Inquilab Logo

بالی ووڈ میں فرقہ واریت کا رجحان بڑھتا جا رہا ہے

Updated: December 13, 2020, 12:19 PM IST | Jamal Rizvi

فلم انڈسٹری جو کل تک ذات پات، مذہب، قوم اور رنگ و نسل کے حصار سے آزاد تھی، آج ان تعصبات کی زد پر ہے ۔ یہ دنیا اس وقت داخلی سطح پر ایک ایسے انتشار میں مبتلا ہے کہ ان تعصبات سے بالاتر رہ کر سیکولر فکر اور رویے پر مبنی اس کی شناخت باقی رہ پائے گی، اس کے متعلق وثوق کے ساتھ کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ اگر فلمی دنیا کا رنگ روپ بدلا تو یہ صرف اس کا نقصان نہیں ہوگا بلکہ پورے ملک کا نقصان ہوگا

Kangana Ranaut - pic : INN
کنگنا رناوت ۔ تصویر : آئی این این

ہندوستان کی فلم انڈسٹری میں فرقہ واریت کے بڑھتے رجحان کو واضح طور پر محسوس کیا جا سکتا ہے۔ اگر ملک کی عمومی صورتحال کے تناظر میں بالی ووڈ سے وابستہ افراد کی حالیہ سرگرمیوں کا جائزہ لیاجائے تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ چونکہ ان دنوں پورا ملک فرقہ واریت کے بڑھتے رجحان کی زد پر ہے لہٰذا اگر اس کے اثرات فلم انڈسٹری پر بھی نمایاں ہو رہے ہیں تو اس میں حیرت کی کیا بات ہے؟بالی ووڈ کے متعلق رائے زنی کرنے والے بعض سادہ لوح قسم کے لوگوں کا یہ جواز قابل قبول نہیں ہو سکتا۔ اس جواز کے ناقابل قبول ہونے کے کئی اسباب ہیں۔
  ان میں سب سے پہلا اور نمایاں سبب یہ ہے کہ آزادی کے بعد اس ملک میں آئینی سطح پر جس طرز فکر کو قبول کیا گیا، اس کی واضح عملی شکل اس انڈسٹری نے پیش کی۔ فلم انڈسٹری نے سیکولرازم کے تصور کو جو تقویت عطاکی، وہ اس انڈسٹری کی شناخت کا نمایاں حوالہ ہے۔ اس مایا نگری میں قدم رکھنے والوں نے اپنے مذہبی عقائد سے بڑھ کر اس انسانی رویے کو فروغ دینے میں اپنا یقین ظاہر کیا جو تمام نوع انساں کو ایک نظر سے دیکھتا ہے لیکن ادھر گزشتہ کچھ برسوں سے جس طرح زندگی کے مختلف شعبوں میں فکر و عمل کی سطح پر حیرت انگیز اور بعض اوقات افسوس ناک قسم کی تبدیلیاں واقع ہوئی ہیں، ویسا ہی کچھ معاملہ بالی ووڈ میں بھی دیکھا جا سکتا ہے۔اب اس مایا نگری میں مذہب، قوم اور نسل و زبان کے تعصب کا دائرہ بڑھتا جا رہا ہے جس کی وجہ سے یہ دنیا ایک ایسی کیفیت میں مبتلا نظر آتی ہے جو محبت کے بجائے نفرت کو پروان چڑھانے میں فرقہ پرست عناصر کے ہاتھوں کا مہرہ بن گئی ہے۔
 بالی ووڈ سے سیاست کا رشتہ بہت پرانا ہے ۔ اپنے ابتدائی دور ہی سے اس دنیا کے بعض افراد سیاسی گلیاروں میں آتے جاتے رہے اور بعض نے فعال سیاست میں اپنی ایک نمایاں شناخت بنائی ۔ بالی ووڈ سے تعلق رکھنے والے فعال سیاست دانوں کا تعلق دو قسم کی سیاسی جماعتوں سے رہا۔ بعض ان سیاستی پارٹیوں سے وابستہ رہے جو سیکولرازم میں یقین رکھتی ہیں اور بعض نے ایسی سیاسی پارٹیوں کا دامن تھاما جو ایک خاص مذہبی آئیڈیالوجی کواس ملک میں مقبول بنانے کو اپنا ترجیحی سیاسی مقصد قرار دیتی ہیںلیکن آج کی سیاست کا رنگ جس طرح اس انڈسٹری سے وابستہ بعض افراد کے اوپر چڑھ گیا ہے، ایسا معاملہ اب سے دس بارہ برسوں پہلے نہیں تھا۔ اب سے تقریباً ایک دہائی قبل بالی ووڈ سے وابستہ ایسے افراد جو مذہبی شناخت کی حامل سیاسی پارٹیوں میں اونچی حیثیت رکھتے تھے ، وہ بھی عوامی سطح پر کوئی بیان دینے یا اپنے عمل و رد عمل سے ایسا ظاہر کرنے کی کوشش نہیں کرتے تھے کہ وہ صرف ایک خاص مذہب اور اس مذہب کے ماننے والوں ہی کو محترم سمجھتے ہیںلیکن اب حالات اس قدر بدل چکے ہیں کہ اس انڈسٹری سے وابستہ کچھ باقاعدہ طور پر ایسی باتوں کی تشہیر کرتے ہیں جو ایک خاص مذہب کی فضیلت اور  دوسرے مذاہب کی تضحیک کرنے والی ہوتی ہیں۔
 فلم انڈسٹری میں صرف مذہب کی بنیاد پر ہی تفرقہ اور تعصب کا دائرہ وسیع نہیں ہوا ہے بلکہ زبان ، نسل اور علاقہ کی بنیاد پر بھی اس انڈسٹری کے وہ لوگ مختلف گروہوں میں تقسیم ہو تے نظر آ رہے ہیں جو کل تک ایسی باتوں کو بے حقیقت مانتے تھے۔ صرف گزشتہ پانچ چھ برسوں کے دوران اس انڈسٹری سے وابستہ لوگوں کے سماجی اور انسانی رویے میں ہونے والی تبدیلی اس افسوس ناک حقیقت کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ یہ دنیا بھی اب سیکولر قدروں کی پیروی کرنے کے بجائے مذہبی شدت پسندی کی راہ پر چل پڑی ہے۔ بالی ووڈ کے اداکاروں، ڈائرکٹر، پروڈیوسر، موسیقاروں سے لے کر فلم سازی کے مختلف شعبوں سے وابستہ افراد اب اکثر ایسے بیانات دیتے نظر آتے ہیں جو عوام کے درمیان مذہبی منافرت کے بڑھنے کا سبب ہو سکتے ہیں۔سوشل میڈیا کے مختلف پلیٹ فارموں پر ایسے سیکڑوں بیانات بہ آسانی مل جائیں گے جو بالی ووڈ سے وابستہ افراد کی ایسی سوچ کو ظاہر کرتے ہیں جو فرقہ واریت پر یقین رکھتی ہے۔ مزید افسوس کی بات یہ ہے کہ بعض فلمی ستارے ایسے بیانات جاری کرتے وقت اس درجہ غیرشائستہ زبان استعمال کرتے ہیں جو کسی مہذب سماج میں قبول نہیں کی جا سکتی ۔یہ واقعی ایک افسوس کا مقام ہے کہ کل تک جس فلم انڈسٹری کے لوگ نہ صرف پردۂ سیمیں پر بلکہ اصل زندگی میں بھی پیار و محبت کے رجحان کو مقبول بنانے میں سرگرم نظر آتے تھے.... آج وہیں سے نفرت اور تعصب پر مبنی فکر کو عام کیا جارہا ہے ۔
 فلمی دنیا کے اس بدلتے ہوئے رنگ ڈھنگ کا ایک سبب یہاں کی بعض نام چین ہستیوں کا قرب اقتدار حاصل کرنے والاوہ رویہ رہا جس کی بنا پر ان کا سیاسی استحصال کیا گیا۔ چونکہ بالی ووڈ کے لوگوں میں یہ رویہ اب اپنا دائرہ وسیع کر چکا ہے لہٰذا ہر کوئی اس بات کی خواہش میں مبتلا ہو گیا ہے کہ اسے اقتدار سے قربت حاصل ہو جائے۔گزشتہ دو تین برسوں کے دوران ملک کے قدآور سیاست دانوں کا جس تواتر کے ساتھ یہ آنا جانا لگا، اس کا اثر بہرحال یہاں کی فضا پر پڑنا تھا۔وہ سیاسی لیڈر جو یہاں سے متواتر رابطہ بنائے رہے ، ان میں اکثریت ایسے لوگوں کی تھی جو فرقہ واریت کی بنیاد پر اپنی سیاسی دُکان چلاتے ہیں۔ ایسے سیاست دانوں کے ربط میں آنے کے بعد فلمی دنیا سے وابستہ بعض افراد بھی اسی راہ پر چل نکلے اور سیکولرازم کے اس تصور کو زینت طاق نسیاں بنادیا جو اس انڈسٹری کی انفرادی شناخت کا بنیادی حوالہ تھا۔یہ مایا نگری نہ صرف معاشی اعتبار سے اپنی اہمیت رکھتی ہے بلکہ ہندوستانی سماج کے فکر و عمل کو  متاثر کرنے والے ایک اہم عنصر کی حیثیت بھی اسے حاصل ہے۔ اب ایسے میں اگر اس دنیا سے وابستہ افراد خود ہی فکر و عمل کی اس راہ پر چل پڑیں جو تعصب اور تفرقہ پسندی کی راہ ہو تو اس کے اثرات یقیناً سماج کو منفی طور پر متاثر کریں گے ۔ اس منفی اثر کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوگا کہ سماج میں مذہب شدت پسندی کے رجحان کو تقویت ملے گی جو بہرحال ا س مخلوط آبادی والے ملک کے بہتر نہیں ہے۔
 فلمی دنیا سے وابستہ بعض لوگ اس خیال خام میں مبتلا ہیں کہ چونکہ وہ شہرت اور دولت کے معاملے میں سماج کے دیگر لوگوں سے اونچی حیثیت رکھتے ہیں لہٰذا انھیں یہ حق حاصل ہو گیا ہے کہ وہ کسی بھی موضوع پر اظہار خیال کر سکتے ہیں۔ا س پر طرہ یہ کہ نہ صرف اظہار خیال بلکہ اپنے خیال پر ہر کسی کو متفق کرنے کا رویہ بھی بعض کے یہاں دیکھا جاسکتا  ہے۔بالی ووڈ کے بعض لوگ جس اندا زمیں سیاست، سماج اور مذہب سے وابستہ بعض حساس موضوعات پرمتواتر اپنی رائے (ناقص) ظاہر کرتے رہتے ہیں، وہ ان معاملات کو مزید پیچیدہ بنانے والی ہوتی ہے۔ایسی صورت میں ان عناصر کو اپنی دکان چمکانے کا موقع مل جاتا ہے جو فرقہ پرستی اور مذہبی شدت پسندی میں یقین رکھتے ہیں۔ابھی گزشتہ دنوں بالی ووڈ کے بعض لوگوں نے جس طرح کسانوں کے احتجاج پر اپنی رائے ظاہر کی وہ یہ ثابت کرنے کیلئے کافی ہے کہ اب اس مایا نگری میں اقتدار کا دخل بہت بڑھ گیا ہے۔ ایسے فلمی لوگ جو خود کو نام نہاد دانشوری کے مرتبہ پر فائز سمجھتے ہیں، وہ محض ایک کم حیثیت سیاسی مہرہ ہیں جن کی شہرت کا فائدہ اٹھا کر سیاسی بازی گر انھیں استعمال کر رہے ہیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ ایسے فلمی لوگ اپنے استعمال ہونے پر نازاں بھی ہیں ۔
 ہندوستان کی فلم انڈسٹری جو کل تک ذات پات، مذہب، قوم اور رنگ و نسل کے حصار سے آزاد تھی، آج ان تعصبات کی زد پر ہے ۔ یہ دنیا اس وقت داخلی سطح پر ایک ایسے انتشار میں مبتلا ہے کہ ان تعصبات سے بالاتر رہ کر سیکولر فکر اور رویے پر مبنی اس کی شناخت باقی رہ پائے گی، اس کے متعلق وثوق کے ساتھ کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ اگر اس دنیا کا رنگ روپ بدلا تو یہ صرف اس دنیا کا نقصان نہیں ہوگا بلکہ ان کروڑوں فلم شائقین کا بھی نقصان ہوگا جو تعصب زدہ ماحول میں بھی انسانوں کے درمیان انسانی فکر کو عام کرنے میں یقین رکھتے ہیں اور اس کوشش کو کامیاب بنانے میں وہ مذہب، قوم ، رنگ ونسل کی تفریق کو بالائے طاق رکھ دیتے ہیں۔ اقتدار کی قربت کے جنون میں مبتلا فلمی دنیا کے ان لوگوں کو ہوش کے ناخن لینے کی ضرورت ہے جو اپنے فائدے کیلئے مذہبی فرقہ پرستی کو بڑھاوا دے رہے ہیں۔یہ مایا نگری جس طرح کل تک سیکولر رویے کی حامل تھی، اسی طرح آج بھی اسے اسی طرز پر آگے بڑھنے کی ضرورت ہے ۔اگراس کے رویے میں فرقہ واریت کے عنصر کو فوقیت حاصل ہو گئی تو یہ خود اس کیلئے بڑا نقصان ہوگا۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK