اس پارے کی پہلی سورہ مجادلہ ہے، یہ نام پہلی ہی آیت کے لفظ تجادلک سے ماخوذ ہے، جس کے معنی جھگڑا کرنے اور بحث کرنے کے ہیں۔
EPAPER
Updated: May 20, 2020, 6:55 AM IST
|
Maolana Nadeemul Wajidi
اس پارے کی پہلی سورہ مجادلہ ہے، یہ نام پہلی ہی آیت کے لفظ تجادلک سے ماخوذ ہے، جس کے معنی جھگڑا کرنے اور بحث کرنے کے ہیں۔ اس پارے کی پہلی سورہ مجادلہ ہے، یہ نام پہلی ہی آیت کے لفظ تجادلک سے ماخوذ ہے، جس کے معنی جھگڑا کرنے اور بحث کرنے کے ہیں۔ اس میں اس عورت کا قصہ مذکور ہے جس کے شوہر نے ظہار کیا تھا۔ ظہار کہتے ہیں اپنی بیوی کے کسی ایسے جزوبدن کو اپنی ماں یا دیگر محرمات سے تشبیہ دینا جس سے ذات مراد ہو، جیسے یہ کہا کہ تو مجھ پر ماں کی طرح ہے، یا تو میری ماں کی کمر کی طرح ہے۔ اس کے بعد اس عورت نے آکر حضور ﷺسے یہ اصرار کیا کہ وہ کوئی ایسی صورت نکالیں جس سے اس کی شادی شدہ زندگی بچ جائے، اس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ اللہ نے اس عورت کی بات سن لی ہے جو اپنے شوہر کے معاملے میں آپ سے بحث کررہی تھی اور اللہ سے شکایت کررہی تھی، اللہ تعالیٰ تم دونوں کی گفتگو سن رہے تھے۔ اس آیت سے چھٹی آیت تک ظہار کے شرعی احکام بیان کئے گئے ہیں اور مسلمانوں کو تنبیہ کی گئی ہے کہ اسلام کے بعد بھی جاہلیت کے طور طریقوں پر نہ چلیں، یہ ایمان کے منافی ہے۔ ساتویں آیت سے دسویں آیت تک منافقین کی پکڑ کی گئی ہے کہ وہ خفیہ طور پر اسلام کے خلاف منصوبہ سازی کرتے رہتے ہیں اور ان کے دلوں میں جو بغض چھپا ہوا ہے اس کو ظاہر کرنے میں کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ مسلمانوں کو تسلی دی گئی ہے کہ منافقین کی سرگوشیاں تمہارا کچھ نہیں بگاڑ سکتیں، پھر منافقین سے کہا گیاہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کے لئے سرگوشیاں کرنا اہل ایمان کا شیوہ نہیں ہے۔ اگلی آیات میں مسلمانوں کو مجلسی تہذیب کے بارے میں بتلایا گیا ہے کہ اگر کسی مجلس میں بہت سے لوگ بیٹھے ہوئے ہوں اور باہر سے کچھ لوگ آجائیں تو سمٹ کر بیٹھ جائیں اور آنے والوں کے لئے جگہ دے دیا کریں، اللہ تمہیں کشادگی عطا کرے گا، اور جب تم سے کہا جائے کہ مجلس سے اٹھ جاؤ تو اٹھ جایا کرو۔ اے ایمان والو! جب تم نبی ؐسے سرگوشی میں کوئی بات کیا کرو تو پہلے صدقہ دے دیا کرو (اصل میں رسول اللہ ﷺ سے خلوت میں بات کرنے والوں کی تعداد دن بہ دن بڑھتی جارہی تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی کی درخواست رد نہ فرماتے، اللہ تعالیٰ نے صدقہ کا حکم دے کر آزمانا چاہا کہ کون ضرورت سے بات کرتا ہے اور کون بلا ضرورت کرتا ہے) اور اگر تم صدقہ کے لئے کچھ نہ پاؤ تو اللہ غفور ورحیم ہے۔ بعد کی آیات میں اخلاص کا معیار بتلایا گیا ہے، یہ مخلصین وہ لوگ ہیں جو اللہ کے دین کے معاملے میں کسی کا بھی لحاظ نہیں کرتے، نہ اپنے والدین کا، نہ اپنی اولاد کا اور نہ دیگر افراد خاندان کا، بلکہ جو اللہ اور رسول کے دشمن ہیں وہ ان سے ذرا بھی تعلق نہیں رکھتے۔
