Inquilab Logo

سلام بن رزاق کے افسانوں کے حوالے سے: مرکز میں کھڑے حاشیائی کردار

Updated: May 12, 2024, 3:43 PM IST | Muhammad Aslam Parvez | Mumbai

سلام بن رزاق، جو منگل ۷؍ مئی ۲۴ء کو اِنتقال کرگئے، ہمارے عہد کے صف اول کے افسانہ نگارتھے۔ سماج کے دبے کچلے اور مظلوم و محروم طبقے کے افراد اُن کی کہانیوں میں مرکزی کردار کی جگہ پاتے تھے۔ اِس مضمون میں اُن کے فن کی متعدد خوبیوں کو اُجاگر کیا گیا ہے۔

Authentic name of Urdu fiction: Salam bin Razzaq. Photo: INN
اُردو افسانے کا معتبر نام: سلام بن رزاق۔ تصویر : آئی این این

۷۰ء کی دہائی میں جب پورے ملک میں علامتی اور تجریدی افسانہ پورے طمطراق سے فروغ پا رہا تھا اس وقت کی ایک عجیب لیکن خاص بات یہ کہ ممبئی کےسلام بن رزاق، انور خان، انور قمر، ساجد رشید، علی امام نقوی، مشتاق مومن اور مقدر حمید جیسے افسانہ نگار جدیدیت کے ہائی وولٹیج گلیمر سےقطعی متاثرنظر نہیں آتے تھے۔ جدیدیت کی پیداکردہ ذہنی آزادی کی فضا کواِن افسانہ نگاروں  نے کھلی بانہوں سے قبول ضرور کیا تھا مگرکہانی کو افسانے کے صفحے پر ذبح ہونے نہیں دیا۔ نام نہاد جدیدیت خالص کہانی پیدا کرنے کی جھونک میں جس کہانی پن کو قتل کرنے کے درپے تھی، وہی کہانی پن ’’سروائیول کٹ‘‘کی طرح ممبئی کے اِن افسانہ نگاروں کے پاس موجود تھا۔ جدید اردو فکشن کی تاریخ شاہد ہے کہ افسانہ نگاروں کی اس پیڑھی نے معاشرتی صورتحال پر جس طرح معنی خیزمکالمے کو قائم کیا اس میں بمبئی کے افسانہ نگاروں کا رول رہا ہے۔ کہنے کی ضرورت نہیں کہ سلا م بن رزاق نے بھی اس میں اپنی حصّے داری بخوبی نبھائی۔ زیرِ نظر مضمون کا مقصد سلام بن رزاق کے فنی مرتبے کا تعین کرنا نہیں بلکہ اردو فکشن کے قاری او ر طالب علم کی حیثیت سے ان کے فنی رویے کو سمجھنا ہے۔ 
  ایمرجنسی کے زمانے میں سلام بن رزاق نے ایک مختصر سا افسانہ بہ عنوان ’’روشنی کا سراب ‘‘ تحریر کیا تھا جو ’’اظہار‘‘ کے اولین شمارے میں شائع ہوا تھا۔ سات سطری یہ مختصر افسانہ یا افسانچہ میرے خیال میں سلام بن رزاق کے فنی رویے کا بلو پرنٹ ہے۔ افسانہ کچھ اس طرح ہے کہ شہر کی بجلی فیل ہو جانے کےسبب اچانک چاروں طرف اندھیرا چھا جاتا ہے۔ آنکھیں ناکارہ ہوجاتی ہیں اور ہاتھ کو ہاتھ تک سجھائی نہیں دیتا۔ مگر کچھ وقت گزرنے کے بعدلوگوں کو محسوس ہوتاہے کہ اندھیرا کم ہو رہا ہے اور انہیں کچھ کچھ دکھا ئی دے رہا ہے جبکہ اندھیرا کم نہیں ہو رہا تھا بلکہ حقیقت یہ تھی کہ لوگوں کی آنکھیں اندھیرے میں دیکھنے کی عادی ہو رہی تھیں۔ غور کریں توسلام کے بیشتر افسانوں کا موضوع زندگی اور زمانے کے مختلف منطقوں میں بڑھتا ہوا یہی اندھیرااور اس اندھیرے سے مانوس ہونے والی آنکھیں ہیں۔ گھنے سے گھنے اندھیرے کو کسی حکم ِ نادیدہ کی طرح قبول کرنے کی انسانی سائیکی کو سلام بن رزاق نے افسانوں کا موضوع اور مظروف بنایا۔ ان کے خلق کئے گئے کردار بھی اسی سائیکی کی آہنی فریم کے حصار میں ہیں۔ یہ اندھیرا کبھی تقدیر بن کر اُن پر مسلط ہوتا ہے تو کبھی مُراد بن کران کی زندگی پر چھا جاتا ہےاور کبھی کبھی سراب بن کر ان کے خوابوں کو نت نئی تعبیر عطا کرتا ہے۔ گویا ’’روشنی کا سراب ‘‘ کو ہم سلام بن رزاق کے افسانے کی دُنیا میں داخلے کی کلید قرار دے سکتے ہیں۔ 

یہ بھی پڑھئے: افسانہ: رِنگ ماسٹر

ادبی حلقوں میں بحیثیت افسانہ نگار سلام بن رزاق کافی شہرت رکھتے ہیں اور گزشتہ پچاس برسوں سے ان کا قلم لگاتارتخلیقی مرقعے کھینچتا چلا آرہا ہے۔ ان پانچ دہائیوں  میں بدلتے ہوئے فنی اسالیب اورادبی و تخلیقی محرکات کی جو مثالیں سلام بن رزاق کے افسانوں میں موجود ہے وہ ممبئی کے کسی دیگر افسانہ نگار کے یہاں اتنے واضح انداز میں نہیں ملتی۔ افسانہ نگاری کے علاوہ مراٹھی اور ہندی سے ترجمے کا کام بھی انہوں نےخلاقانہ انہماک سے کیاہے۔ عام طور پر ترجمے اصل تحریر کو ناگوار بنا دیتے ہیں، لیکن جی اے کلکرنی کے افسانوں اور مدھو منگیش کارنک کے مراٹھی ناول ’’ماہم چی کھاڑی ‘‘کی مراٹھی مقامیت، ڈکشن اور اسلوب کوانہوں نےاردو زبان کے محاورے میں اس طرح  ڈھالاہے کہ دونوں زبان کی روحیں ایک دوسرے سے گلے ملتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ مراٹھی فکشن کے گہرے مطالعے نے زمین سے سلام کے رشتے کو نہ صرف مستحکم رکھا بلکہ آس پاس کی صداقتوں سے انہیں منحرف بھی نہیں ہونے دیا۔ سلام بن رزاق کا فنی و تخلیقی کام ہی ان کے ادبی مقام کی دلیل ہے۔ اُن کے چار افسانوی مجموعے (ننگی دوپہر کا سپاہی، معبر، شکستہ بتوں کے درمیان اور زندگی افسانہ نہیں ) منظر عام پر آ چکے ہیں۔ مختلف ناقدین نے ان پر جو رائے تبصروں، تجزیوں، تاثراتی مضامین اور علمی مقالوں کی شکل میں دی ہے اسے پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ تمام تر تخلیقی و فنی حدود کے باوجود وہ اپنی نسل کے اہم اور نمائندہ افسانہ نگار ہیں۔ حال ہی میں نوجوان ناقد اور اسکالر شاکر تسنیم نے ان کے بارہ افسانوں کے چودہ تجزیوں پر مشتمل ایک کتاب ’’سلام بن رزاق: اپنے افسانوں کے آئینے میں ‘‘ مرتب کی ہے۔ اس میں گوپی چند نارنگ، وارث علوی، قمر رئیس، مہدی جعفر اور حامدی کاشمیری کے علاوہ دوسرے کئی نقادوں کی تحریریں شامل ہیں۔ بقول اسیم کاویانی مذکورہ کتاب سلام شناسی کی طرف پہلا قدم ہے۔ سلام بن رزاق کے افسانوں کی ایک خوبی / خامی یہ ہے کہ موضوع، کرافٹ اوراسلوب کے نقطہ نظر سے ان کے زیادہ تر افسانے ایک ہی زنجیر کی کڑیاں معلوم ہوتے ہیں۔ زندگی کی بساط پر مہرے کی طرح جینے والے بے بس، لاچار اور مجبور انسان کوجسے سسٹم نے پیس ڈالا ہے، سلام نے نہ صرف اپنے افسانے کاشاہ کردار بنایابلکہ اسے اپنا ہمزاد بھی قرار دیا۔ وہ خود کہتے ہیں :
’’میری ذات سے میرے کردار وجود میں آتے ہیں اور میرے کرداروں سے مل کر ہی میری ذات مکمل ہوتی ہے۔ غالب نے قطرے میں دریا اور جُز میں کُل کی حقیقت دریافت کی تھی۔ میں اپنی ذات کے آئینے میں اپنے اطراف کے لوگوں کی حرکات و سکنات کا مشاہدہ کرتا رہتا ہوں۔ ان کی محبتیں، ان کی نفرتیں، ان کی شرافت، ان کی کمینگی، ان کی سرکشی، ان کی بزدلی، ان کے سکھ، ان کے دکھ، غم و غصّہ، سختی اور نرمی سب میرے ہی جذبے کے مختلف عکس ہیں۔ ‘‘
 ’’بے چہرہ بھیڑ‘‘ میں بے نام چہرے والے اس عام آدمی کو سلام بن رزاق نے اپنے ہی حوالے سے فنی سانچوں اور لسانی ساختوں میں اس طرح باندھا کہ شخصی حیثیتوں سے محروم ہونے / رہنے کے باوجود افسانے کے صفحہ پروہ مرکزی جگہ گھیر لیتا ہے۔ عام آدمی کی سادگی، کمینگی، بزدلی، نامردی، اس کا جھوٹ، خود غرضی، منافقت، اس کی ذہنی، جذباتی کشاکش، الجھنیں، اس کا غصہ، حالات کی ستم ظریفیاں، محفوظ زندگی بسر کرنے کی شدید خواہش اور عدم تحفظ کا احساس، گویاعام آدمی کی زندگی میں، اس کے باطن اور اس کے آس پاس جاری مہابھارت سے پڑھنے والوں کو روبرو کرانے کا کام انہوں نے فریضے کے طور پر انجام دیا ہے۔ سلام بن رزاق کے زیادہ تر افسانوں میں ہماری ملاقات ایک ایسے ہیرو سے ہوتی ہے جو اپنی اصل میں نان ہیرو ہے، اپنے اس نان ہیرو کوانہوں نے مخصوس نام کے ساتھ ہی افسانوں میں ٹیگ کیا ہے۔ اُن کی شکلیں اور الگ الگ صورتیں وضع کی ہیں، عادات و اطوار بھی متعین کئے ہیں جس کی وجہ سے انہیں پہچاننے اور ان میں تفریق و امتیاز قائم کرنے میں قاری کو کوئی دقّت پیش نہیں آ تی۔ لیکن افسانوی رنگ منچ پر الگ الگ ناموں، چہروں اور کاسٹیوم کے ساتھ نمودار ہونے والا اصل میں ایک ہی آدمی ہے جسے تلاشنے، تراشنے اور پانے کاجتن افسانہ نگارمسلسل کرتا رہا ہے۔ 
 ابولکلام قاسمی نے اُن کے پہلے افسانوی مجموعہ ’’ننگی دوپہر کا سپاہی‘‘ پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا تھا : ’’اس مجموعہ میں پندرہ کہانیاں  شامل ہیں، جن میں چار پانچ حیرت انگیز حد تک موضوع کی یکسانیت کی غمازی کرتی ہیں۔ ‘‘ موضوع کی اس یکسانیت کی شکایت سلام بن رزاق کے بیشتر ناقدین نے کی ہے۔ خود سلام کو بھی اس کا احساس ہے، شاید یہی وجہ ہے کہ موضوع کی یکسانیت کے اثر کو زائل کرنے کیلئے انہوں نے تکنیک، بُنت اور ساخت پر خصوصی توجہ دی ہے۔ 
یہ بھی پڑھئے: کیا خوب سنترہ ہے

فنی منصوبہ بندی اور فنی التزام و انصرام کے باعث ہی ایک جیسے موضوع اورماحول کے باوجود افسانہ اپنی انفراد ی پہچان برقراررکھتا ہے۔ جس طرح کیلیڈسکوپ کی ایک جنبش آپ کے سامنے ایک نئے پیٹرن کو خلق کرتی ہے اسی طرح سلام بن رزاق کے افسانوں میں عام آدمی کی بہت کچھ کرنے کی خواہش اور کچھ نہ کر پانے کی مجبوری، اس کے خوف اور خواب نیز اس کی بے بسی اور بے وقعتی ہر بار ایک نیا آکار لیتی ہے۔ سب جانتے ہیں کیلیڈسکوپ میں نت نئے پیٹرن کا جلوہ محض کانچ کے چند ٹکڑوں کی یکجائی کا کرشمہ ہوتا ہے اسی طرح سلام بن رزاق کا افسانوی کیلڈاسکوپ بھی چند مخصوص صیغوں کے سبب نت نئے افسانے گڑھتاچلا آرہا ہے۔ ان کے افسانوں میں سانس لینے والے مختلف اور متنوع کردار زیادہ ارضی، زیادہ فطری اور زیادہ حقیقی معلوم ہونے کے باوجود ایک ہی خمیر سے اٹھے ہوئے ہیں اور سب میں افسانہ نگار کی روح گھلی ہوئی ہے۔ افسانوں کے وسیلے سے زندگی کو انگیز کرنے والے اور زندگی کے حوالے سے افسانوں میں رنگ بھرنے والے سلام اپنی پسند و ناپسند کرداروں پر مسلط نہیں کرتے بلکہ کردار ہی ایسے منتخب کرتے ہیں جو بجائے خود ان کی پرچھائیں ہو۔ اس طرح ہمیں ان کے کرداروں کے جذبوں اور رویوں  کے عکس میں ایک ہی برانڈ نظر آتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ موضوعات کی یکسانیت کو قابو میں کرنے کیلئے کیلڈاسکوپ کی فنکارانہ و خلاقانہ جنبش ہربے چہرہ کردار کو چہرہ داربنا دیتی ہے اورہر افسانے کو اپنا اختصاص عطا کرتی ہے۔ لیکن ٹھہریے ! کہیں مَیں یہ کہنے کی کوشش تو نہیں کر رہا ہوں کہ سلام کے افسانوں کی بالائی سطح پرنظر آنے والا موضوعاتی اور اسلوبیاتی تنوع فریب نظر ہے؟ جی نہیں ! اصراراس پر ہے کہ موضوعاتی اور اسلوبیاتی تنوع افسانے کی اہم صفت ضرور ہے لیکن اکلوتی نہیں۔ یہاں دیکھنایہ چاہئے کہ زندگی کے سیل رواں پر گمنام حاشیہ بن کربہنے اور ہر قسم کےجبر کوسہنے والے کرداروں کی ذہنی و جذباتی کشمکش اور بے چینی کو سلام نے جس طرح  افسانے میں پروسا ہے کیا وہ آرٹ کے فارم میں ڈھل بھی رہی ہےیا نہیں۔ باضمیر آدمی کا وجود اپنی انفرادیت کو بچانے اور جسم و جاں کے رشتے کو برقرار رکھنے کیلئے اگر منفی قوتوں کو قبول کرنے پر راضی ہوا ہے اس کی نوعیت کیا ہے؟
 خود سلام بن رزاق کہتے ہیں کہ افسانہ نگار کی آنکھ کھلی اور ذہن بیدار ہو تو ہر واقعہ ایک کہانی ہے اور ہر فرد ایک کردار ہے۔ مگر چند ایک استثنائی مثالوں  سے قطع نظر سلام بن رزاق کے افسانوں میں بسیرا کرنے والے زیادہ تر کردار افسانے کی کہانی میں جذب ہو جاتے ہیں۔ واقعہ، صورتحال، حادثہ انہیں ٹھونک پیٹ کر برابر کر دیتا ہےاور پھر وہ کردار نہیں فقط کردار کی پرچھائیں بن کر رہ جاتے ہیں۔ ان کے افسانے ندی، واسو، زنجیر ہلانے والے، انجام کار، چادر، آخری کنگورا اَور زندگی افسانہ نہیں جیسے افسانے ان کی آنکھوں کے کھلے اور ذہن کے بیدار ہونے کے شاہد ہیں۔ لیکن پھر بھی جس نادر و نایاب تجربے کا نام زندگی ہے سلام صاحب کے یہاں ایک پیٹرن بن جاتی ہے۔ بیشتر افسانوں میں نہ صرف راوی بلکہ افسانوں کے محوری و مرکزی کرداروں پر بھی مصنف ہونے کا گماں ہوتا ہے۔ ’’انجام کار‘‘ کا راوی، ’’کام دھینو ‘‘ کا مادھو، ’’خصی‘‘ کا پرس رام یا ’’خوں بہا‘‘ کا اسکول ماسٹر، اُن کے ارادوں، ان کی خواہشوں  اور منصوبوں کی سمت متعین کرنے والا پُرزہ بھی گویا افسانہ نگار کے لبادہ میں موجود ہے۔ 
 ایک زمانے میں سلام سے ان کے معاصرین اور ناقدین کو یہ شکایت تھی کہ ان کے کردار سماجی، سیاسی اور ثقافتی جبر کے خلاف اپنا احتجاج درج نہیں کرتے اور افسانے کے اختتام میں سرینڈر ہو جاتے ہیں، خاص طور پر ان کے مشہور افسانے ’’انجام کار‘‘ کے حوالے سے یہ بات اُس زمانے میں اس شدت سے کی جاتی رہی کہ اپنے اور اپنے کرداروں کے دفاع میں انہیں لکھنا پڑا تھا: ’’میں باغیوں کی کہانیاں نہیں لکھتا کیونکہ میرے عہد میں کوئی باغی نہیں ہے۔ ‘‘ لیکن یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ سلام اپنی تخلیقی حسیت کی ترتیب اور ترکیب میں شخصی اور نظریاتی کوڈس کے موجود ہونے اور تخلیقی موقف کو اپنا ماڈل بنانے کا اعتراف تو نہیں کر رہے ہیں ؟ یعنی افسانہ نگار کا تعصب زندگی کے مطالعے اور مشاہدے میں ہی نہیں اس کے انتخاب میں بھی پنہاں ہے۔ ویسے اس میں کوئی شک نہیں کہ کرداروں کی مزاحمت اور مفاہمت کے حوالے سے ادبی اقدار کا تعین جتنا خطرناک ہے اتنا ہی گمراہ کن بھی ہے۔ افسانے کی کامیابی و ناکامی کا راز فنکار کی اظہاری صورتوں میں مضمر ہے۔ سوال یہ بھی ہے کہ ذلالتوں، مصلحت کوشیوں اور خود غرضیوں کی کہانیاں لکھنا کہیں نہ کہیں اپنی شکست کو آخری شکست بننے دینا نہیں ہے کیا؟ مزاحمت کے بجائے اختتام میں مفاہمت کے پہلو کو قبول کرلینا بھی اصل میں مزاحمت درج کرنے کا ایک صیغہ ہی ہے۔ سلام بن رزاق کے اکثروہ افسانے جو کرداروں کی مفاہمت پر ختم ہوتے ہیں، اصل میں حرمت اور بے حرمتی، شک اور اعتماد کے معنی خیز سنگم پر کھڑے ہیں۔ ستی، باہم، کام دھینو، تصویر اورخصّی جیسے افسانے لازماً ایک خاص نقطے پر ختم ہوتے ہیں، جو دل و دماغ کو کچھ سوچنے اور سوچتے رہنے پر مجبور کرتے ہیں۔ اور یوں اُ س نظام کے خلاف بے آواز احتجاج کے مبلغ بن جاتے ہیں۔ خاص طور پر ’’انجام کار‘‘ کا اختتام ... 
 پولیس اسٹیشن میں بھی شامو دادا کی طاقت کا جلوہ دیکھنے کے بعد افسانے کے واحد متکلم راوی کے غصہ کا کافور ہو جانا فطری بات ہے۔ ظاہر ہے پورے سماجی و سیاسی نظام اور انتظامیہ کے سامنے ایک سیدھے سادے عام آدمی کی مزاحمت کیا معنی رکھتی ہے۔ لیکن معاً سرد راکھ میں دبی چنگاری کی طرح یہ خیال واحد متکلم راوی کے دل میں آیا ہو گا کہ وہ ایک زندہ وجود ہے اور زندہ رہنا اس کا بنیادی حق ہے۔ شاید اسی لئے گھر میں دبک کربیٹھنے کے بجائے وہ شامو کے شراب خانے پر پہنچ جاتا ہے۔ یہاں ضروری معلوم ہوتا ہے کہ آپ افسانے کا اختتامی حصّہ ملاحظہ کریں :
  ’’مَیں اسی طرح بینچ پر شامو کی طرف دیکھ رہا تھا۔ شامو نے اپنی لنگی اوپر چڑھاتے ہوئے کڑے لہجے میں پوچھا : ’’اب کیا ہے؟‘‘
 معاً اس کی اور میری نظریں ملیں۔ اس کی آنکھوں سے چنگاریاں نکل رہی تھیں۔ میں نے نہایت پُرسکون لہجے میں جواب دیا۔ ’’پائو سیر موسمبی اور ایک سادا سوڈا۔ ‘‘
 شامو کے ہاتھ سے لنگی کے چھور چھوٹ گئے وہ حیرت سے میری طرف دیکھنے لگا۔ نیم دائرہ کی شکل میں کھڑے اس کے چھوکرے بھی حیران نظروں سے ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے۔ ان کیلئے میرا رویہ قطعی غیر متوقع تھا، مَیں نے اسی ٹھہرے ہوئے لہجے میں آگے کہا: ’’اور ایک پلیٹ بھُنی ہوئی کلیجی بھی دینا۔ ‘‘
 بظاہر افسانے کا راوی شامو کے سامنے ہتھیار ڈال رہا ہے لیکن اس فقرے میں پوشیدہ مزاحمتی آہنگ کو بھی سنا جا سکتا ہے جو سلام نے اس کے مکالمےکی زیریں لہر میں چھُپا دیا ہے۔ مکالمے میں غم اور شکست خوردگی کے پہلو کے ساتھ ساتھ طنز اور تمسخر کا پُٹ بھی موجود ہے، جس سے کہانی میں ایک گونج سی پیدا ہو گئی ہے اور اس طرح مفاہمت کا اظہارانحراف کا پیش لفظ بن جاتا ہے۔ ویسےلڑ کر مرنے سے زیادہ زندہ رہنے کو بہتر سمجھنے والے سلام کے افسانوں میں ابھرنے والے مختلف افراد کے بیچ ہماری ملاقات ایسے کرداروں سے بھی ہوتی ہے جو اختتام میں اپنی بُزدلانہ خاموشی اور دانشمندانہ مفاہمت کا مکھوٹا اتار کر کھلے بندوں مزاحمت درج کرتے ہیں۔ 
 ’’واسو‘‘ کے اختتام میں اپنے خاندان کے جملہ افراد سے اپنے رشتے کا انکار مزاحمتی رویے کا توانا اظہار ہےکہ وہ جانتا ہے مزاحمت کی موت سُپردگی کی موت سے بہتر ہے۔ اسی طرح ’’مراجعت ‘‘ میں مرد اور عورت کا افسانے کے آخر میں نئی زندگی شروع کرنے کے فیصلے کے بعد انسانی بستی میں لوٹنے کے بجائے جنگل کا رُخ کرنا اور جنگل میں داخل ہونے سے قبل خود کو بے لباس کر دینا انسانی تہذیب کے ہزاروں سال کے ارتقا اور تہذیبی، ثقافتی اور اخلاقی ترقی پر ایک بڑا سوالیہ نشان لگا دیتا ہے۔ مزاحمت اور بغاوت کی جو لہریں ہمیں مذکورہ بالا افسانوں میں دکھائی دیتی ہے سلام کے زیادہ تر افسانے اس سے محروم اور محفوظ ہیں۔ سوال یہ ہے کہ بغاوت کس کے خلاف اور کس بنیاد پر؟ جب پورے انسانی معاشرہ میں جھوٹ اور سچ، حق اور باطل کے چہرے ایک ہی سانچے میں ڈھلے ہوئے ہوں تو انکار اور اثبات کس کا ہو؟ ایسی صورتحال میں سلام کی اس وضاحت کو کہ ’’میں باغیوں کی کہانیاں نہیں لکھتا کیونکہ میرے عہد میں کوئی باغی نہیں ہے ‘‘ وسیع ترسماجی و سیاسی سیاق میں دیکھنا، سمجھنا اور پرکھنا ضروری ہے۔ گویا زندہ اور متحرک rejoinder کے طور پر افسانہ نگار اپنے تمام تر تعصبات کے ساتھ افسانوی متن میں موجود ہے۔ 

یہ بھی پڑھئے: دانشورعہدنامہ ٔ قدیم کے ایک پیامبر کی طرح ہوتا ہے

 ’’انجام کار‘‘ اور ’’خوں بہا‘‘ دونوں  افسانوں کے مرکزمیں  شکستِ خواب اور احساسِ ہزیمت ہے اور دونوں ہی افسانوں کے محوری کردار اختتامی موڑ پر وقت کے جوار بھاٹے میں  متلاطم اپنے وجود کو حالات کے جبر کے سامنے سونپ دیتے ہیں ۔ لیکن یہاں  ’’انجام کار‘‘ کا واحد متکلم راوی اور ’’خوں بہا‘‘ کے مصلحت گزیدہ اسکول ٹیچرکے رویےمیں جو افتراق ہے اسے ذہن میں رکھنا چاہئے ۔ ’ ’انجام کار‘‘کے اختتام میں واحد متکلم کا پائو سیر موسمبی کے ساتھ ایک پلیٹ بھُنی کلیجی مانگنا جانکاہ درد کی ترجمانی کرتا ہے اور اس درد میں شدّت بھی ہے اور گہرائی بھی۔ چہ جائیکہ اس شدّت کا نشانہ صرف شامواور معاشرہ یاسیاسی و سماجی نظام ہی نہیں، واحد متکلم کی ذات بھی ہے۔ جبکہ وقت کو اپنے سانچے میں ڈھالنے والا ’’خوں بہا‘‘کااسکول ماسٹرنہ صرف خود وقت کے سانچے میں  ڈھل جاتا ہے بلکہ اپنے اس ڈھلنے کا جواز پیش کرتا ہوا محسوس ہوتا ہے ۔ ’’خوں بہا‘‘کا اختتامی حصہ ملاحظہ ہو:
اتنے میں پاس ہی سے کسی بچے کے رونے کی آواز سنائی دی۔ 
 میں نے چونک کر دیکھا ۔ جھونپڑے کے سامنے چھجے کی کڑیوں سے ایک جھولا لٹک رہاتھا ... ...کاشیا نے ہاتھ بڑھا کر جھولے کو دو تین جھکولے دیے ۔ بچے کا رونا بند ہو گیا۔ 
 ’’ششی کا بچہ ہے؟‘‘میں نے پوچھا۔ 
 ’’ہاں ... ‘‘کاشیا نے جواب دیا۔ 
 میں اٹھ کر جھولے کے قریب گیا ... ...میں اندھیرے کے سبب بچے کی شکل نہیں دیکھ سکا ۔ مگر اتنا اندازہ ہو گیا کہ ایک دس گیارہ مہینے کا تندرست بچہ جھولے میں سو رہا ہے۔ میں نے جھک کر اس کی پیشانی پر بوسہ دیا... اور ... اُسی دوران سب کی نظریں بچا کر پاٹل کا دیا ہوا پانچ ہزار روپے کا پاکٹ اس کے پنگوڑے میں ڈال دیا ۔ 
 پھر میں تیزی سے مڑ کر بولا۔ ’’اچھا... مادھو !اب میں چلتا ہوں ... ‘‘
 بدلتے ہوئے حالات سے یہاں سمجھوتے کا اظہار افسانہ نگار کے مزاحمتی رویے کا اظہار نہیں بن پاتا ہے۔ سلام بن رزاق کے مختلف افسانوں میں ان کے کردار ناقابلِ برداشت صورتحال میں بس پھڑپھڑا کراس لیے رہ جاتے ہیں کہ اُن کی نسوں میں جوش مارتے خون کی کمی ہے لیکن یہ خون منجمد نہیں ہوا ہے اس طرح اُن کا پھڑپھڑانا بھی مزاحمت کو درج کرنے کی ایک جہت ہے۔ لیکن دھیان رہے پھڑپھڑاہٹ باغیانہ اظہارکاقائم مقام نہیں ۔ زمیندار کی طرف سے منہ بند رکھنے کیلئے دیے گئے روپے مقتول کے نومولود بیٹے کے پالنے میں  ڈال کراسکول ماسٹر کا چلے آنا اپنی بزدلی اور کم ہمتی کو Justifyکرنے کے علاوہ کچھ نہیں ۔ حقیقت کی بازیافت کے بجائے اظہار حقیقت تک خود کو محدود رکھنے والے ’’خوں بہا‘‘ کے اسکول ٹیچر کی خود اطمینانی ایک معاشرتی خود کشی سے عبارت ہے۔ ٹیچر نے اپنی روح کے اندھیرے کو قبول کر لیا ہے مگر اس کی یہ قبولیت افسانے کو کسی گرہ دار معنی کا حامل بنانے سے محروم رکھتی ہے۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ ’’خوں  بہا‘‘ کا خالق اپنے مرکزی کردار کیلئے کوئی مناسب معروض تلاش کرنے میں ناکام ہے۔ 
 سلام بن رزاق کا افسانہ وقت کو گڑھتا نہیں ہے، فقط وقت میں نواس کرتا ہے۔ اپنی نا آسودہ آرزوئوں سے پریشان اور اپنے ناکردہ گناہوں سے پشیمان سلام بن رزاق کے کردار سماجی و سیاسی نظام کی اَن دیکھی اور انجانی دیوار وں کے حصار میں ہیں ۔ ’’خبر‘‘ اور’’ تصویر‘‘ ایک ہی تھیم پر الگ الگ اسلوب میں لکھے گئے سلام کے دو ایسے افسانے ہیں، جنہیں ہم ایک دوسرے کی توسیع کہہ سکتے ہیں ۔ ’’خبر‘‘ تاش کھیلنے والے چار دوستوں کی کہانی ہے جو تاش کھیلتے ہوئے کسی خبر کے منتظر ہیں ۔ مکالموں کے تانے بانے سے تیار سلام بن رزاق کے اس افسانے میں Happeningsندارد ہیں اور پورا افسانہ ایک جگہ پر قدم تال کرتا ہوا نظر آتا ہے، گو کہ کنایاتی اور معنی خیز مکالمے قاری کی ذہنی سطح کو مُرتعش اور فکری سطح کو متحرک کرتے ہیں ۔ ’’تصویر‘‘ میں سلام نے انشائیہ کا انداز اپنایا ہے اور زبان کے خلاقانہ استعمال سے افسانوی فضا کو ایک مخصوص صوتی آہنگ فراہم کیا ہے۔ ’’تصویر‘‘ میں چار دوست جن کے نام، ذات، مذہب اور مسلک الگ الگ ہیں روز شام کو ایک بار کی میز کے گرد جمع ہوتے ہیں اور اپنے اپنے خوابوں میں مختلف رنگ بھرتے ہیں ۔ زبان کے خلاقانہ استعمال نے’’تصویر‘‘ کو مخصوص آہنگ عطا کیا ہے۔ دونوں افسانوں میں کردار محض انتظار کرتے ہیں اور خواب دیکھتے ہیں ۔ خبر کا انتظار کرنے والوں میں نہ خبر بننے کا حوصلہ ہے اور نہ خواب دیکھنے والوں میں اس کی تعبیر تلاش کرنے کا سلیقہ ہے۔ اس لیے روٹین کے دائرے کے گرد دوڑ دوڑ کر اپنے دن کو رات اور رات کو دن کررہے ہیں اور اپنی دُم کو اپنے منہ میں دبائے زندگی کے معمول زدہ دائرے کے گرد دوڑ رہے ہیں ۔ ’’درمیانی صنف کے سورما‘‘ میں بھی ایسے بے عمل اور عمل کا سوانگ رچانے والے کرداروں کوسلام نے پیش کیا ہے۔ لیکن یہاں غیر متحرک معاشرے میں اُمید کی خواہش کا اظہار موجود ہے۔ درمیانی صنف کے سورما فقط جلوس نکال کر شور شرابا اور ہنگامہ برپا کرتےہیں، ، نعرے لگانے ہیں مگر احتجاج نہیں کرتے بلکہ احتجاج کا سوانگ بھرتے ہیں جبکہ عمل پر یقین رکھنے والے مزاحمت درج کرنے کیلئے اپنے راستے ڈھونڈ ہی لیتے ہیں ۔ افسانوی تناظر میں یہ تیسری صنف کو جس طرح تمسخرانہ انداز میں  پیش کرتا ہے اور اُن کی کمزوری کو ہدف بناتا ہے، وہ مناسب نہیں ہے کیونکہ افسانے میں تیسری جنس موضوع نہیں ہے۔ افسانہ اصل میں اُن بزدل اور ڈرپوک لوگوں کو نشانہ بناتا ہے جنہوں نے اپنے سینوں پر بہادری کےتمغے سجا رکھے ہیں ۔ 
 رشتوں  کا جبر، بکھرائو، ان کی بے معنویت اور الیوژن سلام بن رزاق کے کئی افسانوں  کا موضوع اور تھیم ہے۔ البم، مکھوٹے، مراجعت، بیعت، آواز گریہ، واسو، ایک اور شرون کمار وہ افسانے ہیں جن میں ایک طرف رشتوں کی ٹوٹ پھوٹ اور ان کی پہنائیوں کا اظہار ہے تو دوسری طرف معاشرے کے اندورنی تضاد کو بے نقاب کرنے کی جہت ہے۔ ا اپنے اولین مجموعے ’’ننگی دوپہر کا سپاہی‘‘ کے اولین افسانے’’البم ‘‘ میں رشتوں کے جبر /الیوژن کے حوالے سے واحد متکلم کی یہ سطریں  دیکھئے: 
 ’’رشتے تو زندگی کا بوجھ ہیں، جسے انسان تاعمر ڈھوتا رہتا ہے۔ یہ ہو سکتا ہے کہ آپ کسی موڑ پر سُستانے کی خاطر تھوڑی دیر کیلئے اس بوجھ کو اُتار دیں، مگر پھر اسے اٹھاتے ہوئے ہی آگے بڑھنا ہوتا ہے۔ حتیٰ کہ آپ قبر کے دہانے پر پہنچ جاتے ہیں ... ماں، بیوی، باپ، بھائی، عزیز رشتے دار کئی پرچھائیاں میرے ارد گرد منڈلارہی ہیں ۔ میں ایک آئینہ بن گیا ہوں، جس میں دوسروں کے عکس گُڈ مُڈ ہو گئے ہیں ۔ اس ہجوم میں اپنی ذات کی انتھک کوشش نے مجھے چور چور کر دیا ہے۔ ‘‘
  تلازمہ ٔخیال کی تکنیک میں لکھا گیا یہ افسانہ چونکانے والے وقوعے کی صورت میں برآمد نہیں ہوتا۔ جذبے اور احساس کی باریک ترین ارتعاشات اور کشمکش ہی میں افسانے کی کہانی نمو پزیر ہوتی ہے، اسی طرح ’’مکھوٹے‘‘ کا غائب راوی اپنی منافقت اور دوغلے پن کو بے نقاب کرتے ہو ئے پورے معاشرے کو آئینہ دکھا دیتا ہے۔ ’’مکھوٹے‘‘سادہ انداز میں لکھا ہوا افسانہ ہے جس کے ’’وہ‘‘ میں افسانہ نگار چھپا ہے۔ رشتوں کی چمکیلی سطح کے نیچے بسنے والے اندھیروں میں چھٹپٹاتے انسان کا مقدمہ ’’واسو‘‘ میں موجود ہے۔ انسانی رشتے جہاں  زندگی کو بامعنی بناتے ہیں وہیں  ان کا جبر زندگی اور زمانے کی لایعنیت کو بھی منور کرتا ہے۔ ہم کون ہیں ؟ کیا ہیں ؟ کیوں ہیں ؟ اپنے آپ تک رسائی حاصل کرنے میں یہی رشتے بیگانہ پن پیدا کرتے ہیں ۔ 
 ’’واسو‘‘ میں سلام بن رزاق نے اس جبر اور درد کو بڑی شدّت سے محسوس کیا اور انتہائی قریبی رشتوں میں بہنے والے جھوٹ، فریب اور ریاکاری کو پرکھنے کی خلاقانہ کوشش کی ۔ یہ اُن کا ایک کامیاب افسانہ ہے جسے بعد میں یک بابی ڈرامے کے قالب میں بھی بخوبی پیش کیا گیاتھا۔ پلاٹ کی ترتیب اور ترکیب کے لحاظ سے ’’واسو‘‘ کو جدید اور روایتی حقیقت کے اسلوب میں لکھے جانے والے افسانوں کا سنگ میل کہا جا سکتا ہے۔ بظاہر یہ ایک سیدھا سادا بیانیہ افسانہ معلوم ہوتا ہے مگر اصل کہانی شفاف بیانیے کے نیچے رواں ہے ۔ اپنے وجود کی تلاش میں نکلے واسو کا کچھ دنوں بعد گھر لوٹنا اور ماں کا اُسے پہچاننے سے انکار کر دینا، ایک چونکانے والی صورتحال ہے جو قاری کوآغاز ہی میں اپنی گرفت میں لے لیتی ہے۔ ماں کا اپنے بیٹے کو پہچاننے سے انکار افسانےکا محوری نکتہ ہے۔ حقیقت پسندانہ اسلوب میں سلام نے ایک علامتی افسانہ تحریر کیا ہے، جوباہری سچائیوں کے بجائے باطنی لینڈاسکیپ کاتجزیہ کرتاہے ۔ رشتوں کے جبر پر لکھے گئے سلام کے زیادہ تر افسانے ایک نقطے سے شروع ہو کر دوسرے نقطے پر نہیں پہنچتے بلکہ اکثر دائرے میں گھوم کر وہیں پہنچتے ہیں جہاں سے شروع ہوئے تھے۔ البتہ اس افسانے یعنی ’’واسو ‘‘میں ہم ایک واقعاتی ارتقا دیکھ سکتے ہیں۔ 
(طویل مضمون سے ماخوذ)

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK