مذہب و عقیدہ پر قائم ہونے کی اصل شکل یہ ہے کہ خالق و مخلوق کے درمیان کے پردے ہٹانے یا حد قائم کرنے کے ساتھ اپنے اپنے مذہب و مسلک کے مطابق خالق کی عبادت اس طرح کی جائے کہ مخلوق یا انسان کی بستیوں میں نفرت و انتشار نہ پیدا ہو اور مخلوق خدا کو فائدہ بھی پہنچے۔
بھارت میں اکثریت اور اقلیت دونوں میں مذہبی اختلافات ہیں۔ تصویر: آئی این این
کچھ عرصے پہلے حضرت محمدﷺ کی شان میں حکمراں جماعت کی ایک خاتون نے گستاخی کی تھی۔ اس کے بعد ایک ہی ریاست کے پہاڑی اور میدانی علاقوں کے عوام کے درمیان خونیں صف آرائی ہوئی۔ اس صف آرائی میں مذہبی تفریق بھی شامل تھی اور اب تمل ناڈو کے وزیراعلیٰ کے بیٹے اور وزیر نے بھارت میں سب سے زیادہ مانے جانے والے مذہب سناتن دھرم کے خلاف کچھ ایسی باتیں کہی ہیں جو لاکھوں کی دل آزاری کا باعث ہوئی ہیں ۔ ہم ’اپنا مذہب و عقیدہ چھوڑو مت اور دوسروں کا مذہب و عقیدہ چھیڑو مت‘ کے قائل ہیں اس لئے جھگڑے فساد میں نہیں پڑتے البتہ اپنی دھرتی اور اپنے لوگوں کے مذاہب کا احترام کرنے کے ساتھ احترام و رواداری اور پرستش میں فرق کرتے ہیں ۔ خوشی کی بات ہے کہ وزیراعظم نریندر مودی نے اپنے تمام وزیروں کو مشورہ دیا ہے کہ وہ سناتن دھرم پر دیئے گئے بیان کا صحیح طریقے سے اور سختی سے جواب دیں ۔ یہ خوشی دُگنا ہوگئی ہوتی اگر وہ یہ کہہ دیتے کہ ہر مذہب و عقیدہ کے خلاف کہی گئی نا شائستہ باتوں کا سختی اور شائستگی سے جواب دیا جانا چاہئے۔ اگر مذہبی اور قومی احساس کو ایک دوسرے کا متبادل نہ قرار دیا جائے اور احترام و پرستش میں فرق کیا جائے تو نئے جھگڑے پیدا ہی نہ ہوں اور پرانے جھگڑے مٹ جائیں ۔ اگر کوئی کہتا ہے کہ ہم وطن کی سر زمین اور عوام سے محبت کرتے ہیں اور اس کے لئے ہر قربانی دینے کے لئے تیار ہیں مگر عقیدۂ توحید، رسالت اور آخرت پر کوئی آنچ آنے دینے کے قائل نہیں ہیں تو اس میں قابل اعتراض کیا ہے۔ مذہبی رواداری برحق مگر مذہبی رواداری کا یہ مطلب ہے ہی نہیں کہ اللہ پکارنے کی اجازت دے کر ایسی طاقتوں کی پرستش بہ شکل احترام کی توقع کی جائے جس سے اللہ کی ذات و صفات پر ایمان لانے کے وعدے کی نفی ہوتی ہے۔
اچھا کیا کہ بھارت نے اقوام متحدہ کے ماہرین کے منی پور کے تبصروں کو مسترد کر دیا۔ مگر یہ دیکھنا بھی ضروری ہے کہ منی پور کے پہاڑی علاقوں میں میتئی اور میدانی علاقوں میں کوکی کیوں نہیں رہ گئے ہیں اور یہ بھی کہ منی پور کے واقعات کے کیا اثرات پڑوسی ریاستوں اور پڑوسی ملکوں پر مرتب ہوئے ہیں ۔ اگر کسی نے یہ اثرات دیکھنے یا دنیا کے سامنے اپنی بات پیش کرنے کی کوشش کی تو اس میں غلط باتوں کی نشاندہی اور ان کی تردید کی جاسکتی تھی مگر ایڈیٹرز گلڈ اور فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کے ممبران کے خلاف پولیس کے ذریعہ ایف آئی آر درج کئے جانے کی کیا ضرورت تھی؟ جب گلڈ کے ذمہ داران ایف آئی آر واپس لئے جانے پر اصرار کے ساتھ کسی بھی جگہ مباحثہ کے لئے تیار ہیں تو ایف آئی آر واپس لینے میں آخر کیا قباحت ہے؟ گلڈ نے ہی ریاستی حکومت پر جانبدارانہ رویہ اختیار کرنے کا الزام عائد کیا تھا، اگر اس کو کھلے مباحثے میں غلط ثابت کر دیا جاتا تو اچھا تھا۔ ممکن ہے ریاستی حکومت کے اس موقف میں سچائی ہو کہ گلڈ اپنی رپورٹس کے ذریعہ جھوٹ پھیلا رہا ہے مگر کھلے مباحثے میں بھی تو یہ کہا جاسکتا تھا۔ ادیبوں اور صحافیوں کے خلاف پولیس کا ایف آئی آر درج کیا جانا تو کسی بھی صورت میں درست نہیں کہا جاسکتا۔ ادیب، شاعر، صحافی سے یہ توقع کرنا تو بجا ہے کہ وہ ہرحال میں حق کی طرفداری اور اشاعت کرے اس سے یہ توقع قطعی درست نہیں کہ وہ اپنے قلم کی حرمت کا سودا کرے یا خوشامد کرے۔ صحافیوں ، شاعروں اور قلمکاروں میں خوشامدیوں کو تلاش کیا جاسکتا ہے بلکہ ان دنوں تو ان کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ تلاش کرنے کی بھی ضرورت نہیں مگر کیا انہیں صحافی و شاعر یا ادیب کہا جاسکتا ہے؟ وہ لوگ تو قابل ذکر بھی نہیں ہیں جو ارباب دولت، اقتدار کی عطا یا سفارش سے خود کو شاعر و صحافی اور ادیب سمجھنے لگے ہیں ۔ موجودہ سیاسی منظرنامے میں مسلمانوں میں تو ایسے لوگوں اور جماعتوں کی بھرمار ہوگئی ہے جو حکمرانوں یا لالچ دینے والوں کی خدمت میں ذہن و ضمیر سب پیش کرنے کے لئے تیار رہتے ہیں حالانکہ ان سے اس کا مطالبہ بھی نہیں کیا جاتا۔
مذہب و عقیدہ پر قائم ہونے کی اصل شکل یہ ہے کہ خالق و مخلوق کے درمیان کے پردے ہٹانے یا حد قائم کرنے کے ساتھ اپنے اپنے مذہب و مسلک کے مطابق خالق کی عبادت اس طرح کی جائے کہ مخلوق یا انسان کی بستیوں میں نفرت و انتشار نہ پیدا ہو اور مخلوق خدا کو فائدہ بھی پہنچے۔ مگر جب سیاسی صف آرائی کے لئے مذہب و عقیدہ کا استعمال کیا جاتا ہے تو نتیجہ انتشار و خونریزی کی شکل میں برآمد ہوتا ہے۔ حکمراں جماعت کی ایک محترمہ نے آپﷺ کی شان میں گستاخی کرکے یہی کیا تھا مگر مالک و خالق نے ہمیں قتل و خونریزی سے محفوظ رکھا۔ منی پور میں مذہبی شناخت کی بنیاد پر سیاسی مراعات کا مطالبہ قتل و خون کا سبب بن گیا اور اب تمل ناڈو کے ایک وزیر اور وزیراعلیٰ کے بیٹے نے ایسے بیانات دیئے ہیں جو عوام کے درمیان نہیں دیئے جانے چاہئے تھے۔ بھارت کے لوگوں کی اکثریت جس مذہب و عقیدہ کی حامل ہے اس میں یکسانیت نہیں ہے۔ یہاں مذہب کو فلسفے کا اور فلسفے کو مذہب کا درجہ دیدیا گیا ہے۔ اچھی ہے کہ مذہبی بحث کو ایک خاص دائرے میں ایک خاص سطح پر خاص لوگوں کے درمیان ہی رہنے دیا جائے۔ اپنی ساکھ کو بچانے کے لئے صحافیوں اور ادیبوں کے خلاف پولیس سے مدد لینے کی روش بھی غلط ہے۔
بھارت میں اکثریت اور اقلیت دونوں میں مذہبی اختلافات ہیں ۔ ان اختلافات کے برقرار رہتے ہوئے ہمارے اتحاد و اتفاق کی ایک ہی صورت ہے کہ انسان چاہے مالک و خالق کو جس طرح مانے مگر مالک و خالق کی کسی مخلوق کو یا مخلوق کے کسی طبقے کو نقصان نہ پہنچنے دے۔ مذہب کا بنیادی فلسفہ پُرامن اور باعزت زندگی گزارنے کا حق حاصل کرنے کے ساتھ یہی حق دوسروں کو عطا کرنا ہے۔ اقبال نے ’مذہب نہیں سکھاتا آپس میں بیر رکھنا‘ کا درس دے کر اسی حق کی طرف اشارہ کیا ہے۔ بعض سیاستداں اور مفسر لوگ ضمیر کی آواز پر لبیک کہنے اور زمین پر فساد پھیلانے میں فرق نہیں کرتے۔ حالیہ واقعات یہ فرق نہ کرنے کے ہی سبب رونما ہوئے ہیں ۔