سورۂ الحشر کی ابتدائی آیات میں ایک غزوہ کی طرف اشارہ ہے جو تاریخ وسیرت کی کتابوں میں غزوۂ بنو نضیر کے نام سے مشہور ہے۔ یہ ایک بہت بڑا قبیلہ تھا۔ افراد، مال و دولت اور جنگی سازو سامان کے لحاظ سے یہ لوگ مسلمانوں سے کسی طرح کم نہ تھے، بلکہ کچھ بڑھے ہوئے ہی تھے، مگر جب مسلمانوں نے ان کا محاصرہ کیا تو وہ لوگ پہلے ہی مرحلے میںاز خود جلا وطن ہوگئے۔ شروع کی چار آیات میں اسی واقعے کی طرف اشارہ ہے کہ وہی (اللہ) ہے جس نے اہل کتاب کافروں کو پہلے ہی ہلّے میں ان کے گھروں سے نکال باہرکیا، تمہیں یہ گمان بھی نہیں تھا کہ وہ نکل جائیں گے اور تم یہ خیال کرتے تھے کہ ان کے قلعے ان کو بچا لیں گے، لیکن اللہ ان پر ایسے رُخ سے آیا کہ ان کے وہم وگمان میں بھی نہ تھا۔ اگلی آیتوں میں اموال غنیمت کے سلسلے میں ہدایت دی گئی کہ وہ (مالِ غنیمت) اللہ ورسول، ان کے رشتہ داروں، یتیموں، مسکینوں اور مسافروں کیلئے ہیں تاکہ وہ تمہارے دولت مندوں ہی میں گردش نہ کرتے رہیں جو کچھ رسولؐ اللہ تمہیں دیں لے لو اور جس چیز سے منع کریں اس سے رک جاؤ، یہ مال ان غریب مہاجرین کیلئے ہے جو اپنے گھروں سے اور اپنی جائداد وں سے نکال باہر کئے گئے۔
اس کے بعد غزوۂ بنو نضیر کے موقع پر منافقین نے جو روش اختیار کی تھی اس کا بھی ذکر ہے کہ انہوں نے اہل کتاب سے یہ وعدہ کررکھا تھا کہ اگر تم اپنے گھروں سے نکالے گئے تو ہم تمہارے ساتھ نکل جائیں گے اور اگر تمہارے ساتھ جنگ کی گئی تو ہم تمہاری مدد کریں گے، لیکن خدا گواہ ہے کہ یہ لوگ جھوٹے ہیں، نہ گھرسے نکلیںگے اور نہ جنگ میں مدد کریں گے۔ باقی آیات میں اہل ایمان کو خطاب کرکے کچھ نصیحتیں کی گئی ہیں اور بتلایا گیا ہے کہ ایمان کا اصل تقاضا کیا ہے، قرآن کو ماننے کا دعویٰ ہے مگر قرآن کی روح کو سمجھتے ہی نہیں۔ یہ قرآن وہ ہے کہ اگر ہم اسے کسی پہاڑ پر اتار دیتے تو تم دیکھتے کہ وہ اللہ کے خوف سے جھکا جا رہا ہے اور پھٹا جارہا ہے۔ آگے اللہ تعالیٰ کے اسمائے حسنیٰ بیان کئے گئے ہیںکہ وہ اللہ ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے، غیب و حاضر کا جاننے والا ہے، رحمٰن و رحیم ہے، وہ اللہ ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے، بادشاہ ہے، نہایت مقدس، سراسر سلامتی، امن دینے والا، نگہبان، غالب اپنا حکم پُر زور نافذ کرنے والا، بڑائی کا سزاوار۔اللہ اس شرک سے پاک ہے جو وہ کررہے ہیں، وہ اللہ ہی ہے جو تخلیق کا منصوبہ ساز بھی ہے اور اسے نافذ کرنے والا بھی ہے، صورت گر بھی ہے، آسمانوں اور زمین کی ہر چیز اس کی تسبیح بیان کرتی ہے، وہ زبردست ہے، حکمت والا ہے۔
سورۂ ممتحنہ کا آغاز ایک قصے کی طرف اشارے سے ہوتا ہے۔ حضرت حاطب ابن بلتعہ ؓ نے اپنے اہل وعیال کو بچانے کے لئے مسلمانوں کا ایک جنگی راز دشمنوں کو بتلانا چاہا تھا جس کی بروقت خبر ہوگئی اور یہ راز افشا نہ ہوسکا، اگر یہ راز کفار مکہ کو معلوم ہوجاتا تو فتح مکہ کے موقع پر مسلمانوں کو شدید مالی وجانی نقصان اٹھانا پڑتا۔ اس سورہ کی ابتدائی نو آیات میں مسلمانوں سے کہا گیا ہے کہ وہ میرے اور اپنے دشمنوں کو دوست نہ بنائیں۔ آگے یہ بھی فرمایا کہ قیامت کے دن یہ رشتے ناطے اور اولاد کام نہ دے گی، اس روز اللہ تمہارے درمیان جدائی ڈال دے گا۔ اگلی آیتوں میں ان مسلمان عورتوں کے متعلق فرمایا کہ جو خود تو ہجرت کرکے مدینے آگئیں مگر ان کے شوہر بحالت کفر مکہ میں تھے، یہی حال بہت سے مردوں کا تھا کہ وہ خود تو مسلمان ہوگئے تھے مگر ان کی بیویاں بہ حالت کفر مکّہ میں تھیں، ایسی عورتوں اور مردوں کے سلسلے میں ہدایت دی گئی کہ :اے لوگو جو ایمان لائے ہو، جب مومن عورتیں ہجرت کر کے تمہارے پاس آئیں تو (ان کے مومن ہونے کی) جانچ پڑتال کر لو، اور ان کے ایمان کی حقیقت اللہ ہی بہتر جانتا ہے پھر جب تمہیں معلوم ہو جائے کہ وہ مومن ہیں تو انہیں کفار کی طرف واپس نہ کرو نہ وہ کفار کے لئے حلال ہیں اور نہ کفار ان کے لئے حلال، ان کے کافر شوہروں نے جو مہر اُن کو دیئے تھے وہ انہیں واپس کر دو اور ان سے نکاح کر لینے میں تم پر کوئی گناہ نہیں جبکہ تم اُن کے مہر اُن کو ادا کر دو، اور تم خود بھی کافر عورتوں کو اپنے نکاح میں نہ روکے رہو جو مہر تم نے اپنی کافر بیویوں کو دیئے تھے وہ تم واپس مانگ لو اور جو مہر کافروں نے اپنی مسلمان بیویوں کو دیئے تھے انہیں وہ واپس مانگ لیں یہ اللہ کا حکم ہے، وہ تمہارے درمیان فیصلہ کرتا ہے اور اللہ علیم و حکیم ہے۔ آخری آیات میں سرکار دو عالمؐ سے فرمایا گیا ہے کہ جو عورتیں اسلام قبول کرلیں ان سے آپ شرک، چوری، زنا، قتل اولاد، بہتان تراشی، نافرمانی وغیرہ برائیوں سے بچنے کا عہد لیں۔
سورۂ الصف کی ابتداء میں اہل ایمان سے یہ سوال کیا گیا ہے کہ اے اہل ایمان تم لوگ وہ بات کیوں کہتے ہو جو کرتے نہیں ہو، اللہ کو یہ چیز سخت ناپسند ہے کہ تم وہ بات کہو جس پر عمل نہ کرو۔ اللہ کو وہ لوگ محبوب ہیں جواس کی راہ میں سیسہ پلائی دیوار بن کر صف بستہ کھڑے ہوجاتے ہیں۔ اس کے بعد کی تین آیات میں اہل ایمان سے کہا گیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہمارا طرز عمل وہ نہ ہونا چاہئے جو حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ علیہما السلام کے ساتھ ان کی قوموں کا تھا۔ اگلی آیت میں یہود ونصاریٰ اور منافقین کی سازشوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا گیا کہ یہ لوگ اپنی پھونکوں سے اللہ کا نور بجھانا چاہتے ہیں، اللہ اپنے نور کو مکمل کرکے (پھیلا کر) رہے گا خواہ کافروں کو کتناہی ناگوار گزرے۔ اگلی تین آیات میں اہل ایمان کو بتلایا گیا کہ دنیا اور آخرت میں کامیابی کا صرف ایک ہی راستہ ہے کہ اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور اللہ کی راہ میں اپنے مال اور جان سے جہاد کرو، آخر میں اہل ایمان سے کہا گیا ہے کہ جس طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے حواریوں نے اللہ کی راہ میں ان کا ساتھ دیا تھا اسی طرح تم بھی انصار اللہ بنو۔
سورۂ جمعہ میں دو رکوع ہیں اور دونوں کے موضوع الگ الگ ہیں، پہلے رکوع میں اہل کتاب سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ تم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس لئے رسول ماننے سے انکار کردیا کہ وہ امی قوم میں مبعوث ہوئے ہیں، اور تم یہ سمجھتے ہو کہ منصب رسالت ہماری قوم کے لئے مخصوص ہے، تمہاری خواہش کے علی الرغم اللہ نے انہی امیوں میں ایک رسول پیدا کیا ہے جو لوگوں کو اس کی آیات سنا رہا ہے، تزکیۂ نفس کررہا ہے، لوگوں کو ہدایت دے رہا ہے، تم کو تورات دی گئی تھی، لیکن تم نے اس کی ذمہ داری ادا نہ کی، تمہارا حال اس گدھے کا سا ہے جس کی پیٹھ پر کتابیں لدی ہوئی ہوں اور اسے کچھ معلوم نہیں کہ وہ کس چیز کا بوجھ اٹھائے ہوئے ہے، اگر تم بزعم خود اللہ کے محبوب اور اس کے دوست ہو تو موت کی تمنا کیوں نہیں کرتے، تم موت کی تمنا کرہی نہیں سکتے، حالاں کہ جس موت سے تم راہ فرار اختیار کررہے ہو وہ آئے گی ضرور۔ دوسرے رکوع میں مسلمانوں کو یہ حکم دیا گیا کہ جمعہ کی اذان کے بعد ہر قسم کی خریدو فروخت اور دوسری مصروفیات حرام ہیں۔ اذان ہوتے ہی اللہ کے ذکر کی طرف دوڑیں، البتہ جب نماز ختم ہوجائے تو تلاشِ رزق میں زمین پر پھیل جائیں۔
سورۂ منافقون میں ان منافقین کا ذکر ہے جو اکثر یہودی تھے، ان کو اولاد پر بڑا گھمنڈ تھا، اس لئے ان سے کہا جارہا ہے کہ تمہارے مال اور تمہاری اولاد تم کو یاد الٰہی سے غافل نہ کردیں۔ سورۂ تغابن کی ابتداء حمد و ثنا سے ہوتی ہے۔ اس کا موضوع ایمان کی دعوت، اللہ ورسول کی اطاعت کی تلقین اور اخلاق حسنہ کی تعلیم ہے۔اللہ کی راہ میں مال خرچ کرنے کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا گیا کہ اگر تم اللہ کو قرض حسنہ دو تو وہ تمہیں کئی گنا بڑھا کر دے گا اور تمہارے قصوروں سے درگزر فرمائے گا۔
سورۂ الطلاق کے احکام تو بڑی تفصیل کے ساتھ سورۂ بقرہ میں بیان کئے جاچکے ہیں، اس سورہ میں وہ تمام احکام علی حالہ برقرار رکھتے ہوئے یہ کہا گیا ہے کہ مرد اپنے اختیار طلاق کو نہایت حکیمانہ طریقے پرروبہ عمل لائے، اول تو اس کی طرف سے یہ کوشش ہونی چاہئے کہ میاں بیوی کے درمیان طلاق کی نوبت ہی نہ آئے، اور علاحدگی صرف اس صورت میں ہو جب مصالحت کے تمام امکانات ختم ہوچکے ہوں۔ سورۂ بقرہ میں طلاق کے احکام نازل ہونے کے بعد جو کچھ احکام ومسائل باقی رہ گئے تھے وہ بھی اس میں بیان کردیئے گئے ہیں۔ مثال کے طور حاملہ عورت کی عدت، جس عورت کا شوہر مرجائے اس کی عدت کیا ہوگی، مطلقہ عورتوں کے لئے نان نفقے کی ذمہ داری کس کی ہوگی ،جس بچے کے والدین طلاق کے ذریعے الگ ہوچکے ہیں اس کی رضاعت و کفالت کا کیا نظم ہوگا، یہ سب باتیں اس سورہ میں بیان کی گئی ہیں۔ سورۂ تحریم میں ازواج مطہرات کے متعلق بعض واقعات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے چند اہم مسائل پر روشنی ڈالی گئی ہے، ان میں سب سے اہم مسئلہ یہ ہے کہ حلال وحرام اور جائز یا ناجائز کی حدود مقرر کرنے کا اختیار صرف اللہ کو ہے۔ یہ سورہ ایک گھریلو قسم کے واقعے کے بعد نازل ہوئی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ایک زوجۂ محترمہؓ کے یہاں شہد پی لیا تھا، باقی ازواج مطہرا ت رضی اللہ عنہا کو اس پر رشک آیا اور انہوں نے یہ کہا کہ آپؐ کے منہ سے ینافیر کی بو آرہی ہے، اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے قسم کھالی کہ میں آئندہ شہد نہ پیوں گا، کیونکہ آپؐ کو بدبو سخت ناپسند تھی، اس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ جو چیز اللہ نے حلال کررکھی ہے آپ اسے اپنے اوپر حرام کیوں کررہے ہیں، اس سلسلے میں گھریلو معاملات کے سلسلے میں کچھ ہدایات بھی ہیں