Inquilab Logo

کیا خوب سنترہ ہے

Updated: May 13, 2024, 11:28 AM IST | Mohammad Rafi Ansari | Mumbai

اطباء کا کہنا ہے کہ سنترے کی بعض خوبیاں آج بھی اہلِ نظر سے پوشیدہ ہیں ( کچھ خاصیتیں تو طبیبوں سے بھی پوشیدہ ہیں )۔ بعض ماہرین امراض کا خیال ہے کہ اگر اس کے تمام خواص ظاہر کر د ئیے جائیں توتمام پھلوں کو پس پشت ڈال کر خواص و عوام اس پر ٹوٹ پڑیں گے اور ممکن ہے اس سے لاء اینڈ آرڈر کا مسئلہ پیدا ہوجائے۔

Photo: INN
تصویر: آئی این این

’سنترہ‘ وہ پھل ہے جو انسانوں کا کئی بیماریوں سے دفاع کرتے ہوئے ایک سنتری کا کردار ادا کرتا ہے۔ اس کا رس سب رسوں کا نچوڑ ہوتا ہے۔ اس کی مٹھاس، کھٹاس دور کرتی ہے۔ اس کی کھٹاس سے محظوظ ہوکر آنکھیں نہ چاہتے ہوئے بھی بند ہونے لگتی ہیں۔ بے شمار خوبیوں کے باوجود اس کی طرف شعراء عظام نے ابھی تک خاطر خواہ توجہ نہیں دی ہے۔ کیا عجیب بات ہے سنترہ بڑوں کے کام کا ہے مگر اس کی شان میں قصیدہ کہنے والے بیشتر بچوں کے شاعر ہیں۔ سنتروں کے بارے میں ہمارے ایک شاعر دوست نے کیا خوب کہا ہے :
دیکھو ذرا، پھلوں میں لگتا ہے کتنا پیارا
وہ سنتری ہمارا، وہ سنترہ ہمارا
سنترے کا خول (جسے چھلکا کہنا زیب نہیں دیتا ) کیڑے مکوڑوں کے لئے زرہ بکتر کادرجہ رکھتاہے دشمن جسے نقصان پہنچانے کی کوشش میں مشکل سے کامیاب ہوتاہے۔ اسی لئے سنتروں کے انبار میں زخمی اور داغ دھبوں سے متاثر سنترے کم نظر آتے ہیں۔ افسوس یہ پھلوں کے انبار میں ویسا خراج نہیں پاتا جس کا وہ مستحق ہے۔ پھر بھی جو اسے پہچانتے ہیں وہ اس کی قدرافزائی کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ غور سے دیکھیں تو سنترا کئی حیثیتوں سے ممتازنظر آتا ہے۔ شکلاً یہ گول ہوتا ہے۔ ہر گول شئے روٹی اور چودھویں کے چاندکی طرح انمول نہیں ہوتی لیکن سنتراگول بھی ہے اورقیمتی بھی۔ 
سنترے کے ہم عصروں میں یوں تو کئی پھلوں کا شمار ہوتا ہے جیسے انار، ناشپاتی، سیب، تربوز، خربوزہ اور آم۔ ان نامور پھلوں میں خربوزے اور آم کا رتبہ اعلیٰ ہے۔ ان دونوں پھلوں کے ساتھ انگنت واقعات کا بیان کتابوں میں درج ہے۔ پھلوں سے رغبت نہ رکھنے والے بھی اس سے استفادہ کرتے ہیں۔ آم کی تعریف میں رطب اللسان ہونے والے اس کی گٹھلی سے بھی لطف اندوز ہوتے دیکھے جاتے ہیں۔ کوئی اس کا سبب دریافت کرے تو کہتے ہیں ’’آم کے آم گٹھلیوں کے دام۔ ‘‘رہا سوال خربوزے کا، توبات یہ ہے کہ خربوزے کے میٹھا یا اسکے پھیکے ہونے کا اندازہ لگانا کوئی آسان نہیں ہوتا۔ اس لئے ماہر گاہک کبھی پھل فروش کے بیان پر بھروسہ نہیں کرتا بلکہ اپنی چھٹی حس کو بروئے کار لاکر پھل کا انتخاب کرکے باریاب ہوتا ہے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ رنگ بدلنے والے خربوزے(اور آدمی) کی شناخت ہمیشہ آسان ہوتی ہے۔ سنترے کے ساتھ کوئی معاملہ نہیں۔ وہ آپ اپنا تعارف ہے۔ 
اطباء کا کہنا ہے کہ سنترے کی بعض خوبیاں آج بھی اہلِ نظر سے پوشیدہ ہیں ( کچھ خاصیتیں تو طبیبوں سے بھی پوشیدہ ہیں )۔ بعض ماہرین امراض کا خیال ہے کہ اگر اس کے تمام خواص ظاہر کر د ئیے جائیں توتمام پھلوں کو پس پشت ڈال کر خواص و عوام اس پر ٹوٹ پڑیں گے اور ممکن ہے اس سے لاء اینڈ آرڈر کا مسئلہ پیدا ہوجائے۔ 
ابھی تک کی خبر یہی ہے کہ سنترے میں وٹامن ’ سی‘ پایا جاتا ہے۔ یہ وٹامن سی سنترے کھانے والے کی سیہ روزی کو ختم کرکے اسے خوش مزاجی میں تبدیل کرتا ہے۔ اسی لئے کہتے ہیں کہ روز ایک سنترہ کھانا خوش نصیبی کی دلیل ہے۔ مشکل یہ ہے کہ یہ روز روز ملتا نہیں ۔ آج پوچھو، کل غائب، اکثر صرف دیکھنے کو مل جاتا ہے۔ گویا ’ جھونکا ہوا کا تھا اِدھر آیا اُدھر گیا‘۔ 
مغلیہ سلطنت کے ساتویں حکمراں محمد شاہ جو رنگ و آہنگ کے سرپرست و نگراں تھے، اس کے بڑے مداح تھے۔ انھوں نے سنترے کو ’ رنگترہ ‘ کا نام دیا تھا۔ افسوس کہ تقدیر کے رنگ بدلتے ہی ’رنگ میں بھنگ ‘ ہوگیا اور شاہ کا دیا ہوا نام بس ایک حوالہ بن کر رہ گیا۔ 
سنترے کی کئی قسمیں ہیں۔ ایک قسم ’مالٹا‘ کہلاتی ہے۔ مالٹا کی بھی کئی قسمیں بتلائی جاتی ہیں۔ ہمارے یہاں جومالٹا بازارِ خورد میں دستیاب ہے جانکاروں کے مطابق وہ ’مالٹا قسم سوم ہوتا ہے۔ مالٹاکو پہاڑی پھل بھی کہتے ہیں۔ اس کی پیداروا کرنے والے شاہین صفت ہوتے ہیں۔ جن میں سے اکثر پہاڑوں کی چٹانوں میں بسیرا کرتے ہیں۔ 
بعض اہلِ نظر سنترے کے رنگ کو جو نارنگی ہوتا ہے اسے ’زعفرانی‘کہنا پسند کرتے ہیں۔ دانا، انتخابات کے موقع پر رائے دہندگان کی خدمت میں ووٹ دینے سے پہلے (نوٹ کے ساتھ) ایک عدد سنترہ پیش کرنے کے بارے میں غور کررہے ہیں۔ دیکھئے کیا نتیجہ برآمد ہوتا ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK