرارتوں و ہنگامہ آرائیوں پر کورونا کا پہرہ ہے۔ مسجدوں سے مؤذن کی حی علی الصلوٰۃ کی آواز فضاؤں میںگونجتی ہے مگر مسجد کے راستے مسدود ہیں۔ تراویح میں قرآن پڑھنے کی دل پزیر آواز سنائی نہیں دیتی۔ امت مسلمہ کیلئے اس سے بڑی تکلیف دہ بات اور کیا ہوسکتی ہے۔ کوئی کہتا ہے یہ عذاب الٰہی ہے توکسی کاکہنا ہے کہ کورونا ایک سازش ہے۔
  کوئی ارادہ تھا، نہ ہی کوئی منصوبہ تھا۔ اچانک گھاٹ کوپر لکشمی نگر کی اپنی رہائش گاہ سے نکل پڑا۔ کئی دنوںبعدنکلا تھا، حالانکہ یہ لاک ڈاؤن کی خلاف ورزی تھی۔ شام۵؍ بجے جب ساکی ناکہ خیرانی روڈ پر پہنچا تو ایک مسجد سے اللہ اکبر کی آواز کانوں میں سنائی دی۔ چند قدم کے فاصلے پر سر پر ٹوپی اورکرتے کا دامن ٹھیک کرتے ہوئے ایک بڑے میاں نظر آئے۔ قر یب پہنچا تو دیکھا وہ  محمد بھائی رگڑا والے تھے۔ ان کے ہاؤ بھاؤ میں بھی رگڑا کے مسالے کی تیزی تھی۔ بھائی یہ اذان کہاں ہورہی ہے؟ اس سوال پر اُنہوں  نے تھوڑا سا سننے کی کوشش کرتےہوئے کہا کہ مکہ مسجد کی اذان ہے۔ بے ساختہ میری زبان سے نکلا کہ یہاں مدینہ مسجد بھی ہے؟ جواب دیا کہ ہاں مدینہ مسجد ہے جو اپنی تعمیر کے وقت یہاں کی سب سے خوبصورت مسجد تھی۔ اس کے بارے میں کہا جا تا ہے کہ  اللہ کے ایک ہی بندے نے تعمیر کروائی تھی۔ 
  بڑے میاں اچانک چپ ہوگئے۔ میں نے پوچھا،کہاں کھو گئے؟ کہنے لگے اس مقدس مہینے میں یہاں کیا رونق ہوا کرتی تھی۔ آج یہ علاقہ کتنا بے رونق ہے،بقول شاعر:
   شاخ سوئی ہے ثمر جاگتا ہے=شہر سنسان ہے گھر جاگتا ہے
    تراویح کے بعد ساکی ناکہ خیرانی روڈ اور جری مری علاقے سے کرلا  پہنچا تو سناٹے کا منظر دیکھ کر یہ سوچنے لگا کہ کیا یہ وہی کرلا ایل بی ایس مارگ ہے؟ جہاں کی مشہور کھاؤ گلی میں ایک شور بپا ہوتا مگر اب سناٹے کی حکمرانی  ہے۔ نہ سگڑی کے دہکتے انگاروں پر توا ہے، نہ کفگیر کی کھنک، نہ کھچڑے کی دیگ ہے  اور نہ ہی  ان میں چمچوں کی تکرا ر۔ اگر کچھ ہے تو پچھلے رمضان کی چٹخاری یادیں ہیں۔  یہ سوچ کر کہ روز روز تو گھر سے باہر نکلنا مشکل ہے، اگر نکل ہی گیا ہوںتو شہر کے حالات اچھی طرح معلوم کرلوں۔ یہ سوچ ہی رہا تھا کہ کرلا نیومل روڈ پر چلتے چلتے  ایک رشتہ دار سے ملاقات ہوگئی ۔علیک سلیک کے بعد کہنے لگے کہ چائے پینا ہے لیکن چائے کسی ہوٹل پر نہیں ملے گی، ہمیں گھر  جانا پڑیگا۔ ہم نے گھر کی سلیمانی چائےپی اور بھنڈی بازار کے جباری ہوٹل کی یاد تازہ ہوگئی۔ ابھی قدم باہر نکلے ہی تھے کہ راستے میں مولانا ثابت علی نقشبندی مل گئے، جیسے وہ مجھے ہی تلاش کرنے نکلے ہوں۔ آنکھیں پھاڑ کر   میری طرف دیکھا  اور کہنے لگے۔ سر کیسے ؟آپ نے سرکہاں اور کیوں منڈوا دیا؟ میںنے کہاکہ یہ کورونا کے خلاف احتجاج ہے۔ مولانا نے دور ہی دور سے مزاج پوچھا، ہاتھ بڑھایا مگر ملایا نہیں۔ سوشل ڈسٹینسنگ کا پالن کرکے مودی جی کے فرمان کی تائید کی۔
  وہاں  ایک بڑے میاں بظاہر شریف النفس کئی افراد کے ساتھ کھڑے باتیں کررہے تھے ۔ میں نے سلام عرض کیا۔ ان کے منہ میں پان بھرا ہوا تھا۔ پہلے منہ ہی منہ میں اتنی جگہ بنائی کہ بلند آواز میںوعلیکم السلام کہہ سکیں، پھر کہا میاں کہاں سے آئے ہو ۔ میں نے تعارف پیش کیا تو کہنے لگے ۔ ارے بھائی اچھا ہوا کہ آپ خود ہی چلے آئے۔ پائپ روڈ کی خبر پڑھ کر میں آپ سے ملاقات کا متمنی تھا ۔ آپ نے نیوز چینل پر چلنے والی فرضی خبر کی دھجیاں بکھیر دیں۔جس خبر میں اس نے مسلمانوں کو بدنام کرنے کی کوشش کی تھی۔ میں کچھ کہنا چاہتا تھا کہ ان کے دوسرے ساتھی کہنے لگے ، بھائی انقلاب کا جواب نہیں ہے۔ یہ اخبار برسہا برس سے نمبر وَن پر ہے لیکن لاک ڈاؤن کی وجہ سے  اخبار نہ ملنے پر پورے دن کمی محسوس ہوتی ہے۔رمضان کے متعلق میں نے کچھ پوچھنے کی کوشش کی تو کہنے لگے کہ کرلا مارکیٹ عورتوں کے ملبوسات، بچوں کے پہناوے اور بچیوں کے بناؤ سنگھار کا ایک اہم مرکز مانا جاتاہے مگر اب وہاںپر  ہو‘ کا عالم ہے ۔ دکاندار دکانیں بند کئے حسرت ویاس کی تصویر بنے ہوئے ہیں۔   ایک ماہ میں پورے سال کا کاروبار ہوجاتا تھا مگر  اب ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پورے سال کی کمائی کورونا ہی نگل جائے گا۔ ہم ان سے محوکلا م ہی تھے کہ ایک شاعر نما شخص ٹپک پڑے۔ کہنے لگے کہ رمضان المبارک کی شناخت سڑکوں اور گلیوں میں لگنے والی  دکانوں سے ہوا کرتی تھی لیکن واہ رے کورونا، تیری کن کن ادا ؤں پر رونا ، کہتا ہے گھر سے باہر پاؤں دھرونا!
  کیا آپ شاعری وائری بھی کرتے ہیں؟ میرے اس سوال کو  انہوں نے نظر انداز کردیا اور کہنے لگے بھائی، کورونا نے سب کچھ ماند کردیا۔  اب ہم لوگ سوچتے ہیں کہ اپنے اخراجات کو کم کرکے ،ضرورتمندوں کی مدد کرکے  اس ماہ کی خوشیوں کو دوبالا کرینگے۔ رمضان کا اس سے بہتر پیغام  اور کیا ہوسکتا ہے

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK