Inquilab Logo

دیکھئے کہ ایسا ہے، سوچئے کہ یہ کیوں ہے!

Updated: March 22, 2024, 11:49 PM IST | Shahid Latif | Mumbai

اکثر لوگ رمضان المبارک میں زکوٰۃ نکالتے ہیں۔ اسی ماہ میں صدقات، خیرات اور عطیات میں بھی اضافہ ہوجاتا ہے۔ اس کے پیش نظر کیا یہ سوچنا ضروری نہیں کہ اتنا سب کچھ ہونے کے باوجود مسلمانوں کی غربت کم کیو ںنہیں ہوتی؟

Ramadan Mubarak. Photo: INN
رمضان المبارک۔ تصویر : آئی این این

جدوجہد اور ثمرات کا باہمی رشتہ بہت مضبوط ہے۔ انگریزی میں اسے Efforts اور Results نام دیا جاتا ہے۔ جدوجہد جتنی صحیح سمت میں ہوگی، جتنی زیادہ ہوگی اور جتنے بڑے جذبے کے ساتھ کی جائے گی، ثمرات اُتنے ہی بہتر، دلخوش کن اور مثالی ہونگے۔ ہمارے معاشرہ میں جدوجہد ہی کا مسئلہ ہے۔ اس میں شک نہیں کہ بعض دردمند افراد اپنے طور پر بہت کچھ سوچتے ہیں اور کسی نہ کسی عملی کاوش کو ضروری سمجھتے ہوئے اُسے جاری و ساری کرتے ہیں مگر ایسے افراد کم ہی نہیں بہت کم ہیں۔ یعنی جدوجہد جتنی ہونی چاہئے، نہیں ہے۔ جب جدوجہد ہی کم ہوگی تو ثمرات کیونکر بہت زیادہ ہوں گے؟ آگے بڑھنے سے پہلے یہ سمجھ لیں کہ ثمرات سے کیا مراد ہے؟ ثمرات سے مراد جن مقاصد کے تحت جدوجہد کی گئی، اُن کا پایۂ تکمیل تک پہنچنا۔ ثمرات ہی کے سلسلے میں یہ بھی دیکھا جائیگا کہ مقاصد کیا تھے؟ مقاصد اعلیٰ ہوں، سماج کے بڑے طبقے کو فیضیاب کرنے سے متعلق ہوں، اپنی دینی و ملی ّ شناخت کو مستحکم کرنے سے عبارت ہوں اور انہیں پایۂ تکمیل تک پہنچانے کا راستہ ایسا ہو کہ جس پر، بعد میں آنے والے لوگ، آپ کے نقوش پا تلاش کریں۔اگر جدوجہد اعلیٰ مقاصد کے تحت نہیں کی گئی تو ثمرات بھی قابل ذکر نہیں ہوں گے۔ بعض اوقات جدوجہد میں کمی نہیں ہوتی مگر مقاصد اعلیٰ نہ ہونے کی وجہ سے ثمرات یا تو دکھائی نہیں دیتے یا کسی کے کہنے پر سمجھ میں آتے ہیں، ازخود اپنا تعارف پیش نہیں کرتے۔ 
 اس پس منظر میں، مَیں اکثر سوچتا ہوں کہ مسلمان ہر سال خاص طور پر رمضان میں زکوٰۃ نکالتے ہیں۔ اسے مستحقین میں تقسیم بھی کرتے ہیں۔ بہت سے لوگ زکوٰۃ کے مصارف کو دھیان میں رکھ کر پہلے تحقیق و تفتیش کرلیتے ہیں اُس کے بعد یہ فریضہ ادا کرتے ہیں مگر کیا بات ہے کہ فلسفہ ٔ زکوٰۃ ( لینے والا دینے والا بن جائے) عملی صورت میں ڈھلتا دکھائی نہیں دیتا۔ جب جدوجہد کے ثمرات منظر عام پر ہوتے ہیں تو اس سے جدوجہد کی توفیق بھی بڑھتی ہے اور اس کے تعلق سے اعتماد بھی پیدا ہوتا ہے مگر جب ثمرات منظر عام پر نہ ہوں تو جدوجہد ہی مشکوک ہونے لگتی ہے کہ آیا اس کے مقاصد ٹھیک طریقے سے ذہن نشین ہوئے یا نہیں اور یہ صحیح سمت میں جاری ہے یا نہیں۔ چونکہ لینے والا عموماً دینے والا بنتا دکھائی نہیں دیتا بلکہ لینے والا لیتے رہنے والا بن جاتا ہے اسلئے مسلمانوں کو نظم زکوٰۃ کے تعلق سے اپنا محاسبہ کرنا چاہئے کہ اُن کی یہ جدوجہد، جو اسلام کے عظیم معاشی فلسفے کو عملی جامہ پہنانے کے مقصد سے کی جاتی ہے، صحیح سمت میں جاری ہے یا نہیں۔ زکوٰۃ اتنا مضبوط و مستحکم نظام ہے کہ اس کے ہوتے ہوئے معاشرہ میں غربت و بدحالی کا گزر تک نہیں ہونا چاہئے مگر کسی بھی کمیشن کی رپورٹ اُٹھا کر دیکھ لیجئے، کسی بھی ماہر معاشیات کا تبصرہ دیکھ لیجئے، آپ یہی پائینگے کہ ہندوستانی مسلمان معاشی طور پر سماج کا سب سے کمزور طبقہ ہیں۔ ۲۰۲۲ء کی ’’اِنڈیا ڈسکریمنیشن رپورٹ‘‘ کا لب لباب یہ تھا کہ ہندوستانی مسلمانوں کی حالت روز بہ روز اس لئے کمزور تر ہورہی ہے کہ معاشی مواقع نہ ملنے کے سبب اُن میں تعلیم کم ہے اور وہ اُن تمام نعمتوں سے بڑی حد تک محروم ہیں جو ایک تعلیم یافتہ سماج کو ازخود حاصل ہوجاتی ہیں۔ اس رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ ایس سی، ایس ٹی اور مسلم، سماج کے یہ تین طبقات ہیں جو محدود وسائل کے ساتھ زندگی گزار رہے ہیں۔ 
 ہوسکتا ہے میرے سوچنے سمجھنے کا طریقہ غلط ہو مگر مجھے ایسی ہر رپورٹ ہمارے نظامِ زکوٰۃ پر تبصرہ معلوم ہوتی ہے۔ کیا یہ نظام ٹھیک طریقے سے نافذ نہیں ہے؟ کیا جتنی زکوٰۃ نکلنی چاہئے، نہیں نکل رہی ہے؟ کیا زکوٰۃ کی رقومات مستحقین تک نہیں پہنچ رہی ہیں؟ کیا اس کا پیداواری استعمال نہیں ہورہا ہے؟ یہ تمام سوالات ذہن میں اُبھرنے لگتے ہیں جو اس لئے اُبھرتے ہیں کہ فلسفہ و نظام ِ زکوٰۃ کا بنیادی مقصد وہی ہے جو بیان کیا گیا کہ لینے والا دینے والا بن جائے۔ کیا کبھی ہم اس موضوع پر غوروفکر کرتے ہیں کہ لینے والا دینے والا بن رہا ہے یا نہیں؟ اگر نہیں بن رہا ہے تو کیوں نہیں بن رہا ہے؟ کیا جدوجہد میں کمی ہے؟ عام مشاہدہ ہے کہ معاشرہ میں جدوجہد تو ہے کیونکہ زکوٰۃ  نکالی جاتی ہے۔ تو پھر ثمرات کیوں نہیں ہیں؟ یا، کم کیوں ہیں؟ کیوں کبھی سننے میں نہیں آتا کہ برادران وطن اس فلسفہ و نظام کو سمجھنے کیلئے مسلمانوں سے رابطہ قائم کررہے ہیں کہ ذرا بتائیے اس کی کیا منطق ہے اور کس طرح آپ کے ہاں غربت کی شرح بہت کم ہے؟ 
 ایسا بھی نہیں ہے کہ آبادی بڑھنے کے سبب مسلمان معاشی زبوں حالی کا شکار ہوئے۔ ۲۰۲۱ء کی مردم شماری نہیں ہوئی مگر ۲۰۱۱ء کی مردم شماری میں یہ حقیقت افشا ہوئی تھی کہ ۱۹۹۱ء سے ۲۰۱۱ء کے درمیان مسلم آبادی کے اضافے کی رفتار کم ہوئی۔ کم ہونے کی اس رفتار کو ۴ء۷؍ فیصد بتایا گیا۔ اب اس زاویئے سے غور کیجئے کہ ایک طرف آبادی بڑھی نہیں، دوسری طرف۱۹۹۰ء کے بعد بہت سے خاندانوں کے مالی وسائل میں اضافہ ہوا، ایسے میں غریب آبادی کم نہ بھی ہوتی تو جوں کی توں رہتی، مگر ایسا بھی نہیں ہوا بلکہ غربت بڑھی تو پھر ہر سال تقسیم ہونے والی زکوٰۃ کہاں گئی؟
  زکوٰۃ کے ساتھ ہی صدقات و خیرات کو بھی ذہن میں رکھئے اور  یہ بھی ملحوظ رکھئے کہ مسلمان صدقات و خیرات دینے میں بخل سے کام نہیں لیتے۔ ہر مسجد کے باہر سائلین کی بڑی تعداد موجود ہوتی ہے۔ انہیں کچھ نہ کچھ مل جاتا ہے تبھی تو اتنی پابندی کے ساتھ اُن کی اتنی بڑی جمعیت مساجد کے باہر اور سامنے موجود رہتی ہے۔ جب اتنا دیا جارہا ہو تو غربت کافور ہوجانی چاہئے؟ مگر نہیں ہوتی اور جب نہیں ہوتی ہے تو اس نکتے اور مسئلے کو خصوصی غوروفکر کا موضوع بننا چاہئے۔
دراصل یہ پورا نظام (زکوٰۃ، صدقات، خیرات، عطیات) افراد کے ذریعہ جاری و ساری ہے اور افراد اپنے طور پر فیصلے کرتے ہیں۔ وہ اپنے سامنے موجود سائل کی فوری ضرورت کو پورا کرنے کیلئے دیتے ہیں اور وسیع تر مقصد کو بھول جاتے ہیں کہ اُن کی رقم اتنی بار آور ہو کہ آج جو نیچے والا ہاتھ ہے وہ کل اوپر والا ہاتھ بن جائے۔ ظاہر ہے اس کیلئے اسلامی نظام معیشت کو سمجھنا ہوگا۔ اس کیلئے مختصر مدتی منصوبہ بھی درکار ہوگا، طویل مدتی بھی۔ ا س کیلئے ہمیں ڈسپلن بھی اختیار کرنا ہوگا اور وسیع تر مقاصد کیلئے جینے کا اسلوب بھی۔ 

ramadan Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK