Inquilab Logo

عہدے سرفراز بھی کرتے ہیں، ذلیل بھی

Updated: March 27, 2020, 2:34 PM IST | Shamim Tariq

بعض لوگ عہدوں کو سرفراز کرتے ہیں،اگر وہ عہدوں پر نہ ہوں تب بھی عزت کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں۔ دوسری جانب ایسے لوگ بھی ہیں جو عہدوں پر فائز رہتے ہوئے خود تو ذلت و آزمائش میں مبتلا کرتے ہی ہیں عہدے کو بھی بے آبرو کرتے ہیں۔

Ranjan Gogai - Pic : PTI
رنجن گوگوئی ۔ تصویر : پی ٹی آئی

سپریم کورٹ کے چیف جسٹس یا کسی جسٹس کو حکومت کا کوئی عہدہ دیا جانا یا راجیہ سبھا ممبر نامزد کیا جانا ہندوستان کی جمہوری تاریخ کا پہلا واقعہ نہیں ہے۔ سابق چیف جسٹس رنگ ناتھ مشرا ۱۹۹۲ء میں اپنے عہدے سے سبکدوش ہوئے تھے اور سبکدوش ہونے کے ۶؍ سال بعد ۱۹۹۸ء میں کانگریس کے امیدوار کی حیثیت سے الیکشن لڑ کر راجیہ سبھا کیلئے منتخب بھی ہوئے۔ اس وقت کانگریس حکمراں جماعت نہیں بلکہ اپوزیشن جماعت تھی۔ اسی طرح چیف جسٹس ایم ہدایت اللہ کے نائب صدر جمہوریہ، ایم سی چھاگلہ کے سفیر اور پھر وزیر اور جسٹس بہار الاسلام کے راجیہ سبھا کا ممبر بننے یا جسٹس پی سدا شیوم کے گورنر بنائے جانے کے معاملات بھی ہیں مگر چٹ منگنی پٹ بیاہ معاملہ صرف جسٹس گوگوئی کا ہے وہ چیف جسٹس کے عہدے سے سبکدوش ہونے کے بعد چار ماہ گزرنے سے پہلے ہی صدر جمہوریہ ہند کی جانب سے راجیہ سبھا کیلئے نامزد کردئیے گئے اور انھوں نے شرم شرم کے نعروں کا ممبروں کے واک آوٹ کے درمیان رکنیت کا حلف بھی لے لیا۔ شرم، شرم کے نعروں کے درمیان صدر جمہوریہ کے نامزد کئے ہوئے کسی شخص وہ بھی سابق چیف جسٹس کا راجیہ سبھا کی رکنیت کا حلف لینا جمہوری تاریخ کا پہلا واقعہ ہے۔ اس کو سانحہ بھی کہہ سکتے ہیں۔
 ۱۹۵۸ء میں لاکمیشن نے اپنی رپورٹ میں لکھا تھا کہ سبکدوش ہونے کے بعد ججوں کو کسی سرکاری عہدے پر قائم نہیں کیا جانا چاہئے کہ عہدے کی خواہش عدلیہ میں بدعنوانی کی راہ ہموار کرتی ہے۔ ارون جیٹلی کا تعلق بی جے پی سے تھا وہ سپریم کورٹ کے ایڈوکیٹ بھی تھے مگر وہ کہا کرتے تھے کہ عہدے سے سبکدوش ہونے سے پہلے جسٹس یا جج صاحبان کے دیئے ہوئے فیصلوں پر اس بات کا بہت اثر ہوتا ہے کہ سبکدوش ہونے کے بعد وہ کس عہدے پر فائز کئے جانے والے ہیں۔ تقریباً یہی بات رنجن گوگوئی بھی کہتے رہے ہیں مگر جس طرح ان کو راجیہ سبھا کے لئے صدر نے نامزد کیا اور جن حالات میں انھوں نے حلف لیا اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ یہ ضروری نہیں سمجھتے کہ جو کہا جائے اس پر عمل بھی کیا جائے۔ گوگوئی نے بابری مسجد، رام مندر، سبری مالا، رافیل، سی بی آئی اور آسام میں مردم شماری کے معاملے میں جو فیصلے دیئے ان کے بارے میں وہ چاہے جو کہیں مگر دوسروں نے یہی سمجھا ہے کہ یہ تمام فیصلے حکومت کی منشاء کے مطابق دیئے گئے ہیں۔ عام لوگوں کو تو چھوڑیئے خود گوگوئی کے ساتھ جج صاحبان بھی ان پر نکتہ چینی کررہے ہیں۔ اس کی معقول وجہ بھی ہے عدلیہ ملکی انتظامیہ پر فوقیت رکھتی ہے۔ عدلیہ کے رکن یا سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی حیثیت سے وہ ہر عہدے سے زیادہ بلند مقام پر فائز تھے، سیاستداں، بیوروکریٹس، صنعتکار ان کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑے ہوتے تھے مگر اب راجیہ سبھا کے رکن کی حیثیت سے خود انہیں صنعتکاروں اور سیاستدانوں کے سامنے با ادب کھڑا ہونا پڑے گا۔ اپوزیشن جماعتوں نے ان کی حلف برداری کے وقت جو کیا اگر اس کو غلط کہا جائے تب بھی اس حقیقت سے کون انکار کرسکتا ہے کہ اپنی حیثیت کو کم یا وقار کو مجروح کرنے کے کام خود رنجن گوگوئی نے کیا ہے۔ عہدے انسان کو ذلت و آزمائش میں بھی مبتلا کرتے ہیں۔ رنجن گوگوئی کے ساتھ جو ہوا یا عوامی جذبات نے ان کے خلاف جو رخ اختیار کیا اس میں ان تمام لوگوں کے لئے ایک سبق ہے جو عہدوں کو اپنی کامیابی کی معراج سمجھتے ہیں۔ بعض لوگ عہدوں کو سرفراز کرتے ہیں اور اگر وہ عہدوں پر نہ ہوں تب بھی عزت کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں۔ دوسری طرف ایسے لوگ بھی ہیں جو  عہدوں پر فائز رہتے ہوئے خود تو ذلت و آزمائش میں مبتلا کرتے ہی ہیں عہدے کو بھی بے آبرو کرتے ہیں۔ تازہ ترین مثال رنجن گوگوئی کی ہے۔ اپنے دیئے ہوئے فیصلوں کے بارے میں ان کے اپنے دلائل ہیں جو ٹائمز آف انڈیا (ممبئی ۲۰؍مارچ ۲۰۲۰ء) میں شائع ہوئے ہیں مگر ان دلائل سے وہ شکوک و شہبات رفع نہیں ہوتے جو عام لوگوں کے دلوں میں پیدا ہوئے ہیں نہ ہی ان کا وقار مجروح ہونے کی تلافی ہوتی ہے۔
 صدر جمہوریہ، ان کا عہدہ اور ان کا کیا ہوا ہر فیصلہ قابل احترام ہے اس لئے ان کے رنجن گوگوئی کو راجیہ سبھا میں نامزد کرنے کے فیصلے کو تسلیم کرنا ہمارے فرائض میں شامل قرار دیا جاسکتا ہے۔ اس کے باوجود دو بنیادی باتوں کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ پہلی بات یہ کہ بے شک صدر جمہوریہ کو دستور ہند کی دفعہ ۸۰؍ میں یہ اختیار دیا گیا ہے کہ وہ راجیہ سبھا کیلئے ۱۲؍ ہندوستانی شخصیتوں یا شہریوں کو نامزد کرسکتے ہیں مگر اسی دفعہ میں یہ وضاحت بھی ہے کہ ہندوستان کے ان شہریوں یا شخصیتوں کو سائنس، ادب، فنون لطیفہ یا عوامی خدمت کے دمیان میں خصوصی اہمیت حاصل ہو۔ کیا کوئی جسٹس ان شرائط کو پورا کرتا ہے؟ دوسری بات یہ ہے کہ صدر جمہوریہ جن شخصیتوں کو راجیہ سبھا کیلئے نامزد کرتے ہیں وہ ان کی پسند یا انتخاب نہیں ہوتے۔ ان کو نامزد کرنے کی سفارش کابینہ یا وزیر اعظم کے دفتر سے ہوتی ہے۔ کابینہ یا وزیر اعظم کے دفتر سے جن لوگوں کے ناموں کی سفارش کی جاتی ہے وہ ایسے بھی لوگ ہوتے ہیں جو حکمراں جماعت کے کسی خاص مقصد کو پورا کرتے ہیں یا کسی خاص مقصد کو پورا کرکے انعام کے طور پر راجیہ سبھا کی رکنیت حاصل کرتے ہیں۔ نامزد کئے گئے لوگوں کی کارکردگی کا مشاہدہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ان میں کئی ایسے ہیں جو ۶؍ سال کی مدت ختم ہونے تک ایک لفظ بھی بولنے سے قاصر رہے۔ رنجن گوگوئی عالم فاضل شخص ہیں وہ ان دوسری شخصیتوں سے بہتر ہی ہوں گے جنہیں صدر جمہوریہ نامزد کریں گے مگر کیا انہیں صحیح وقت پر نامزد کیا گیا ہے اور کیا وہ ان خصوصیات کے حامل ہیں جن خصوصیات کے حامل افراد کو نامزد کرنے کا حق دستور نے انہیں عطا کیا ہے؟ بے شک وزیر اعظم کے دفتر نے ان کو جو مشورہ دیا اسی کے مطابق انہوں نے جسٹس گوگوئی کی نامزدگی کی ہے۔ مگر چونکہ یہ نامزدگی ان ہی کے نام اور دستخط سے ہوتی ہے اس لئے بہتر ہوتا کہ وہ خود بھی غور کرلیتے کہ وہ کس کو نامزد کررہے ہیں۔ سیاستدانوں کی مجبوری سمجھ میں آتی ہے مگر صدر جمہوریہ کو کیا مجبوری تھی؟ رنجن گوگوئی کی نامزدگی سے بہتوں کو حکومت اور انتظامیہ کے ساتھ صدر جمہوریہ کے اختیار پر بھی انگلی اٹھانے کا موقع مل گیا ہے۔
 جسٹس رنجن گوگوئی نے چاہے رام مندر، بابری مسجد، سبری مالا، سی بی آئی، آسام میں مردم شماری، رافیل معاملات میں اپنے ضمیر کی آواز سنی ہو مگر پیغام تو یہی عام ہوا ہے کہ ان کے فیصلے حکومت کی آواز پر لبیک کہنے کے مترادف تھے۔ اب راجیہ سبھا میں بھی وہ یہی کریں گے۔ اس نامزدگی نے انہیں رسوا کیا ہے

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK